پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
ہفتہ 5 فروری 1966
چھ نکات
شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات
بنگلہ دیش کے بانی اور سابقہ مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان نے 5 فروری 1966ء کو لاہور میں اپنے مشہور زمانہ چھ نکات کا اعلان کیا تھا جو حسب ذیل تھے:
- 1940ء کی قرار داد لاہور کی روشنی میں ایک وفاق پاکستان میں ایک ایسے پارلیمارنی نظام کی ضمانت دی جائے کہ جس میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست منتخب شدہ قانون ساز اسمبلی کو بالا دستی حاصل ہو۔
- مرکزی حکومت کے پاس صرف دو محکمے ہوں ، دفاع اور خارجی امور
- دونوں صوبوں کے لئے الگ الگ لیکن قابل تبادلہ کرنسی کا نظام ہو لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو تو آئین میں ضمانت دی جائے کہ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان میں سرمایہ کافرار روکا جا سکے۔ نیزمشرقی پاکستان کے لئے الگ الگ مالیاتی اور اقتصادی نظام وضع کئے جائیں۔ ان کے علاوہ مشرقی پاکستان کا اپنا بینکنگ ریزرو سسٹم (یا محفوظ سرمایہ کا نظام) بھی ہو۔
- ٹیکس لگانے اور تمام تر مالیاتی وصولیوں کا اختیارمرکز کی بجائے صرف صوبوں کے پاس ہوں جو ایک مساوی اورمخصوص شرح سے مرکز کے اخراجات ادا کریں۔
- ہر صوبہ ، بیرونی تجارتی معاہدے کرنے میں آزاد ہو اور اپنے حساب و کتاب کا واحد حقدار ہو جبکہ دونوں حصوں کے درمیان ملکی مصنوعات کی نقل و حمل پر کسی قسم کا ٹیکس نہ ہو۔
- مشرقی پاکستان کو الگ فوج یا نیم فوجی دستے رکھنے کا حق ہو تاکہ ملکی سلامتی اور آئین کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
شیخ مجیب الرحمان کا سونار بنگلہ
بنگلہ دیش کے بانی اور عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن نے بنگالیوں کو باور کرادیا تھا کہ مغربی پاکستان ان کے سونار بنگلہ کا استحصال کر رہا ہے اورپاکستان کی معاشی ترقی صرف اور صرف مشرقی پاکستان کے وسائل یا استحصال ہی سے ہو رہی ہے۔ اس کے لئے پٹ سن کی درآمدات کی مثال دی جارہی تھی۔ "سونار بنگلہ" کا محاورہ بھی پٹ سن کے سنہرے ریشوں سے نکلا تھا جن کی پچاس کے عشرے کے آغاز ہی سے بڑی مانگ تھی۔ مغربی پاکستان کے سرمایہ کاروں نے 1950-51 ء میں ڈھاکہ کے نواح میں دنیا کی سب سے بڑی آدم جی جوٹ مل قائم کی تھی جس میں انیس ہزار سے زائد مزدور کام کرتے تھے لیکن چونکہ سرمایہ دار بنگالی نہیں تھے اور مالک اور مزدور کاازلی اور ابدی امتیاز بھی تھا جسے تعصب ، لسانیت اور قوم پرستی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا ، اسی طوفان بدتمیزی میں 1954ء میں سات سو سے زائد غیر بنگالیوں کا قتل عام بھی کیا گیا تھا۔
ایوبی دور کی معاشی ناہمواری
