پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
اتوار 25 فروری 1979
بھٹو مر نہیں سکتا!
25 فروری 1979ء کی میری "سیاسی ڈائری" کا ایک صفحہ اس عنوان سے تھا کہ "بھٹو مر نہیں سکتا!"
جب یہ جملہ لکھا تھا تو میری عمر صرف سولہ سترہ سال کی تھی لیکن سیاسی شعور ایسا تھا کہ شہ سرخی دیکھ کر ہی متن کا اندازہ لگا لیتا تھا۔ سات آٹھ سال کی عمر سے اخباربینی کے شوق نے حالات و واقعات کو سمجھنے میں بڑی آسانی پیدا کر دی تھی۔ ویسے بھی اس وقت جس بھونڈے اور ظالمانہ طریقے سے پاکستان کی تاریخ کے واحد عوامی لیڈر کو منظر سے ہٹایا جا رہا تھا، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ بھٹو کو جسمانی طور پر تو مارا جا سکتا ہے لیکن سیاسی، تاریخی اور روحانی طور پر کبھی نہ مارا جا سکے گا اور بھٹو، ہمیشہ زندہ رہے گا۔ یہ بات سو فیصدی درست ثابت ہوئی ہے۔جب بھٹو کا دیدار ہوا
بھٹو صاحب کو یوں تو 1977ء کی انتخابی مہم کے دوران اپنے آبائی شہر کھاریاں میں ایک ریلی میں بھی دیکھا تھا لیکن ان کو بہت قریب سے دیکھنے اور سننے کی سعادت، کوپن ہیگن، ڈنمارک کے ایئرپورٹ پر ملی جب وہ، ایک رات کے لیے یہاں ٹھہرے تھے۔
یہ ایک اتوار کا دن تھا (تاریخ یاد نہیں لیکن 1975/76 کا سال تھا)۔ اس دن چار بجے شام ٹی وی پر "ٹارزن" کی فلم لگ رہی تھی جس کا بڑی بے چینی سے انتظار تھا۔ اس وقت میں تیرہ چودہ سال کا تھا اور میری عمر کے بچوں کے لیے ٹارزن، ایک مثالی ہیرو ہوتا تھا جس کے کومک اخبارات و جرائد میں پڑھنا پہلی ترجیح ہوتی تھی جبکہ فلموں پر تو جان نکلتی تھی۔ لیکن اس دن میری یہ خواہش ادھوری رہی کیونکہ والد صاحب (مرحوم و مغفور) جلدی میں آئے اور مجھ سے پوچھا کہ "تمہیں پتہ ہے کہ ایئر پورٹ پر آج کون آرہا ہے؟" مجھے بھلا کیا پتہ تھا لیکن جب انھوں نے بتایا کہ بھٹو صاحب آ رہے ہیں تو میں، افسانوی ٹارزن کو بھول کر حقیقی زندگی کے ٹارزن کو دیکھنے کے لیے بڑے بے تابی سے ایئرپورٹ کی طرف رواں دواں تھا۔ ائیرپورٹ پر بڑی تعداد میں پاکستانی لوگ جمع تھے۔ اس وقت کوپن ہیگن ایئرپورٹ چھوٹا سا ہوتا تھا۔ صرف ایک بلڈنگ (پرانا ٹرمینل 2) ہوتی تھی جس کے ساتھ لگے ہوئے جنگلے سے رن وے پر اترتے ہوئے جہاز بھی صاف نظر آتے تھے۔ اندھیرا پھیل چکا تھا اور رات کی روشنیوں میں پی آئی اے کی کوپن ہیگن ائیرپورٹ پر پہلی پہلی لینڈنگ کا منظر بڑا دلکش لگ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہمارا جوش و خروش بھی دیدنی تھا۔ طیارے سے نکل کر بھٹو صاحب کو پروٹوکول دیا گیا۔ جب انھوں نے جنگلے کے قریب ہم پاکستانیوں کو نعرہ بازی کرتے ہوئے دیکھا تو سیدھا ہماری طرف چلے آئے۔ آگے کھڑے کچھ لوگوں سے ہاتھ ملائے۔ بڑی کوشش کے باوجود میں ہاتھ نہ ملا سکا لیکن بہت قریب سے دیکھنے اور سننے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس موقع پر انھوں نے ایک مختصر سی تقریر کی جس کا یہ جملہ میں کبھی نہیں بھلا سکا:- "بیرونِ ملک مقیم، آپ سب لوگ پاکستان کے سفیر ہیں، اس لیے کوئی ایسا کام نہ کریں کہ جس سے آپ کے ملک و قوم کی بدنامی ہو۔۔"
جب پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت ملی
