PAK Magazine
Wednesday, 22 March 2023, Week: 12

Pakistan Chronological History
Annual
Annual
Monthly
Monthly
Weekly
Weekly
Daily
Daily
Alphabetically
Alphabetically


1979

Bhutto Hanged on April 4, 1979

Wednesday, 4 April 1979

Pakistan's first democratic elected Prime Minister Zulfikar Ali Bhutto was hanged by A Military dictator General Zia-ul-Haq on April 4, 1979..

ذوالفقار علی بھٹوؒ کو پھانسی دی گئی

بدھ 4 اپریل 1979
Bhutto hanged on April 4, 1979
بھٹو کو پھانسی دے دی گئی

سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹوؒ کی پھانسی ، پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ تھا۔۔!

4 اپریل 1979ء کو بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد ان کی لاش ایک خصوصی طیارے سے آبائی گاؤں نوڈیرو پہنچائی گئی جہاں نماز فجر کے بعد نماز جنازہ پڑھوا کر سرکاری نگرانی میں تدفین کی گئی تھی۔ گیارہ بجے کی ریڈیو خبروں میں یہ خبر عام کی گئی تھی کہ سابق وزیراعظم بھٹو کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ پاکستان کے بے بس ، مظلوم و مقہور عوام نے بڑی تعداد میں مختلف شہروں اور قصبوں میں اپنے عظیم رہنما کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھا اور شہید رہنما کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔

بھٹو کو پھانسی کیوں دی گئی؟

بھٹو کی پھانسی ، بظاہر ایک سیاسی مخالف کے قتل کی وجہ سے ہوئی تھی لیکن حقیقت میں یہ پاکستان اور پاکستانی عوام کے خلاف ایک بہت بڑی بین الاقوامی سازش تھی۔ ماضی کے آئینے میں دیکھیں تو واقعات کی کڑیاں خود بخود ملنا شروع ہو جاتی ہیں:
  • بھٹو کو ایک ایسے مقدمہ قتل میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی جس کا سارا دارومدار وعدہ معاف گواہوں پر تھا۔۔!
  • قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جب مقدمہ کمزور ہو ، ثبوت نہ ہوں اور ملزم کو سزا دلوانا مقصود ہو تو وعدہ معاف گواہوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کیس میں ایسا ہی ہوا تھا۔ عام طور پر وعدہ معاف گواہوں کی سزا معاف کردی جاتی ہے یا اس میں تخفیف کردی جاتی ہے لیکن بھٹو کی پھانسی اتنا بڑا جرم تھا کہ اس کے آثار مٹانے کے لیے جھوٹا اعتراف جرم کرنے والوں کو بھی ختم کردیا گیا تھا اور جو مرکزی گواہ تھا ، اس کے بارے میں یہ خبر عام تھی کہ وہ امریکہ بہادر کی حفاظت میں تھا اور کبھی پاکستانی عوام میں نہیں آیا تھا۔
  • نواب محمد احمد خان نامی شخص کے مقدمہ قتل کے میں ملوث فیڈرل سیکورٹی فورسز (FSF) کے پانچ افسران اور اہلکاروں بشمول ڈی جی ایف ایس ایف مسعود محمود اور ڈپٹی ڈائریکٹر غلام عباس کو وعدہ معاف گواہ بنایا گیا تھا جنھوں نے یہ گواہی دی تھی کہ وہ قتل ، انھوں نے وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوؒ کی ہدایت پر کیا اور کرایا تھا۔
  • وعدہ معاف گواہوں کو بھی پھانسی

    یہ گواہیاں ، اقبالی بیانات کی صورت میں دی گئی تھیں جن کے ذریعے انہوں نے خود بھی اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔ چنانچہ اس کیس میں ٹرائل کورٹ بنائے گئے اور لاہور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مرکزی ملزم ذوالفقار علی بھٹوؒ کے ساتھ ساتھ ایف ایس ایف کے اہلکار چار وعدہ معاف گواہوں کو بھی موت کی سزا سُنا دی تھی۔ صرف ایف ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود کو رعایت ملی جو پراسرار طور پر غائب ہوا اور آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ کہاں ہے ، زندہ ہے یا مر کھپ گیا گیا؟
  • بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل کی حقیقت