عام طور پر ایوبی دور حکومت کو پاکستان میں خوشحالی کا سنہر ی دور کہا جاتا ہے جو اس حد تک تو درست تھا کہ ملک میں پیسے کی ریل پیل تھی ، بہت سے ترقیاتی کام ہورہے تھے، بیرونی قرضے اور سرمایہ کاری ہو رہی تھی اور ملکی معیشت کا گراف انتہائی قابل رشک تھا لیکن زمینی حقیقت یہ تھی ترقی کے تمام ثمرات امیروں کے حصے میں آرہے تھے۔ کرپشن، اقربا پروری اور سیاہ دھن کی وجہ سے ملک کی ساٹھ سے اسی فیصد دولت پر صرف 22 خاندانوں کا قبضہ ہو گیا تھا جن میں اگر کوئی بنگالی نژاد تھا بھی تو کیا فرق پڑتا تھا کہ "خاناں دے خان پروہنے" امیر و غریب ہمیشہ ندی کے دو کنارے رہے ہیں ، چاہے ان کا تعلق کسی بھی قوم یا معاشرے سے کیوں نہ ہو۔
ایوبی دور کی کرپشن
اس کے علاوہ کرپشن ایک ایسا مرض رہا ہے کہ جس سے ہمارے ترقی پذیر ممالک کبھی بھی پاک نہیں رہے۔ صرف ایوبی دور حکومت کے بارے میں بتایا جاتا تھا اس دور میں کرپشن کے 33 ارب روپے بیرونی بینکوں میں منتقل کئے گئے تھے کہ جب بات صرف لاکھوں کروڑوں تک ہوتی تھی۔ ظاہر ہے کہ ایسے استحصالی ماحول میں نفرت کا لاوا خوب پکتا ہے اور پیٹ کی آگ جہنم کی ان دیکھی آگ سے کہیں زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے جس میں ہر قسم کا نظریہ بھسم ہو جاتا ہے اور ایسی منفی تحریکوں کو پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملتا ہے۔
بنگلہ دیش کے ناجائز وجود کو جائز ثابت کرنے کی مہم میں علیحدگی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے معاشی عدم توازن کی ایک مثال انٹر نیٹ پر بھی پیش کی گئی ہے جس میں یہ تو بتا دیا گیا ہے کہ دونوں صوبو ں کی آبادی کے تناسب سے کس طرح وسائل کی عدم تقسیم کی گئی تھی لیکن یہ بد دیانتی بھی کی گئی ہے کہ آمدن اور پیداوارکے اعداد و شمارنہیں بتائے گئے کہ کس صوبے کی کیا کارکردگی تھی۔ ساتھ ہی مغربی پاکستان کی آبادی بھی صرف36 فیصد بتائی گئی ہے جو درست نہیں ہے ، یہ تناسب 55 اور 45 کا ہوتا تھا۔ معاشی عدم استحکام کا یہ پروپیگنڈہ بھی انتہائی گمراہ کن تھا۔
2011ء کے معاشی اشاریئے
میرے پاس اس وقت (2011ء) کے اقتصادی اعداد و شمار تو نہیں ہیں لیکن اگر ہم علیحدگی کے چار عشروں کے بعد کے حقائق پر ہی نظر ڈالیں تو بنگالی لیڈروں کی بد دیانتی صاف ظاہر ہو جاتی ہے حالانکہ اس دوران نام نہاد سوناربنگلہ دیش ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے طور پر موجود ہے اوراب مغربی پاکستان اس کا استحصال بھی نہیں کر رہا۔
2011ء کی انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ وولڈ بینک اور سی آئی اے کی رپورٹس جو وکی پیڈیا پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے ، پاکستان، اقتصادی ترقی میں بنگلہ دیش سے کہیں آگے ہے۔ ان رپورٹوں کے مطابق عالمی رینکنگ میں پاکستان بالتریب 27 …… 26 …… 27 …… پر جبکہ بنگلہ دیش …… 44 …… 48 …… 42 …… پوزیشن پر ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کی فی کس آمدن 2.787 ڈالر ہے لیکن بنگلہ دیش کی فی کس آمدن 1.790 ڈالر ہے۔ فی کس آمدن کی تمام بین الاقوامی فہرستوں میں بھی پاکستان، بنگلہ دیش سے بہتر ہے۔
