Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


25th celebration

25 Years of Pakistan Film Magazine

The complete history of Pakistan Film Magazine


پاکستان فلم میگزین کے 25 سال

پاکستان فلم میگزین، سنہری فلموں یادوں کا امین اور پاکستان کی فلمی تاریخ پر اولین، منفرد اور عظیم الشان ویب سائٹ ہے جس کا آغاز، 25 سال قبل، 3 مئی 2000ء کو ہوا تھا۔۔!

25ویں سالگرہ کے اس نادر موقع پر اپنی چھ دھائیوں کے طویل فلمی سفر کو پاکستان کی سیاسی اور فلمی تاریخ کی طرح مختصراً مگر جامع انداز میں سال بسال، یادگار واقعات کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس میں اپنی حسین فلمی یادوں اور اہم ترین سنگِ میل کے علاوہ ان ہستیوں کا ذکرِخیر بھی ہے جو اگر نہ ہوتیں تو شاید یہ ویب سائٹ بھی نہ ہوتی۔

1960 کی دھائی

1960 کی دھائی میں زندگی کے پہلے سات برسوں میں ہی اس ویب سائٹ یعنی "پاک میگزین" کا بنیادی خیال سامنے آگیا تھا۔ اس دھائی میں پاکستان میں سالانہ 70 کی اوسط سے سات سو سے زائد فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔

1962

ایک زرخیز فلمی سال

1962ء کا سال، میری پیدائش کا سال تھا جو پاکستان کی فلمی تاریخ میں ایک انتہائی "زرخیز فلمی سال" ثابت ہوا جب پاکستانی فلموں کے بہت بڑے بڑے نام پہلی بار سامنے آئے۔ ان میں زیبا، محمدعلی، وحیدمراد، شبنم، رحمان، نغمہ، رانی، شبانہ، ادیب، روبن گھوش، ماسٹرعبداللہ، خلیل احمد، مسرورانور اور مسعودرانا جیسے اعلیٰ پائے کے فنکار شامل تھے۔

1962ء کا فلمی نقشہ

اس سال کی سب سے بڑی فلم شہید (1962) تھی جو ایک بین الاقوامی معیار کی فلم تھی۔ اولاد، مہتاب، قیدی، موسیقار، چوہدری، بنجارن، گھونگھٹ اور عذرا (1962) دیگر مقبولِ عالم فلمیں تھیں۔ نسیم بیگم کا شاہکار گیت "اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔۔" اور احمدرشدی کا پہلا سپرہٹ گیت "گول گپے والا۔۔" سال کےمقبول ترین گیت تھے۔ مہدی حسن کو بھی اسی سال فلم سسرال (1962) سے بریک تھرو ملا تھا۔

انسان کو اپنی زندگی کے ابتدائی تین چار برسوں کے واقعات یاد نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ ذہن میں 1965ء میں اپنے ماموں اور خالہ کی شادیوں کی ہلکی ہلکی یادیں تو ہیں لیکن پاک بھارت جنگ یا کوئی اور واقعہ ذہن کے کسی خانے میں نہیں ملتا۔ اپنے ننھیال کے جتنے بھی واقعات یاد ہیں، یقیناً 1966ء کے لگ بھگ کے ہیں جب عمر چار پانچ سال ہوئی ہوگی۔

1966

پڑھنے کا شوق

اپنے ننھیال میں قیام کے دوران پہلا اور بڑا شوق پڑھنے کا تھا جو اس ویب سائٹ کی اساس ہے۔ گاؤں کی وہ چھوٹی سی مسجد آج بھی یاد ہے جہاں عربی قاعدہ پڑھنے جاتا تھا۔ قدرت نے ذہن بڑا تیز دیا تھا، اس لیے نہ صرف قاعدہ بڑی آسانی سے پڑھا بلکہ زندگی کی پہلی کتاب، قرآنِ مجید اور دوسری کتاب "سیف الملوک" تھی جنھیں ہجے کر کے پڑھ لیتا تھا۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ پنجاب کے عظیم روحانی شاعر میاں محمدبخشؒ کے اس لافانی کلام کی شہ سرخیاں فارسی زبان میں لکھی ہوئی ہوتی تھیں جو کسی کی سمجھ میں نہیں آتی تھی حالانکہ فارسی، ساڑھے آٹھ سو سال تک پنجاب کی سرکاری زبان رہی لیکن عوامی زبان کبھی نہ بن سکی تھی۔

