پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
منگل 3 جولائی 1979
راشن ڈپوؤں پر چینی کا کوٹہ
بھٹو دور میں آٹا، چینی اور گھی وغیرہ
راشن ڈپو پر ارزاں قیمت پر ملتے تھے
بھٹو دورِ حکومت میں "راشن ڈپو" بڑے مشہور ہوتے تھے۔۔!
ذوالفقار علی بھٹوؒ، "روٹی، کپڑا اور مکان" کے وعدے پر 1970ء کے انتخابات جیتے تھے۔ اس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے جنرل ایوب کے "دس سالہ شاندار ترقیاتی دور" اور 22 خاندانوں کی "مثالی صنعتی ترقی" نے عوام الناس کی یہ حالت کر دی تھی کہ وہ صرف بنیادی ضروریات کے لیے اپنا وؤٹ دینے پر مجبور ہوگئے تھے۔۔!
اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت
عوام کو سہولیات دینے کا صاف مطلب یہ تھا کہ سرمایہ داروں کا "حق مارا جارہا ہے" اب آسمان سے غریبوں کے لیے کوئی من و سلویٰ تو نہیں اتر سکتا تھا اور نہ ہی پاکستان کے پاس اتنے وسائل تھے کہ ہر شہری کو اس کا حق مل سکتا۔ بھٹو کا یہ جرم سرمایہ دار طبقہ معاف نہیں کر سکتا تھا۔ ایسے میں روزِ اول ہی سے بھٹو حکومت کو ناکام بنانے کی سازشیں شروع ہوگئیں اور سب سے بڑا حملہ بنیادی ضروریات پر کیا گیا اوراشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت پیدا کی گئی۔ دکانوں میں یہ اشیاء وافر مقدار میں دستیاب تھیں لیکن غریب آدمی کے لیے مہنگائی اور بلیک مارکیٹنگ کی صورت میں روزمرہ کے مسائل پیدا کیے گئے۔ بھٹو حکومت نے اس کا جواب راشن ڈپوؤں میں وافر مقدار میں اشیائے خوردونوش پہنچا کر کیا۔ ہر شہری کو خاندان کے لحاظ سے "راشن کارڈ" جاری ہوتے جن میں فی کس حساب سے آٹا، چینی اور گھی وغیرہ سستے داموں دیا جاتا جو مارکیٹ ریٹ سے خاصا کم ہوتا تھا۔
جب راشن ڈپو ناکام بنائے گئے
راشن ڈپوؤں کے اس سلسلے کو ناکام بنانے کی پوری پوری کوشش کی گئی۔ مفاد پرست عناصر، پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا لبادہ اوڑھ کر راشن ڈپوؤں کی الاٹ منٹ حاصل کرتے اور پھر وہی دہندہ کرتے جس کے لیے ایوب خان کی حکومت بدنام تھی، یعنی سمگلنگ، چوربازاری، ناجائز منافع خوری اور اقرباء پروری۔ میری اپنی گناہ گار آنکھوں نے وہ مناظر دیکھے ہوئے ہیں جب راشن ڈپوؤں پر عوام الناس کے لیے اشیائے خوردونوش آتیں تو رات کی تاریکی میں ٹرالیاں بھربھر کر عزیزواقارب یا دیگر تاجر حضرات کو فروخت کر دی جاتیں۔ مستحقین کو ایک ایک کلو اناج کے لیے راشن کارڈ پر جگہ جگہ انگوٹھے لگوا لیے جاتے جو یہ ثبوت ہوتے کہ انھوں نے اپنا حق حاصل کیا ہوا ہے۔ حالانکہ ان کا حق مارا جاتا تھا۔ بھٹو حکومت کی عوام دوست پالیسیوں کو ناکام بنانے کے لیے سبھی عوام دشمن استحصالی قوتیں اکٹھی ہوگئی تھیں اور یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی کہ 3 جولائی 1979ء کی میری ذاتی ڈائری کے مطابق عوام کے لیے راشن ڈپوؤں سے چینی کے کوٹے میں بیس فیصد کٹوتی کر دی گئی تھی۔ بعد میں راشن ڈپو مکمل طور پر ختم کر کے یوٹیلٹی سٹورز بنائے گئے لیکن عوام کو حرام خور مافیا کے حوالے کردیا گیا جن کے رحم و کرم پر آج بھی غریب عوام سسک رہے ہیں۔Sugar quota on Ration Depots
Tuesday, 3 July 1979
The quota of sugar from ration depots was cut by 20%..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
11-04-2022: شہباز شریف
07-01-2002: جسٹس بشیر جہانگیر
25-04-1991: شوکت خانم ہسپتال