بھٹو صاحب کی آمد کے بعد یہاں پیپلز پارٹی کا پہلا دفتر قائم کیا گیا۔ راولپنڈی کے کوئی شیخ صاحب تھے جو پہلے صدر بنے۔ اتفاق سے پارٹی کا پہلا بینر میں نے لکھ کر دیا تھا۔ شیخ صاحب کے بچے میرے ساتھ ایک سکول میں ہرہفتے اردو پڑھتے تھے۔ یہاں کی ریڈیکل سیاسی پارٹی کے ایک پاکستانی نژاد سیاستدان جناب عباس رضوی صاحب، ہمارے استاد ہوتے تھے جبکہ شیخ صاحب کی بیٹی، لبنیٰ الہٰی، مجھے اپنے والد صاحب کے پاس لے کر اپنے گھر گئی تھیں۔ لبنیٰ، بھی کوپن ہیگن کی مقامی سیاست کا ایک جانا پہچانا نام رہی ہیں۔
شیخ صاحب، میری سیاسی قابلیت سے بڑے متاثر ہوئے اور اپنی پارٹی میں شامل ہونے کی پیش کش کی لیکن میں نے معذرت کر لی تھی۔ میں صرف تاریخ کا ایک طالبِ علم ہوں۔ میرے لیے بھٹو صاحب انتہائی غیرمتنازعہ رہے ہیں لیکن زندگی بھر کبھی کسی کا آلہ کار نہیں بنا اور نہ ہی کبھی کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہوا۔ بیرونِ ملک، سیاسی پارٹیوں کے قیام کے ویسے بھی سخت خلاف رہا ہوں اور اوورسیز پاکستانیوں کے وؤٹ کے حق کو بھی تسلیم نہیں کرتا۔جب بے نظیر بھٹو سے ملاقات ہوئی
دلچسپ بات یہ ہے کہ جون 1984ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو، ڈنمارک تشریف لائیں اور ایک جلسہ سے خطاب کیا۔ اس دوران مجھے ایک مقامی رسالہ، ماہنامہ شاہین کے ایڈیٹر کے طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملاقات کا موقع ملا اور میں نے زندگی کی واحد رپورٹنگ انھی کے جلسہ کی کی تھی جو خود ہی شاہین کے جولائی 1984ء کے شمارے میں شائع کی تھی۔ ضیاع حکومت نے اس پرچے کی پاکستان آمد پر پابندی لگا دی تھی۔
ایک خلجی صاحب، پارٹی کے مقامی رہنما تھے جنھوں نے محترمہ کی تقریر کا سرکاری کتابچہ لکھنے کی خواہش ظاہر کی لیکن میں نے صرف ترتیب و تدوین اور شہ سرخیاں ہی لکھ کر دیں۔ وہ بھی میری سیاسی سوجھ بوجھ اور بھٹو صاحب سے عقیدت سے بڑے متاثر ہوئے اور پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی لیکن میں نے ایک بار پھر معذرت کر لی تھی۔جب نون لیگ میں شمولیت کی دعوت ملی
آخری بار مجھے 2000ء کے شروع میں پاکستان مسلم لیگ نون میں شمولیت کی دعوت ملی تھی۔ ایک ملک صاحب تھے جو نون لیگ ڈنمارک کے صدر تھے اور 1999ء میں مشرف کے مارشل لاء کے بعد کوپن ہیگن سے ایک اردو رسالہ جاری کرتے تھے۔ ان کے صاحبزادے یہاں کی اسمبلی کے ممبر بھی رہے ہیں۔
انھیں پتہ چلا کہ میں ویب سائٹ بناتا ہوں تو مٹھائی کا ڈبہ لیے میرے گھر آن دھمکے۔ نظریاتی اختلافات کے باوجود میں نے انھیں ویب سائٹ کا سانچہ بنا کر دیا اور اخبار کے بارے میں بھی چند مفید مشورے دیے۔ جب ان کی طرف سے نون لیگ میں شمولیت کی دعوت ٹھکرائی تو ناراض ہوگئے اور پھر کبھی ملاقات نہ ہوئی۔ '25 فروری 1979ء کی میری سیاسی ڈائری کا ایک ورق
Bhutto Will Never Die..!!!
Sunday, 25 February 1979
Bhutto can be killed physically but politically, historically and spiritually he can never be killed and Bhutto will live forever. This has been proven to be 100% correct.
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
04-04-1979: بھٹو کو پھانسی دی گئی
25-04-1996: پاکستان تحریکِ انصاف
25-04-2009: مرزا اسلم بیگ کا ایک انٹرویو