یاد رہے کہ ان چار عشروں میں پاکستان دنیا کی 7ویں بڑی ایٹمی طاقت اور فوجی طاقت بھی بنا اورعدم سیاسی استحکام ، کرپشن ، افغان جنگ کے مضمرات اور دہشت گردی کے خلاف فرنٹ سٹیٹ بھی بنا رہا اور اس میں کتنے وسائل ضائع ہوئے۔ اگر ان کا شمار کیا جائے تو پاکستان، بنگلہ دیش سے بدرجہا بہتر معاشی حالات میں ہو سکتا تھا کہ جسے زیادہ فوجی اخراجات کی ضرورت بھی نہیں ہے جو اسکی بڑی خوش قسمتی ہے۔ گزشتہ ایک عشرے سے امن و امان کی مخدوش صورتحال ، بیرونی سرمایہ کاری کے ناموافق حالات اورشدید توانائی بحران کے باوجود 2011 ء میں بھی پاکستان کی برآمدات، بنگلہ دیش کی برآمدات کے مقابلے میں تقریباً سات ارب ڈالر زائد رہیں۔ گویا زبان کے مسئلے اور سیاسی محرومیوں کے بعدمعاشی عدم توازن کے بیہودہ الزامات بھی بنگالی لیڈروں کی گمراہی اور بد دیانتی ثابت کرتے تھے جو صرف اور صرف جا ہ طلبی اور مفاد پرستی کے سوا اورکچھ نہ تھا۔
اسی نام نہاد معاشی عدم توازن کے مفروضوں کو بنیاد بنا کر 5 فروری 1966ء کو لاہور میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن نے متحدہ پاکستان کے نئے آئین کی تشکیل کے لئے مندرجہ بالا چھ نکات یا مطالبات پیش کئے تھے جو1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کی مشرقی پاکستان میں ریکارڈ توڑ کامیابی کی وجہ بن گئے تھے۔
چھ نکات کسے قبول نہیں تھے؟
ان چھ نکات کو بادی النظر میں دیکھیں تو ان میں پہلے دو نکتے چھوڑ کر باقی سبھی نکات علیحدگی کے مطالبات تھے جن میں مشرقی پاکستان کی مبینہ معاشی محرومیوں کے سدباب کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ الگ کرنسی …… الگ تجارت …… الگ مالیاتی نظام …… الگ فوج یا نیم فوجی ملیشیا …… اور سب سے بڑھ کر مرکزی فوج جو اپنے اخراجات کے لئے صوبوں کی نظر کرم کی محتاج ہو جسے تسلیم کرنا کم از کم پاکستان کی ہمیشہ سے اصل حاکم اور سیا ہ و سفید کی مالک فوج کے لئے کسی طور بھی قابل قبول نہ تھا۔ مبینہ طور پرمغربی پاکستان کے منتخب نمایندے جناب ذوالفقار علی بھٹوؒ نے انتہائی لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک پر امن حل اور ملکی بقا ء کے لئے مشرقی پاکستان کے منتخب نمایندے شیخ مجیب الرحمن کی ہٹ دھرمی کے باعث ساڑھے پانچ نکات مان بھی لئے تھے لیکن فوج کو مالی طور پر سیاستدانوں کا محتاج بنانے کے مطالبہ کو ماننے کی جراَت انہیں بھی نہیں ہوئی ہوگی کہ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر تو نہیں رکھا جا سکتا تھا۔۔!
