جنرل ضیاع مردود کی حکومت نے بھٹو کے خلاف یکطرفہ پروپیگنڈے کے سلسلے میں چوتھا اور آخری وہائٹ پیپر شائع کیا جس میں الزامات لگائے کہ بھٹو نے سرکاری اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، سیاسی مخالفین پر ظلم و تشدد کیا اور حق و سچ کی ہر آواز کو دبائے رکھا۔
یہ الزامات یا بہتان تراشیاں ایک ایسا بدترین ڈکٹیٹر کر رہا تھا جو خود تمام تر جمہوری، اخلاقی اور اسلامی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے غنڈہ گردی اور بدمعاشی سے غیرقانونی طور پر اقتدار پر قابض ہوا تھا۔ جس نے عوام کے واحد منتخب لیڈر کو بے گناہ پھانسی پر چڑھا دیا تھا۔ خدا کی لعنت ہو اس ملعون منافق پر اور جھوٹ کا پرچار کرنے والے ایک ایک حرامزادے پر۔۔!
ذوالفقار علی بھٹوؒ کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں کہ اس کے سیاسی مخالفین دودھ میں نہائے ہوئے فرشتے تھے جنھیں بھٹو ، بلا وجہ تنگ کیا کرتا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی بھٹو، پہلا لیڈر تھا جس نے سیاسی مخالفین کو عزت بخشی تھی جس کے وہ عادی نہیں تھے۔
بھٹو پر یہ الزامات بڑے تواتر کے ساتھ لگائے گئے کہ اس نے ادارے تباہ کیے۔ یہ بھی حقائق کے برعکس ہے جس کی بہت بڑی مثال پی آئی اے اور ریلوے جیسے بڑے بڑے قومی ادارے ہیں جو بھٹو دورِ حکومت تک سرکاری ادارے ہونے کے باوجود منافع میں چلتے تھے۔ پاکستان کی اقتصادی کارکردگی اپنے روایتی حریف بھارت (اور بنگلہ دیش) سے بدرجہا بہتر ہوتی تھی لیکن 1980ء کی دھائی میں جنرل ضیاع مردود کے دور سے ہر ادارے کی تباہی شروع ہوئی اور لوٹ مار کا جو بازار گرم ہوا، اس نے پاکستان کو اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ ترقی کی دوڑ میں ہم کم از کم نصف صدی پیچھے چلے گئے ہیں۔
29 جنوری 1979ء کی میری ڈائری میں ایک خبر یہ بھی تھی کہ "پہلی ششماہی میں پاکستان کو 97 کروڑ ڈالرز کی ادائیگیوں میں خسارہ ہوا۔۔!"
یہ ایک بہت بڑی خبر تھی جو پاکستان کی معاشی بدحالی کی ایک منہ بولتی تصویر تھی۔۔!
اس وقت خبروں پر بڑا سخت سرکاری کنٹرول ہوتا تھا۔ ریڈیو اور ٹی وی پر تو بلا سنسر خبروں کا تصور ہی نہیں تھا۔ کم از کم ایک آدھ فوجی افسر، سبھی اخبارات کے دفاتر میں تعینات ہوتا تھا جو یہ فیصلہ کرتا تھا کہ کون سی خبر شائع کی جاسکتی ہے۔ خبروں کے صفحات میں عام طور پر کام کی خبریں کم اور پروپیگنڈہ خبریں زیادہ ہوتی تھیں لیکن ایڈیٹوریل کے صفحہ پر اشاروں کنایوں میں کام کی خبریں مل جاتی تھیں۔
ایسی ہی خبروں سے پتہ چل جاتا تھا کہ جب گیدڑوں کو کچروں کی راکھی بٹھائیں گے تو حشر کیا ہوگا۔۔!
یاد رہے کہ 1980ء میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلی بار سوا ارب ڈالرز کا قرضہ لیا تھا جو اس وقت تک لیے گئے تمام سات قرضوں کی مجموعی مالیت سے بھی زیادہ تھا۔ اس سے اگلے سال بھی ایک ارب ڈالرز کا قرضہ لے کر ملک چلایا گیا تھا۔ پھر جنرل ضیاع مردود کی خوش قسمتی اور پاکستان کی بدقسمتی تھی کہ نام نہاد افغان جہاد میں امریکہ اور اس کے حواریوں نے فرنٹ سٹیٹ پاکستان کے لیے ایک بار پھر اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے تھے۔ تب سے اب تک ہم صرف خسارے ہی میں جارہے ہیں اور ملک کے سبھی ادارے زبوں حالی کا شکار رہے ہیں۔
پاک میگزین ، پاکستانی تاریخ پر اردو میں ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر اہم تاریخی واقعات کو بتاریخ سالانہ ، ماہانہ ، ہفتہ وارانہ ، روزانہ اور حروفانہ ترتیب سے چند کلکس کے نیچے پیش کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اہم ترین واقعات اور شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مخصوص صفحات ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تصویر و تحریر ، ویڈیو اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں محفوظ کیا گیا ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……