ریڈیو کا شوق

اپنے ننھیال سے دوسرا بڑا شوق ریڈیو سننے کا ملا جس کے زندگی بھر بڑے گہرے اثرات رہے ہیں۔ ریڈیو کا ذہن پر جو پہلا نقش ہے وہ حبیب بینک کا ایک اشتہار ہوتا تھا جو اردو، انگریزی اور پنجابی خبروں سے پہلے آتا تھا۔ اس کے بعد ایک بارعب اور لرزتی ہوئی آواز آج بھی سماعت میں موجود ہے:

    "یہ ریڈیو پاکستان ہے، اب آپ انوربہزاد سے خبریں سنیے۔۔"
دیگر بہت سی خوبصورت آوازوں کے علاوہ خاص طور پر انگلش نیوز ریڈر محترمہ شائستہ زید کی باوقار آواز، پنجابی خبریں پڑھنے والی نورین طلعت کی کوئل نما آواز اور کراچی ریڈیو کے صداکار حسن شہیدمرزا کی آئیڈیل مردانہ آوازیں، آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہیں۔

میری یادداشت میں ریڈیو پر جو پہلا فلمی گیت محفوظ ہے، وہ فلم کون کسی کا (1966) میں مسعودرانا اور نسیم بیگم کا گایا ہوا ہے:

    "دے گا نہ کوئی سہارا، ان بے درد فضاؤں میں، سو جا، غم کی چھاؤں میں۔۔"
ریڈیو کے بارے میں مزید تفصیل "فلمی میڈیا" کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں۔

1967

اخباربینی کا شوق

سکول کی عمر ہوئی تو ننھیال جانا کم ہوگیا۔ اپنے گھر میں جو پہلی چیز نظر آئی وہ والدصاحب (مرحوم و مغفور) کا اخباربینی کا شوق تھا جو وراثت میں ایسا ملا کہ آج تک ختم نہیں ہوسکا۔ اس ویب سائٹ کا ایک طویل دور اسی شوق کی نظر ہوا جس کی باقیات "پاکستان میڈیا ڈیٹابیس" اور "اخبارات ڈاٹ کم" ہیں۔

کسی بھی اخبار کا پہلا پہلا عکس جو ذہن میں موجود ہے، وہ، روزنامہ جنگ راولپنڈی میں شائع ہونے والا فلم ملنگی (1965) کا ایک بڑا سا اشتہار ہے جو یقیناً پنجابی فلموں کے مقبول ہیرو اکمل کی جون 1967ء میں اچانک موت کے بعد شائع ہوا ہوگا۔ اسی صفحہ پر دوسرا اشتہار اسی سال ریلیز ہونے والی ایک اور سپرہٹ نغماتی فلم مرزاجٹ (1967) کا تھا۔

خوش خطی کا شوق

1967ء میں "کچی جماعت" میں داخل ہوا تو سب سے پہلے تختی لکھنا بھی والدصاحب (مرحوم و مغفور) ہی نے سکھایا۔ وہ خود بڑا خوشخط لکھتے تھے۔ تختی کی پہلی لائن پر لکھ کر دیتے اور باقی تین لائنوں میں ان کی نقل کیا کرتا تھا۔ پرائمری سکول کے زمانے میں تختی لکھنے کا جنون ہوتا تھا اور درسی کتابوں کی نقل کے علاوہ اور بہت کچھ بھی لکھتا رہتا تھا۔

خوش خطی کے شوق پر تفصیلی بات فلم "قول قرار" کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں۔