    احمدرضا قصوری ، 1970ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوا تھا لیکن ڈھاکہ اسمبلی کے اجلاس کے تنازعہ پر اسے پارٹی سے باضابطہ طور پر نکال دیا گیا تھا۔ اس توہین آمیز سلوک پر وہ ، بھٹو کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کیا کرتا تھا۔ حتیٰ کہ اسی بغض میں 1973ء کے آئین کو اس نے وؤٹ تک نہیں دیا تھا۔ اسی نکتے پر 4 جون 1974ء کو وزیراعظم بھٹو کے ساتھ اسمبلی میں اس کی تکرار ہوگئی تھی جس پر بھٹو نے طیش میں آکر کہا تھا کہ "میں نے اس شخص کو بہت برداشت کیا ہے۔ یہ مجسم زہر قاتل ہے۔ اب میں اس کو قطعی برداشت نہیں کروں گا۔۔" بھٹو کے یہی الفاظ مقدمہ قتل کی بنیاد بنا دیے گئے تھے۔
  • وقت کے حکمران کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی!

    اس واقعہ کے چند ماہ بعد 10 نومبر 1974ء کو نواب احمدخان کا قتل ہوتا ہے۔ احمدرضا قصوری اپنے باپ کے قتل کی FIR ، وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوؒ کے خلاف کٹواتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ تھا جب لاہور کے اچھرہ تھانے میں ایک تھانیدار یہ رپورٹ درج کرلیتا ہے۔ اس پر تحقیق ہوتی ہے اور عدم ثبوت کی بنیاد پر کیس داخل دفتر ہوجاتا ہے۔ ایک عام فہم شخص بھی جانتا تھا کہ سیاسی طور پر احمدرضا قصوری یا اس کا باپ ، بھٹو کے لیے کسی طور پر اہم یا خطرناک نہیں تھے اور کوئی بھی حکمران اپنے دور حکومت میں قتل و غارت یا امن و امان کے مسائل پیدا نہیں کرتا بلکہ نادیدہ قوتیں ایسے مسائل پیدا کرکے حکومت وقت کو غیر مستحکم کرتی ہیں۔
  • بھٹو کو کسنجر کی دھمکی

    یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹوؒ ، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق تھے اور امریکہ اس پروگرام کے سخت خلاف تھا۔ پاکستان کا "اسلامی بم" دنیا بھر کے میڈیا میں مشہور ہوچکا تھا۔ بات یہاں تک جا پہنچی تھی کہ 9 اگست 1974ء کو لاہور میں ایک ملاقات میں خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو یہ مشہور زمانہ دھمکی دی تھی:

    "We will make a horrible example of you" یعنی اگر تم ایٹمی پلانٹ کے حصول کے ارادے سے باز نہ آئے تو "ہم تمہیں ایک عبرتناک مثال بنا دیں گے۔۔"

  • دنیا کی ایک سپرپاور کی طرف سے یہ دھمکی کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس دھمکی کے چند ماہ بعد ہی قتل کی واردات ہوئی تھی جس میں بھٹو کو نامزد کیا گیا تھا۔ پاکستان میں ویسے بھی غداروں اور آستین کے سانپوں کی کمی نہ تھی۔ "مینوں نوٹ وخا ، میرا موڈ بنے۔۔" کے مطابق ڈالروں کی خاطر ملک کی سالمیت اور قوم کی غیرت و حمیت داؤ پر لگانے کی روایات بھی ملتی ہیں۔ 1977ء کے انتخابات میں ایسے ہی سازشی عناصر نے اپنا کھیل کھل کر کھیلا تھا جو پاک میگزین کے دیگر تاریخی واقعات کے صفحات پر تفصیل سے درج ہے۔