چھ نکات کے پہلے نکتہ کے بارے میں تو کسی با شعور شخص کو اختلاف نہیں ہو سکتاتھا کہ ایک جمہوری نظام کے تحت ہر بالغ شخص کو یہ حق ہونا چاہئے کہ وہ اپنے وؤٹ کی طاقت سے اپنے حکمران منتخب کرے۔
جمہوری نظام اور مسلمان
تاریخ انسانی نے نظام حکومت کے لئے جمہوریت سے بہتر کوئی نظام وضع نہیں کیا جہاں عوام کی مشاورت سے عوام کی حکومت قائم کی جاتی ہے جو عوام کے لئے قوانین بناتی ہے اور ایک مخصوص عرصہ کے بعد اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام سے ہی حق حکمرانی حاصل کرتی ہے۔ مغربی ممالک کے بیشتر ممالک میں یہ نظام گزشتہ دو صدیوں سے کامیابی سے چل رہا ہے لیکن بد قسمتی سے ہم مسلمانوں کامزاج ہی جمہوری نہیں ہے اور نہ ہمارے مسلمان حکمران، عوام الناس کے سامنے خود کو جوابدہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے خاصے با شعورمسلمان بھی آمرانہ طرز حکومت کے حامی ہوتے ہیں اور اس پر انہیں ذرابرابر ندامت نہیں ہوتی۔
کیا اسلام نے کوئی سیاسی نظام دیا تھا؟
اسلام نے تو کوئی سیاسی نظام دیا ہی نہیں۔ یہ دعویٰ اگر مان بھی لیا جائے کہ خلافت راشدہ ہی اسلامی طرز حکومت ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ ایک ناکام ترین نظام حکومت تھا جس کی عملی زندگی ڈیڑھ ہزار سال کی طویل تاریخ میں تیس سال بھی نہ تھی۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس "مقدس دور" میں بھی کشت و خون کا بازار گرم رہا اور چار میں سے تین خلفائے راشدینؓ غیر طبعی موت سے ہمکنار ہوئے تھے۔ تیسرے خلیفہ حضرت عثمانؒ کو اسلامی فوج ہی کی بغاوت نے شہید کیا تھا جس کے نتیجے میں صحابہ کرامؓ کی باہمی جنگوں میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نظام حکومت کسی طور بھی قابل تقلید نہیں ہے۔ جمہوری نظام حکومت میں جنگ و جدل سے ہر ممکن طریقے سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جیو اور جینے دو کے علاوہ قوت برداشت ، صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ جمہوری روایات میں فرد واحد کی بجائے طاقت کا اصل سر چشمہ خلق خدا یعنی عوام الناس ہوتے ہیں۔
چھ نکات ، اکثریت کی نمائندگی
چھ نکات کے اس پہلے نکتہ سے یہ واضح تھا کہ حکومت اسی کی ہونی چاہئے جو اکثریت کی نمایندگی کرتا ہو لیکن پاکستان کے مقتدر حلقوں کو یہ کسی طور بھی گوارا نہ تھا کہ ان پڑھ ، مفلوک الحال اور کالے کلوٹے پسماندہ بنگالیوں کی اکثریت ملک پر حکومت کرنے والی اشرافیہ کا فیصلہ کرے۔ ظاہر ہے متحدہ پاکستان میں وہ اکثریت میں تھے اور حکومت کا حق انہی کا تھا جس سے وہ قیام پاکستان کے وقت سے ہی محروم رہے اوران کی عددی برتری کے خوف سے ایک بھی قومی الیکشن نہیں کروایا گیا تھاجو مرکز بیزاری کی سب سے بڑی وجہ تھا۔ یہ ایک تاریخی المیہ ہے کہ ہم پاکستانی ، ہندوستان میں جمہوریت سے اس لئے خوفزدہ تھے کہ وہاں ہندووَں کی اکثریت تھی اور قیام پاکستان کے بعد اس خوف میں رہے کہ بنگالی اکثریت میں ہیں۔۔!
چھ نکات ، ایک وفاق اور دو پاکستان؟
ان چھ نکات کا واحد خوش آئندپہلو صرف یہی تھا کہ ایک وفاق پاکستان کی بات کی گئی تھی جو اصل میں ایک کنفیڈریشن کی بات تھی جو بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مترادف ہو گیا تھا کہ اب واپسی کی کوئی گنجائش نہیں تھی جو بچا تھا بچا لو۔ ان چھ نکات کا مدعا یہی تھا کہ اب ایک کی بجائے دو ملک ہوں گے یا بھٹو مخالف لابی کے پسندیدہ جملے …… اُدھر تم، اِدھر ہم …… کے عین مطابق۔۔!
