PAK Magazine | An Urdu website on the Pakistan history
Wednesday, 11 December 2024, Day: 346, Week: 50

PAK Magazine |  پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان ، ایک منفرد انداز میں


پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان

Annual
Monthly
Weekly
Daily
Alphabetically

اتوار 25 فروری 1979

بھٹو مر نہیں سکتا!

ذوالفقار علی بھٹو شہیدؒ
بھٹو کو جسمانی طور پر تو
مارا جاسکتا ہے لیکن
سیاسی، تاریخی اور روحانی طور پر
کبھی نہیں مارا جاسکتا!

25 فروری 1979ء کی میری "سیاسی ڈائری" کا ایک صفحہ اس عنوان سے تھا کہ "بھٹو مر نہیں سکتا!"

جب یہ جملہ لکھا تھا تو میری عمر صرف سولہ سترہ سال کی تھی لیکن سیاسی شعور ایسا تھا کہ شہ سرخی دیکھ کر ہی متن کا اندازہ لگا لیتا تھا۔

سات آٹھ سال کی عمر سے اخباربینی کے شوق نے حالات و واقعات کو سمجھنے میں بڑی آسانی پیدا کر دی تھی۔ ویسے بھی اس وقت جس بھونڈے اور ظالمانہ طریقے سے پاکستان کی تاریخ کے واحد عوامی لیڈر کو منظر سے ہٹایا جا رہا تھا، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ بھٹو کو جسمانی طور پر تو مارا جا سکتا ہے لیکن سیاسی، تاریخی اور روحانی طور پر کبھی نہ مارا جا سکے گا اور بھٹو، ہمیشہ زندہ رہے گا۔ یہ بات سو فیصدی درست ثابت ہوئی ہے۔

جب بھٹو کا دیدار ہوا

بھٹو صاحب کو یوں تو 1977ء کی انتخابی مہم کے دوران اپنے آبائی شہر کھاریاں میں ایک ریلی میں بھی دیکھا تھا لیکن ان کو بہت قریب سے دیکھنے اور سننے کی سعادت، کوپن ہیگن، ڈنمارک کے ایئرپورٹ پر ملی جب وہ، ایک رات کے لیے یہاں ٹھہرے تھے۔

یہ ایک اتوار کا دن تھا (تاریخ یاد نہیں لیکن 1975/76 کا سال تھا)۔ اس دن چار بجے شام ٹی وی پر "ٹارزن" کی فلم لگ رہی تھی جس کا بڑی بے چینی سے انتظار تھا۔ اس وقت میں تیرہ چودہ سال کا تھا اور میری عمر کے بچوں کے لیے ٹارزن، ایک مثالی ہیرو ہوتا تھا جس کے کومک اخبارات و جرائد میں پڑھنا پہلی ترجیح ہوتی تھی جبکہ فلموں پر تو جان نکلتی تھی۔ لیکن اس دن میری یہ خواہش ادھوری رہی کیونکہ والد صاحب (مرحوم و مغفور) جلدی میں آئے اور مجھ سے پوچھا کہ "تمہیں پتہ ہے کہ ایئر پورٹ پر آج کون آرہا ہے؟"

مجھے بھلا کیا پتہ تھا لیکن جب انھوں نے بتایا کہ بھٹو صاحب آ رہے ہیں تو میں، افسانوی ٹارزن کو بھول کر حقیقی زندگی کے ٹارزن کو دیکھنے کے لیے بڑے بے تابی سے ایئرپورٹ کی طرف رواں دواں تھا۔

ائیرپورٹ پر بڑی تعداد میں پاکستانی لوگ جمع تھے۔ اس وقت کوپن ہیگن ایئرپورٹ چھوٹا سا ہوتا تھا۔ صرف ایک بلڈنگ (پرانا ٹرمینل 2) ہوتی تھی جس کے ساتھ لگے ہوئے جنگلے سے رن وے پر اترتے ہوئے جہاز بھی صاف نظر آتے تھے۔ اندھیرا پھیل چکا تھا اور رات کی روشنیوں میں پی آئی اے کی کوپن ہیگن ائیرپورٹ پر پہلی پہلی لینڈنگ کا منظر بڑا دلکش لگ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہمارا جوش و خروش بھی دیدنی تھا۔

طیارے سے نکل کر بھٹو صاحب کو پروٹوکول دیا گیا۔ جب انھوں نے جنگلے کے قریب ہم پاکستانیوں کو نعرہ بازی کرتے ہوئے دیکھا تو سیدھا ہماری طرف چلے آئے۔ آگے کھڑے کچھ لوگوں سے ہاتھ ملائے۔ بڑی کوشش کے باوجود میں ہاتھ نہ ملا سکا لیکن بہت قریب سے دیکھنے اور سننے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس موقع پر انھوں نے ایک مختصر سی تقریر کی جس کا یہ جملہ میں کبھی نہیں بھلا سکا:
  • "بیرونِ ملک مقیم، آپ سب لوگ پاکستان کے سفیر ہیں، اس لیے کوئی ایسا کام نہ کریں کہ جس سے آپ کے ملک و قوم کی بدنامی ہو۔۔"
مجھے یاد ہے کہ ان کی آمد کے بعد یہاں پاکستانیوں کے دو مسائل حل کیے گئے تھے۔ ایک سفارتخانے کا قیام اور دوسرا پی آئی اے کی براہ راست پرواز تھی۔