1968

پنجابی اور سرائیکی

ہوش سنبھالتے ہی سے مختلف زبانوں سے بڑی گہری دلچسپی پیدا ہوگئی تھی جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پہلی جماعت ضلع میانوالی کے شہر کندیاں میں پڑھی جہاں والدصاحب مرحوم، چشمہ بیراج پر تعینات تھے۔ پانچ چھ ماہ بعد اپنے آبائی شہر کھاریاں، واپس آیا تو لہجہ مکمل طور پر سرائیکی ہوچکا تھا اور بڑے فخر سے دوسروں کو بتایا کرتا تھا کہ پنجابی زبان کو دو مختلف انداز میں کیسے بولا جاتا ہے۔

مختلف زبانوں اور بولیوں سے یہی دلچسپی تھی جو "پاکستانی زبانوں کے ڈیٹابیس" کے علاوہ "حروفِ تہجی کی تاریخ" جیسی منفرد ویب سائٹس بنانے کا باعث بنی۔

پاکستان میں ذریعہ تعلیم

پاکستان میں گو اردو کو قومی زبان کے طور پر نافذ یا مسلط کیا گیا ہے اور سرکاری طور پر ذریعہ تعلیم صرف اردو ہی ہے لیکن زمینی حقائق کو بدلنا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کے ہر علاقے میں ابتدائی تعلیم مقامی زبانوں ہی میں رہی ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ اپنے بچپن میں دیکھ چکا ہوں جب اردو قاعدے کو پنجابی/سرائیکی میں پڑھتے تھے۔ مثلاً ، "ی" (چھوٹی یے) کو "نکیے" اور "ے" (بڑی یے) کو "وڈیے" پڑھا کرتے تھے۔

گنتی اور پہاڑے تو مکمل طور مقامی لہجے میں ہوتے تھے اور کوئی بھی "اکونجا، بونجا" کو "اکیاون، باون" نہیں پڑھتا تھا۔ "اک دونی دونی" سے لے کر "وی ویاء چار سو" تک کے پہاڑے بھی خالص پنجابی زبان میں ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے پنجابی بھی اردو میں صحیح گنتی نہیں گن سکتے اور ان پر پنجابی گنتی اور پہاڑوں کی بڑی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔

ٹیلی ویژن پر پہلا چہرہ

1968ء ہی میں ٹیلیویژن سکرین پر جو پہلا چہرہ دیکھا، وہ 1960 کی دھائی کی مقبول ترین اردو فلمی ہیروئن شمیم آراء تھی جو فلم لاکھوں میں ایک (1967) میں میڈم نورجہاں کا مشہورِزمانہ گیت" چلو، اچھا ہوا تم بھول گئے۔۔" گا رہی تھی۔

ستر کی دھائی تک کی ٹی وی نشریات پر فلمی اثرات غالب ہوتے تھے۔ زیادہ تر فلمی گیتوں اور فلمی مہمانوں کے پروگرام ہوتے جو لوگ بڑے ذوق و شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ فیچر فلم باقاعدگی سے دکھائی جاتی تھی جبکہ نئی فلموں کے ٹریلرز اور اشتہارات بھی دکھائے جاتے تھے۔

1964ء میں لاہور میں پہلا ٹی وی سٹیشن قائم ہوا لیکن ہمارے ہاں 1967ء میں قائم ہونے والے راولپنڈی/اسلام آباد ٹیلی ویژن کی نشریات نظر آتی تھیں۔ جب کبھی موسم خراب ہوتا یعنی بارش وغیرہ ہوتی تو لاہور کے علاوہ امرتسر اور سرینگر ٹی وی کی نشریات بھی نظر آ جاتی تھیں لیکن چھت پر لگا ہوا بڑا سا انٹینا ہلانے یا سیٹ کرنے کے بعد۔۔!