یاد رہے کہ اگر تلہ سازش کیس اس واقعہ کے دو سال بعد سامنے آیا تھا لیکن شیخ مجیب الرحمن اور اس کے مکتی باہنی کے ساتھیوں کے بھارت سے خفیہ رابطوں کا انکشاف 1963 ء سے ہوتا ہے اور وہ اسی پشت پناہی سے شیر ہو گیا تھا۔
ویسے بھی ان چھ نکات کو مان لینے سے دو پاکستان بن جاتے تو کوئی قیامت نہ آ جاتی۔ مشرقی پاکستان ایک آزاد ملک بن جاتا تو کم از کم بنگلہ دیش جیسا منحوس اور مکروہ نام تو سننے میں نہ آتا لیکن بد قسمتی سے ہمارے عاقبت نا اندیش حکمرانوں کے لئے نوشتہ دیوار پڑھناممکن نہ تھا اورمعاملہ فہمی سے محروم متقدر حلقوں کی ہٹ دھرمی اور کج فہمی کی وجہ سے پاکستان کو تاریخ کی ایک بد ترین فوجی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جو کسی بھی محب وطن پاکستانی کے لئے ہمیشہ سوہان روح رہے گا۔
آئین کے دفاع کے لیے فوج؟
چھ نکات کے دوسرے نکتے میں انتہائی تضادبیانی اور خود غرضی کا مظاہر ہ کیا گیا تھا۔ ایک طرف تو مرکز کو صرف دفاع اور خارجہ امور تک محدود کیا جارہا تھا لیکن دوسری طرف نکتہ چھ میں مشرقی پاکستان کے لئے الگ فوج یا نیم فوجی دستوں کا مطالبہ بھی کیاجارہا تھا۔ گویا آئین کے تحفظ کے لئے جب کبھی مرکزی فوج یاحقیقت میں مغربی پاکستان کی فوج حسب معمول امریکہ بہادر کے مفادات کی تکمیل اور تحفظ کے لئے "عزیز ہموطنو" کہنے کی کوشش کرے تو مشرقی پاکستان کے نیم فوجی دستے مزاحمت کر سکیں لیکن اگر مشرقی پاکستان پر کہیں سے حملہ ہو جائے تو مغربی پاکستان کی فوج اپنا فرض پورا کرتے ہوئے سونار بنگلہ کا دفاع بھی کرے آم کے آم، گٹھلیوں کے دام۔۔!
ایک وفاق مگر خودمختار اکائیاں
مرکز کو صرف خارجہ امور کی ذمہ داری دینے کے باوجود بیرونی تجارت اور اس کا حساب و کتاب مشرقی پاکستان خود رکھنا چاہتا تھا حالانکہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی میں اس کے مالی مفادات کاتحفظ ہی اولین ترجیح ہوتا ہے اور انہی مالی مفادات کے لئے دیگر ممالک سے تعلقات استوار کئے جاتے ہیں اورتاریخ کی ہر لڑائی اور مہم جوئی کے پیچھے بھی سب سے مقدم مالی مفادات ہی رہے ہیں۔ اگر ہر صوبہ اپنے طور پر یہ کام کرنا شروع کر دے تو ایک ملک کی ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے؟ اگر مرکز کے پاس وسائل نہ ہونگے تو پورے ملک میں یکساں ترقی کیسے ممکن ہو گی؟
مشرقی پاکستان کا استحصال کون کررہا تھا؟
چھ نکات کے نکتہ 3 میں صرف اس دعوے کو دھرایا گیا تھا کہ مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان کا استحصال کر رہا ہے۔ یہاں تک کہاجاتا تھا کہ نئے دارالحکومت اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی کمائی کی خوشبو آ رہی ہے۔ ان چھ نکات کے اگر نکتہ 4 کو نکتہ 3 ہی کے تسلسل میں پڑھا جائے تو اصل مدعا یہی تھا کہ سونار بنگلہ کا سرمایہ مغربی پاکستان تک نہ پہنچے جسے اگر نکتہ 6 کے ساتھ بھی ملا کر پڑھیں تواصل مدعا سامنے آ جاتا تھا کہ مرکزی یا مغربی پاکستان کی فوج ، مشرقی پاکستان کے سرمائے پر عیش نہ کر سکے۔ ظاہر ہے کہ یہ چھ نکات ، مفادپرست فوجی جرنیلوں اور حکمرانوں کے لئے کسی طور بھی قابل قبول نہ تھے۔ اور نہ ہی وہ برداشت کر سکتے تھے کہ ان کی روزی پر لات ماردی جائے اور وہ مالی امور میں ان کرپٹ اور نااہل سیاستدانوں کے محتاج بن کر رہ جائیں۔
چھ نکات کس کی تخلیق تھے؟
بتایا جاتا ہے کہ ان چھ نکات کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے مالیاتی امور کے ماہرین اور دانشوروں کے علاوہ ڈاکٹر کمال حسین نے تخلیق کیا تھا جو بنگلہ دیش کے آئین کے خالق بھی تھے۔ 1970ء کے انتخابات میں چھ نکات نے عوامی لیگ کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور بقول پاکستان کے سب سے پہلے ماہانہ رسالے اردو ڈائجسٹ کے مدیر جناب الطاف حسین قریشی کے ذاتی مشاہدے کے ، بنگالیوں کے لئے ان چھ نکات کی اہمیت …… صحاہ ستہ …… کے بعد سب سے زیادہ ہو گئی تھی۔
جب مجیب الرحمان نے چھ نکات پیش کیے۔۔!
الطاف حسن قریشی ہی اپنے ایک حالیہ ویڈیو انٹرویو میں راوی ہیں کہ 5 فروری 1966ء کو مجیب کے چھ نکات ، لاہور میں سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی کی گلبرگ لاہور میں بارہ کنال کی کوٹھی میں اپوزیشن کے ایک اجتماع میں پیش کیے گئے تھے۔ یہ اجتماع معاہدہ تاشقند کے بعد طالب علموں کے ہنگاموں پر غوروغوض کرنے کے لیے طلب کیا گیا تھا جس میں مجیب کو بھی مدعو کیا گیا تھا جو اس وقت عوامی لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے۔ لیکن ان سے بڑا ذلت آمیز سلوک ہوا جب انھی کی پارٹی کے صدر نوابزادہ نصراللہ خان نے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ پارٹی صدر میں ہوں یا تم ہو؟
اس اجتماع میں موجود سبھی سیاسی پارٹیوں نے مجیب کے چھ نکات کو پورا سنا بھی نہ تھا اور انھیں بات کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ میزبان چوہدری محمدعلی نے تو شیخ صاحب کو گھر ہی سے نکال دیا تھا۔ مغربی پاکستان میں کوئی بھی ان چھ نکات کا حامی نہیں تھا لیکن یہی چھ نکات پاکستان کے ٹوٹنے کا سبب بنے۔
Mujibs's 6 Points
Saturday, 5 February 1966
The founder of Bangladesh, Sheikh Mujeebur Rahman demanded greater autonomy for East Pakistan from military ruler of West Pakistan on February 5, 1966 at Lahore..
Mujibs's 6 Points (video)
Credit: Progressbd
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
07-09-1974: قادیانی، غیر مسلم قرار پائے
14-03-1979: بھٹو کے نظریات میں تبدیلی
17-09-2012: راجہ تری دیو رائے