پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
پير 28 اگست 1978
بھٹو کے خلاف وہائٹ پیپر
بھٹو کے خلاف وہائٹ پیپر
جب ایک آمر نے ایک عوامی لیڈر کے خلاف وہائٹ پیپر شائع کیا۔۔!
28 اگست 1978ء کو پاکستان پر قابض جنرل ضیاع مردود کی حکومت نے پاکستان کے پہلے عوامی لیڈر جناب ذوالفقار علی بھٹوؒ کے خلاف ذرائع ابلاغ کے غلط استعمال پر ایک قرطاس ابیض یا وہائٹ پیپر شائع کیا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ بھٹو نے اپنے دور حکومت میں صحافت پر کیا کیا ظلم ڈھائے تھے۔ اس میں بھٹو مخالف صحافیوں کے بے بنیاد الزامات اور بغض کو بھرپور انداز میں پیش کیا گیا تھا اور یہ ثابت کرنے کی ناکام اور بھونڈی کوشش کی گئی تھی کہ قصور اگر تھا تو صرف بھٹو کا تھا اور ان پر بہتان تراشی اور کردار کشی کرنے والے دودھ میں دھلے ہوئے انتہائی ایماندار اور بے داغ لوگ تھے۔
بھٹو اور صحافت
بھٹو کے دور حکومت میں ان پر ہونے والی تنقید
بھٹو دور حکومت میں متعدد صحافیوں کو عدالتی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑا جو صوبائی حکومتوں کی کارستانی تھی۔ اس میں بھٹو صاحب کا کوئی قصور نہیں تھا بلکہ اظہار خیال کی جتنی آزادی بھٹو صاحب کے دور میں تھی ، وہ ان کی اوقات نہیں تھی اور نہ اس کے عادی تھے۔ بھٹو کے بدترین مخالفین بھی اپنی اپنی بکواس کرنے اور بھونکنے میں آزاد تھے۔
حقیقت میں بھٹو کی کردار کشی کا دور 1967ء میں اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور اپنی سیاسی جماعت ، پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی تھی۔ پہلے جنرل ایوب خان کے لیے خطرہ تھے ، پھر جنرل یحییٰ خان کے اقتدار کے لیے بھی خطرہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ 1970ء کے انتخابات بالغ رائے دہی پر کرائے گئے تھے کیوں کہ اگر 1962ء کے آئین کے تحت صدارتی انتخابات کروائے جاتے تو بھٹو کی کامیابی یقینی تھی۔
جب بھٹو کو کافر قرار دیا گیا
1970ء کے انتخابات میں بڑے گھمسان کا رن پڑا تھا۔ اس وقت جماعت اسلامی ، امیدواروں کے لحاظ سے سب سے بڑی جماعت تھی لیکن "مارشل لاء کی بی ٹیم" کہلانے کی وجہ سے بڑی بدنام تھی۔ اس جماعت سے منسلک صحافیوں نے بھٹو صاحب کے خلاف بڑی الزام تراشیاں کی تھیں اور ان کی کردار کشی میں تمام تر حدود پھلانگ گئے تھے۔ کبھی ان کی پاکستانی قومیت پر سوالات اٹھائے گئے ، کبھی انھیں 1965ء کی جنگ میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا ، یہاں تک کہ کافر تک قرار دے دیا تھا۔
یاد رہے کہ 24 مارچ 1970ء کو مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے 113 جید علمائے کرام نے سوشلسٹ پارٹیوں کو وؤٹ دینے کے عمل کو کفر قرار دیا تھا۔ اس فیصلے نے سیاست کو کفر و اسلام کی جنگ بنا دیا تھا۔ مذہبی رحجان رکھنے والے صحافیوں نے اس فیصلے کی آڑ میں بھٹو کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی حد کردی تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ بھٹو کو ایک جلسہ عام میں کلمہ طیبہ پڑھ کر یہ اعلان کرنا پڑا تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔ پاکستان میں کبھی کسی ایک لیڈر کے خلاف سرکاری اور عوام اور جمہوریت دشمن عناصر کی طرف سے ایسا گھناؤنا پروپیگنڈہ نہیں کیا گیا جو بھٹو صاحب کے خلاف ہوا تھا۔
قیدی بھٹو کا خوف
جب یہ قرطاس ابیض شائع ہوا تو اس وقت 18 مارچ 1978ء کو لاہور ہائی کورٹ سے بھٹو کو سزائے موت سنائی جا چکی تھی اورسپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت ہورہی تھی۔ پھانسی کے ایک قیدی کا اتنا خوف تھا کہ وقت کے فرعون کی نیندیں حرام ہو چکی تھیں۔ ملک پر مارشل لاء نافذ تھا اور میڈیا پر کنٹرول بڑا سخت تھا۔ ایک یکطرفہ پروپیگنڈہ تھا جو سرکاری ریڈیو اور ٹی وی کے علاوہ قومی اخبارات بھی بھٹو کے خلاف لکھنے پر مجبور ہوتے تھے۔ اگر کوئی باضمیر اخبار سچ بولنے کی کوشش کرتا ، یا تو سنسر ہوجاتا یا اس اخبار کو اس حق گوئی کی قیمت ادا کرنا پڑتی تھی۔ یہاں تک کہ 13 مئی 1978ء کو چند صحافیوں کو کوڑے بھی مارے گئے تھے۔ قدرتی بات ہے کہ ایسی بربریت کا مظاہرہ کرنے والا وقت کا بدترین ڈکٹیٹر اگر ایک جمہوری طور پر منتخب ہونے والے عوامی رہنما کے خلاف بکواس کرتا تو کسی ذہنی مریض کے علاوہ اس پر کون یقین کرتا؟
The first Whitepaper on Bhutto
Monday, 28 August 1978
Dictator Zia published first whitepaper on abused of media by Bhutto regime..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
28-07-1969: ریاست چترال
15-08-1947: جنرل سر فرینک میسروی
06-08-1990: بے نظیر بھٹو برطرف