جب پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت ملی

بھٹو صاحب کی آمد کے بعد یہاں پیپلز پارٹی کا پہلا دفتر قائم کیا گیا۔ راولپنڈی کے کوئی شیخ صاحب تھے جو پہلے صدر بنے۔ اتفاق سے پارٹی کا پہلا بینر میں نے لکھ کر دیا تھا۔ شیخ صاحب کے بچے میرے ساتھ ایک سکول میں ہرہفتے اردو پڑھتے تھے۔ یہاں کی ریڈیکل سیاسی پارٹی کے ایک پاکستانی نژاد سیاستدان جناب عباس رضوی صاحب، ہمارے استاد ہوتے تھے جبکہ شیخ صاحب کی بیٹی، لبنیٰ الہٰی، مجھے اپنے والد صاحب کے پاس لے کر اپنے گھر گئی تھیں۔ لبنیٰ، بھی کوپن ہیگن کی مقامی سیاست کا ایک جانا پہچانا نام رہی ہیں۔

شیخ صاحب، میری سیاسی قابلیت سے بڑے متاثر ہوئے اور اپنی پارٹی میں شامل ہونے کی پیش کش کی لیکن میں نے معذرت کر لی تھی۔ میں صرف تاریخ کا ایک طالبِ علم ہوں۔ میرے لیے بھٹو صاحب انتہائی غیرمتنازعہ رہے ہیں لیکن زندگی بھر کبھی کسی کا آلہ کار نہیں بنا اور نہ ہی کبھی کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہوا۔ بیرونِ ملک، سیاسی پارٹیوں کے قیام کے ویسے بھی سخت خلاف رہا ہوں اور اوورسیز پاکستانیوں کے وؤٹ کے حق کو بھی تسلیم نہیں کرتا۔

جب بے نظیر بھٹو سے ملاقات ہوئی

دلچسپ بات یہ ہے کہ جون 1984ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو، ڈنمارک تشریف لائیں اور ایک جلسہ سے خطاب کیا۔ اس دوران مجھے ایک مقامی رسالہ، ماہنامہ شاہین کے ایڈیٹر کے طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملاقات کا موقع ملا اور میں نے زندگی کی واحد رپورٹنگ انھی کے جلسہ کی کی تھی جو خود ہی شاہین کے جولائی 1984ء کے شمارے میں شائع کی تھی۔ ضیاع حکومت نے اس پرچے کی پاکستان آمد پر پابندی لگا دی تھی۔

ایک خلجی صاحب، پارٹی کے مقامی رہنما تھے جنھوں نے محترمہ کی تقریر کا سرکاری کتابچہ لکھنے کی خواہش ظاہر کی لیکن میں نے صرف ترتیب و تدوین اور شہ سرخیاں ہی لکھ کر دیں۔ وہ بھی میری سیاسی سوجھ بوجھ اور بھٹو صاحب سے عقیدت سے بڑے متاثر ہوئے اور پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی لیکن میں نے ایک بار پھر معذرت کر لی تھی۔

جب نون لیگ میں شمولیت کی دعوت ملی

آخری بار مجھے 2000ء کے شروع میں پاکستان مسلم لیگ نون میں شمولیت کی دعوت ملی تھی۔ ایک ملک صاحب تھے جو نون لیگ ڈنمارک کے صدر تھے اور 1999ء میں مشرف کے مارشل لاء کے بعد کوپن ہیگن سے ایک اردو رسالہ جاری کرتے تھے۔ ان کے صاحبزادے یہاں کی اسمبلی کے ممبر بھی رہے ہیں۔

انھیں پتہ چلا کہ میں ویب سائٹ بناتا ہوں تو مٹھائی کا ڈبہ لیے میرے گھر آن دھمکے۔ نظریاتی اختلافات کے باوجود میں نے انھیں ویب سائٹ کا سانچہ بنا کر دیا اور اخبار کے بارے میں بھی چند مفید مشورے دیے۔ جب ان کی طرف سے نون لیگ میں شمولیت کی دعوت ٹھکرائی تو ناراض ہوگئے اور پھر کبھی ملاقات نہ ہوئی۔

بھٹو مر نہیں سکتا'
25 فروری 1979ء کی میری سیاسی ڈائری کا ایک ورق
7 فروری 1979ء کی ذاتی ڈائری کا ایک ورق





Bhutto Will Never Die..!!!

Sunday, 25 February 1979

Bhutto can be killed physically but politically, historically and spiritually he can never be killed and Bhutto will live forever. This has been proven to be 100% correct.




پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ

پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ



پاکستان کے اہم تاریخی موضوعات



تاریخِ پاکستان کی اہم ترین شخصیات



تاریخِ پاکستان کے اہم ترین سنگِ میل



پاکستان کی اہم معلومات

Pakistan

چند مفید بیرونی لنکس



پاکستان فلم میگزین

پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔


پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……

پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.