پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
پير 29 جنوری 1979
بھٹو پر چوتھا قرطاس ابیض
بھٹو حکومت پر چوتھا وہائٹ پیپر
جنرل ضیاع مردود کی حکومت نے بھٹو کے خلاف یکطرفہ پروپیگنڈے کے سلسلے میں چوتھا اور آخری وہائٹ پیپر شائع کیا جس میں الزامات لگائے کہ بھٹو نے سرکاری اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، سیاسی مخالفین پر ظلم و تشدد کیا اور حق و سچ کی ہر آواز کو دبائے رکھا۔
یہ الزامات یا بہتان تراشیاں ایک ایسا بدترین ڈکٹیٹر کر رہا تھا جو خود تمام تر جمہوری، اخلاقی اور اسلامی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے غنڈہ گردی اور بدمعاشی سے غیرقانونی طور پر اقتدار پر قابض ہوا تھا۔ جس نے عوام کے واحد منتخب لیڈر کو بے گناہ پھانسی پر چڑھا دیا تھا۔ خدا کی لعنت ہو اس ملعون منافق پر اور جھوٹ کا پرچار کرنے والے ایک ایک حرامزادے پر۔۔!
بھٹو کے سیاسی مخالفین پر مبینہ مظالم
ذوالفقار علی بھٹوؒ کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں کہ اس کے سیاسی مخالفین دودھ میں نہائے ہوئے فرشتے تھے جنھیں بھٹو ، بلا وجہ تنگ کیا کرتا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی بھٹو، پہلا لیڈر تھا جس نے سیاسی مخالفین کو عزت بخشی تھی جس کے وہ عادی نہیں تھے۔
- 1970 کے الیکشن جیتنے کے فوراً بعد بھٹو نے اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف، مولانا مودودیؒ سے لاہور جا کر ملاقات کی تھی حالانکہ ان کی جماعت اسلامی کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں رہی تھی۔
- بھٹو نے شملہ معاہدہ سے قبل نہ صرف تمام سیاسی مخالفین کو اعتماد میں لیا بلکہ بعد میں معاہدے کی توثیق بھی کروائی تھی۔ ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ قومی معاملات پر سبھی رہنماؤں کو آن بورڈ لیا جائے۔
- ولی خان کی پارٹی پر یحییٰ خان کی پابندی ختم کی اور اس کی پارٹی کو مفتی محمود کی پارٹی کے ساتھ دو صوبوں میں حکومتیں بنانے کا موقع دیا تھا۔ اپوزیشن لیڈر بھی بنایا اور کئی ایک پارلیمانی ذمہ داریاں بھی سونپیں۔
- اصغر خان، ایک ناکام سیاست دان تھا لیکن بھٹو کے خلاف دفعہ 144 کی پابندیاں توڑ کر دندناتا پھرتا تھا۔ اس کی پارٹی کی اسمبلی میں کوئی نمائندگی نہیں تھی لیکن پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جیتنے والے دو قصوری، اس کی پارٹی میں چلے گئے تھے۔ اس کے باوجود بھٹو نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی تھی۔
- ان سب پر حاوی بھٹو کا یہ کارنامہ تھا کہ اس نے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں کو ایک متفقہ آئین پر رضامند کیا۔ یہ عظیم کارنامہ، اس طرح کی بے سروپا بکواس کرنے، بلکہ بھونکنے والوں کے بدنما اور مکروہ چہروں پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے جو بھٹو کو فاشسٹ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے چلے آئے ہیں۔۔!
کیا بھٹو نے ادارے تباہ کیے؟
بھٹو پر یہ الزامات بڑے تواتر کے ساتھ لگائے گئے کہ اس نے ادارے تباہ کیے۔ یہ بھی حقائق کے برعکس ہے جس کی بہت بڑی مثال پی آئی اے اور ریلوے جیسے بڑے بڑے قومی ادارے ہیں جو بھٹو دورِ حکومت تک سرکاری ادارے ہونے کے باوجود منافع میں چلتے تھے۔ پاکستان کی اقتصادی کارکردگی اپنے روایتی حریف بھارت (اور بنگلہ دیش) سے بدرجہا بہتر ہوتی تھی لیکن 1980ء کی دھائی میں جنرل ضیاع مردود کے دور سے ہر ادارے کی تباہی شروع ہوئی اور لوٹ مار کا جو بازار گرم ہوا، اس نے پاکستان کو اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ ترقی کی دوڑ میں ہم کم از کم نصف صدی پیچھے چلے گئے ہیں۔
پاکستان کی معاشی بدحالی
29 جنوری 1979ء کی میری ڈائری میں ایک خبر یہ بھی تھی کہ "پہلی ششماہی میں پاکستان کو 97 کروڑ ڈالرز کی ادائیگیوں میں خسارہ ہوا۔۔!"
یہ ایک بہت بڑی خبر تھی جو پاکستان کی معاشی بدحالی کی ایک منہ بولتی تصویر تھی۔۔!
اس وقت خبروں پر بڑا سخت سرکاری کنٹرول ہوتا تھا۔ ریڈیو اور ٹی وی پر تو بلا سنسر خبروں کا تصور ہی نہیں تھا۔ کم از کم ایک آدھ فوجی افسر، سبھی اخبارات کے دفاتر میں تعینات ہوتا تھا جو یہ فیصلہ کرتا تھا کہ کون سی خبر شائع کی جاسکتی ہے۔ خبروں کے صفحات میں عام طور پر کام کی خبریں کم اور پروپیگنڈہ خبریں زیادہ ہوتی تھیں لیکن ایڈیٹوریل کے صفحہ پر اشاروں کنایوں میں کام کی خبریں مل جاتی تھیں۔
ایسی ہی خبروں سے پتہ چل جاتا تھا کہ جب گیدڑوں کو کچروں کی راکھی بٹھائیں گے تو حشر کیا ہوگا۔۔!
یاد رہے کہ 1980ء میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلی بار سوا ارب ڈالرز کا قرضہ لیا تھا جو اس وقت تک لیے گئے تمام سات قرضوں کی مجموعی مالیت سے بھی زیادہ تھا۔ اس سے اگلے سال بھی ایک ارب ڈالرز کا قرضہ لے کر ملک چلایا گیا تھا۔ پھر جنرل ضیاع مردود کی خوش قسمتی اور پاکستان کی بدقسمتی تھی کہ نام نہاد افغان جہاد میں امریکہ اور اس کے حواریوں نے فرنٹ سٹیٹ پاکستان کے لیے ایک بار پھر اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے تھے۔ تب سے اب تک ہم صرف خسارے ہی میں جارہے ہیں اور ملک کے سبھی ادارے زبوں حالی کا شکار رہے ہیں۔
The fourth Whitepaper on Bhutto
Monday, 29 January 1979
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
15-08-1947: جنرل سر فرینک میسروی
27-12-2007: بے نظیر بھٹوکا قتل
28-02-1985: 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات