Five persons allegedly raped famous actress Shabnam in Lahore on May 12, 1978.
She raised her voice against this cruelty and after being found guilty, a military court sentenced all the five criminals to be hanged on October 24, 1979.
According to reports, Shabnam apparently forgave them but as the culprits were very influential people, they escaped the usual punishment. It is obvious that this was the result of pressure because if Shabnam had to forgive them, why would she have reported it? She also sat quietly like actress Zamurrad, with whom a similar incident had happened.
On May 26, 1980 , General Zia, the most disgraced usurper ruler of the time, accepted the mercy appeals of these beasts. It is obvious that that illegitimate ruler had seized power by flouting the constitution and law. Under this cursed tyranny, the oppressed and the innocent were punished by hanging and flogging, while the oppressors and criminals were spared.
This incident once again became an adornment of the media when Farooq Bandyal, a criminal involved in this heinous incident, joined the party Tehreek-e-Insaf on May 31, 2018, but due to his criminal past, he was expelled from the party due to public pressure.
شبنم ریپ کیس
12 مئی 1978ء کی رات ایک سنگین واردات میں مبینہ طور پر پانچ افراد نےشبنم کی آبروریزی کی تھی۔
اداکارہ شبنم نے اس ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کی اور کیس رپورٹ کروا دیا۔ جرم ثابت ہونے پر ایک فوجی عدالت نے 24 اکتوبر 1979ء کو پانچوں مجرموں کو پھانسی کی سزا سنادی تھی۔
اطلاعات کے مطابق بظاہر شبنم نے انھیں معاف کردیا تھا لیکن چونکہ مجرمان انتہائی بااثر افراد تھے ، اس لیے حسب معمول سزا سے بچ نکلے اور یہ دباؤ کا نتیجہ تھا کیونکہ اگر شبنم نے معاف ہی کرنا تھا تو رپورٹ کیوں کرواتی۔۔؟
وہ بھی اداکارہ زمرد کی طرح خاموش ہوکر بیٹھ جاتی ، جس کے ساتھ مبینہ طور پر ایسا ہی ایک واقعہ ہوچکا تھا۔
وقت کے ذلیل ترین غاصب حکمران جنرل ضیاع مردود نے 26 مئی 1980ء کو ان درندوں کی رحم کی اپیلیں منظور کر لی تھیں۔ ظاہر ہے کہ وہ ناجائز حکمران خود آئین و قانون کی دھجیاں بکھیر کر اقتدار پر قابض ہوا تھا۔ اس ملعون کے دور استبداد میں مظلوم اور بے گناہ افراد کو پھانسی اور کوڑوں کی سزا ملتی تھی جبکہ ظالموں اور مجرموں پر رحم کیا جاتا تھا۔ ویسے بھی پاکستان میں قانون صرف انھی لوگوں کے لیے ہوتا ہے کہ جن کا اوپر سے فون نہیں آتا۔
یہ واقعہ ایک بار پھر میڈیا کی زینت بنا جب اس مکروہ واردات میں ملوث ایک مجرم فاروق بندیال ، 31 مئی 2018ء کو حکمران جماعت تحریک انصاف میں شامل ہوا لیکن اپنےمجرمانہ ماضی کی وجہ سے عوامی دباؤ پر پارٹی سے نکال دیا گیاتھا۔