1969

سیاسی اور تاریخی شعور کی ابتداء

1969ء میں صرف سات سال کی عمر میں سیاسی اور تاریخی شعور کی ابتدا ہوئی۔ ذہن پر آج بھی اس وقت کے فوجی آمر جنرل ایوب خان کے خلاف عوامی غیض و غضب اور نفرت کے جذبات نقش ہیں۔ احتجاج کے دوران سڑکوں پر جلائے گئے ٹائر ذہن پر ایسے حاوی ہوئے کہ خواب میں ڈر کر جاگ اٹھتا تھا۔

گلی گلی گونجنے والے نعرے "یوبا کتا ہائے ہائے۔۔" کو تو شاید ہی کبھی بھلا سکوں۔ میرے ایک کلاس فیلو، محمدایوب کو اس نعرے سے دوسرے بچے تنگ کیا کرتے تھے۔ وہ بے چارہ، ایک غریب لکڑہارے کا بیٹا تھا اور انھی دنوں اس کی ماں بھی مرگئی تھی۔ وہ، اس لیے بھی نہیں بھولتا کہ حساب کے مضمون میں بلا کا ذہین تھا۔ ہر کلاس میں مانیٹر ہونے کے باوجود، ایوب، واحد کلاس فیلو تھا جس سے ایک بار ایک سوال کو سمجھنے میں مدد لی تھی۔

میری پہلی فلم لچھی (1969)

اسی سال، 22 اگست 1969ء کو لاہور میں ہدایتکار حیدرچوہدری کی پنجابی فلم "لچھی" ریلیز ہوئی جو چند ہفتوں بعد میرے آبائی شہر کھاریاں آئی ہوگی۔ سینما پر دیکھی ہوئی یہ میری پہلی فلم ہے جو والدصاحب مرحوم نے اپنے دوستوں کے ساتھ دکھائی تھی۔ وہ منظر، وہ لمحات، آج بھی ذہن میں ایسے تازہ ہیں کہ جیسے ابھی کل ہی کی بات ہو۔

والدصاحب مرحوم اور اپنی اس فلم پر تفصیلی بات فلم "لچھی" کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں۔

1970 کی دھائی

1970 کی دھائی، بچپن سے لڑکپن تک کا دور تھا جو پاکستان کی طرح، میری ذاتی زندگی کے لیے بھی بڑا ہنگامہ خیز دور تھا۔ اس دھائی میں، پاکستان کی فلمی تاریخ کی سب سے زیادہ یعنی ایک ہزار سے زائد فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔

1970

سنہرا فلمی دور

1970-73ء کے چار برسوں کو اپنی زندگی کا "سنہرا فلمی دور" کہتا ہوں۔ درحقیقت یہی چار فلمی سال ہیں جو "پاکستان فلم میگزین" کی تشکیل کا باعث بنے۔

1970ء کا سال، میری "خودی" کا پہلا مکمل سال تھا۔ دس گیارہ سال کی عمر یعنی 73-1972ء میں ایک گھاگھ فلم بین بن چکا تھا جس کے فلمی جنون کا یہ عالم تھا کہ باقاعدگی سے فلمیں دیکھنے کے علاوہ چار قومی اخبارات کے ہر جمعہ کو شائع ہونے والے فلمی ایڈیشن کافی نہیں ہوتے تھے بلکہ ہر ہفتے ایک فلمی رسالہ بھی پڑھتا تھا جس سے فلموں اور فنکاروں سے ایسی جانکاری ہوئی جو عام فلم بینوں کو نہیں ہوتی تھی۔

اس پر مزید تفصیل "فلمی میڈیا" اور فلم زرقا (1969) کے مضامین میں ملاحظہ فرمائیں۔

قیصر سینما کھاریاں

اس "سنہرے دور" میں دیکھی ہوئی فلموں میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی سبھی فلمیں، "قیصرسینما کھاریاں" میں مفت میں دیکھی تھیں۔

یہ اس لیے ممکن ہوا کہ سینما کے بل بورڈ بنانے والے کھاریاں شہر کے ایک نامی گرامی پینٹر، استاد رشید، ہماری دکان پر کام کرتے تھے اور انھی کی معرفت قیصرسینما کے مالک سے نوکر تک، سبھی سے واقفیت پیدا ہوگئی تھی اور اس طرح سے ہر بار بلارکاوٹ اور بلامعاوضہ فلم دیکھنے کا موقع مل جاتا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ مفت میں دیکھی ہوئی ان فلموں کا جو قرض واجب الادا تھا، وہ "پاکستان فلم میگزین" کی صورت میں اب تک ادا کررہا ہوں۔۔!