بھٹو کی پھانسی کیا پیغام دیتی ہے؟

بھٹو کی پھانسی ، کسی ایک فرد ، ایک رہنما یا ایک نظریے کی نہیں بلکہ پاکستان کے غیور عوام کے خلاف باطل قوتوں کی کامیابی تھی۔ اس پھانسی سے یہ ثابت کیا گیا تھا کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ عوام کبھی نہیں ہو سکتے۔ اور یہ کہ پاکستان جیسے اہم جغرافیائی محل وقوع رکھنے والے خطے میں جنگل کا قانون چلتا رہے گا۔ اور یہ کہ اس ملک میں بھٹو جیسے عظیم ، غیور اور خوددار لیڈروں کی گنجائش نہیں ہوگی۔

اس بدنام زمانہ مقدمہ قتل میں بھٹو کی بےگناہی مسلمہ تھی۔ بھٹو کا مقدمہ قتل ، پاکستانی عدلیہ کے وقار پر ایک بدنما داغ تھا۔ بھٹو کے قتل میں ملوث ایک ایک شخص قومی مجرم اور لعنتی کردار ہے ، تاریخ ایسے غلیظ کرداروں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔۔!

بھٹو کو پھانسی دے دی گئی




Bhutto Excuted..!!!
(Mazhar Iqbal's political diary)

Bhutto Hanged..!!!
(Daily Nawa-i-Waqt Lahore, 5 April 1979)

Bhutto Hanged..!!!
(Daily Dawn, 5 April 1979)

Bhutto Hanged..!!!
(Daily Pakistan Times, 5 April 1979)

Bhutto Hanged..!!!
(Daily Sang-e-Meel Multan, 5 April 1979)



1956
صدر سکندر  مرزا
صدر سکندر مرزا
2020
لاہور میٹرو
لاہور میٹرو
1954
پاکستان کے لیے امریکی امداد
پاکستان کے لیے امریکی امداد
2010
18ویں آئینی ترمیم
18ویں آئینی ترمیم
2018
ناصر الملک
ناصر الملک



تاریخ پاکستان

پاک میگزین ، پاکستانی تاریخ پر اردو میں ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر اہم تاریخی واقعات کو بتاریخ سالانہ ، ماہانہ ، ہفتہ وارانہ ، روزانہ اور حروفانہ ترتیب سے چند کلکس کے نیچے پیش کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اہم ترین واقعات اور شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مخصوص صفحات ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تصویر و تحریر ، ویڈیو اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں محفوظ کیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ ایک انفرادی کاوش اور فارغ اوقات کا بہترین مشغلہ ہے جو اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا ، ان شاء اللہ۔۔!



تاریخ پاکستان ، اہم موضوعات
تحریک پاکستان
جغرافیائی تاریخ
سقوط ڈھاکہ
شہ سرخیاں
سیاسی ڈائری
قائد اعظمؒ
ذوالفقار علی بھٹوؒ
بے نظیر بھٹو
نواز شریف
عمران خان
سکندرمرزا
جنرل ایوب
جنرل یحییٰ
جنرل ضیاع
جنرل مشرف
صدر
وزیر اعظم
آرمی چیف
چیف جسٹس
انتخابات
امریکی امداد
مغلیہ سلطنت
ڈنمارک
اٹلی کا سفر
حج بیت اللہ
سیف الملوک
شعر و شاعری
ہیلتھ میگزین
فلم میگزین
میڈیا لنکس

پاکستان کے بارے میں اہم معلومات

Pakistan

چند اہم بیرونی لنکس


پاکستان کی فلمی تاریخ

پاکستانی فلموں ، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر ایک منفرد اور معلوماتی سلسلہ

سلونی
سلونی
ساقی
ساقی
ماسٹر عاشق حسین
ماسٹر عاشق حسین
خواجہ خورشید انور
خواجہ خورشید انور
کیفی
کیفی
حکیم احمد شجاع
حکیم احمد شجاع
نگہت سیما
نگہت سیما
نسیمہ خان
نسیمہ خان
داؤد چاند
داؤد چاند
آئرن پروین
آئرن پروین


PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan's political, film and media history.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes, and therefor, I am not responsible for the content of any external site.