استاد رشید (اور قیصرسینما) کے بارے میں اپنی دوسری فلم "قول قرار" میں تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

فلم بینی کا شوق

1973ء میں فلم بینی کا شوق اپنے شہر کی حدود کراس کرگیا تھا اور پہلی بار کسی دوسرے شہر کے کسی سینما پر کوئی فلم دیکھی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ساری زندگی اکیلے اپنے شہر سے باہر کبھی کوئی فلم نہیں دیکھی۔

اپنی زندگی کے اس پہلے چار سالہ "سنہرے فلمی دور" میں سو کے قریب فلمیں دیکھ لی تھیں جن میں پہلی فلم لچھی (1969) اور آخری فلم وچھڑیا ساتھی (1973) تھی جبکہ ترتیب کے لحاظ سے دیکھی ہوئی پہلی پانچ فلمیں، لچھی، قول قرار، عشق نہ پچھے ذات، زرقا اور زندگی کتنی حسین ہے (1969) یاد ہیں جن سے بڑی سنہری یادیں وابستہ ہیں۔

1971

ذوالفقارعلی بھٹوؒ کے اثرات

پاکستان میں 1970ء میں پہلے عام انتخابات ہوئے جو آج تک ذہن پر نقش ہیں۔1971ء میں ایک شرمناک فوجی شکست کے بعد پاکستان دولخت ہوا جس کے نتیجہ میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے علاوہ جنگی قیدی، مقبوضہ علاقے، قومی مایوسی اور ناامیدی، بین الاقوامی رسوائی اور جگ ہنسائی کبھی نہیں بھلا سکا۔

اس تاریخی دور میں روزانہ اخبارات کا مطالعہ اور اپنے بزرگوں کو ایک نیوز ریڈر کے انداز میں اخبارات سے خبریں اور تبصرے پڑھ کر سنانا ایک معمول بن گیا تھا۔ اس دور کے بحث و مباحثے اور سیاسی گفتگو، ذہن پر ایسی حاوی ہوئی کہ آج تک کوئی متاثر یا گمراہ نہیں کر سکا۔

ایک عظیم محسن

ان تلخ حالات میں پاکستان کے عظیم محسن جناب ذوالفقارعلی بھٹوؒ، قوم کے نجات دہندہ کے طور پر سامنے آئے جنھوں نے نہ صرف ایک انتہائی مایوس اور شکست خوردہ قوم کو سنبھالا دیا بلکہ پاکستان کو چلانے کے لیے ایک متفقہ آئین اور بچانے کے لیے ایک ایٹمی طاقت بنایا۔ انعام کے طور پر ایک احسان فراموش قوم نے اسے پھانسی چڑھا دیا۔۔!

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آج تک کوئی ایک بھی لیڈر ایسا نہیں آیا کہ جو بھٹو صاحب کی کارکردگی، قابلیت اور مقبولیت کا عشر عشیر بھی ہو۔

اے کاش، اس عظیم ہستی کے شایانِ شان خراجِ تحسین پیش کر سکوں جس کا نام سنتے ہی آنکھیں عقیدت و احترام سے نم ہوجاتی ہیں اور اس پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں بھیجنے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔ (رحمتہ اللہ علیہ)۔

1974

ڈنمارک آمد

1974-76ء کے تین سال، ڈنمارک میں گزرے جہاں پہلی پاکستانی فلم آؤ پیار کریں (1972) اور آخری فلم "فجرِ اسلام" تھی جو ایک اسلامی تاریخ پر بنائی گئی ایک بین الاقوامی فلم تھی۔

ڈنمارک میں قیام کے دوران، پتن (1955)، شہید (1962)، نائیلہ (1965) اور باؤجی (1968) جیسی شاہکار پرانی فلمیں دیکھ کر 60-1950 کی دھائیوں کی بلیک اینڈ وہائٹ پاکستانی فلموں کا ایسا رسیا ہوا کہ زیادہ تر نئی فلمیں متاثر نہیں کرتی تھیں۔

بھارت سے شدید نفرت

بارہ تیرہ سال کی عمر تک ایک جنونی پاکستانی بن چکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یہاں کے مقامی "ساگا سینما" پر ہر اتوار کو پاکستانی فلم دیکھنا اپنا قومی فرض سمجھتا تھا۔ 1971ء کی جنگ کی وجہ سے بھارت سے شدید نفرت ہوگئی تھی اور ان گنے چنے پاکستانیوں میں سے ایک تھا جو بھارتی فلمیں دیکھنا گناہ کبیرہ اور اپنے ملک سے غداری سمجھتے تھے۔

اسی دور میں ٹی وی پر دنیا بھر کی کلاسک فلمیں دیکھنے کا شوق پیدا ہوا جو انٹرنیٹ کی آمد تک جاری رہا۔ اس دوران، سویڈش ٹی وی پر دو قسطوں میں بھارتی فلم گنگا جمنا (1961) دیکھی جو میری پہلی بھارتی فلم تھی اور اس لیے دیکھی کہ مفت میں ٹی وی پر دکھائی جا رہی تھی۔۔!

بعد میں وی سی آر، سیٹلائٹ ٹی وی اور انٹرنیٹ پر بے تحاشا بھارتی فلمیں دیکھیں لیکن آج تک سینما پر یا کسی قسم کی کوئی قیمت ادا کرکے کوئی بھارتی فلم نہیں دیکھی۔ اس طرح سے اپنے بچپن کےاس عہد کا پابند رہا کہ "دشمن کے سرکاری خزانے میں حصہ ڈال کر اپنے ملک سے غداری نہیں کرنی۔۔!"

بھارتی فلمی فنکاروں کے مقام و مرتبہ سے کوئی اختلاف نہیں لیکن یقیناً ان بدذوق افراد میں شامل ہوں جنھیں بھارتی فلموں یا فنکاروں سے کبھی دلچسپی پیدا نہیں ہوسکی اور نہ ہی وہ اوچھے لوگ کبھی متاثر کر سکے جو ہم پاکستانیوں کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر کے اغیار کے گن گاتے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی فلموں سے میری دلچسپی، محمدرفیع سے شروع ہو کر محمدرفیع پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔

بین الاقوامی ماحول

ڈنمارک میں پہلے تین سالہ قیام کے دوران یہاں کی مقامی زبان ڈینش سیکھنے میں بڑی آسانی ہوئی کیونکہ والدصاحب مرحوم نے ایک گوری سے شادی کر رکھی تھی جس سے ان کے دو بچے بھی تھے۔ اس طرح سے مغربی ماحول کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران پہلی بار آئیڈیو کیسٹ دیکھی اور سنی جس پر اپنے والدصاحب مرحوم کی پسندیدہ گلوکارہ زبیدہ خانم کے گیت سنے جنھیں میری "ڈینش ماں" بھی بڑے ذوق و شوق سے سنتی تھی۔

ڈنمارک میں اپنے پہلے تین سالہ قیام کے دوران سکول میں دنیا بھر کے لوگوں سے رابطہ ہوا جس نے ایک بین الاقوامی ماحول میں بہت زیادہ تجربات اور مشاہدات سے مالا مال کیا۔ مقامی لائبریری میں دنیا بھر کی کتابوں کے علاوہ اخبارات و جرائد کو کھنگالنا میرے فارغ اوقات کا سب سے بہترین مشغلہ ہوتا تھا۔ اسی دور میں بڑی تعداد میں پاکستان کے ماہانہ ڈائجسٹ رسالے اور اردو ناول بھی زیرِمطالعہ رہے۔

1975

پاک میگزین کا بنیادی خاکہ تیار ہوا

ڈنمارک کی تاریخ کی ایک سالانہ کتاب پڑھ کر "پاک میگزین" کا خاکہ ذہن میں آیا جس سے متاثر ہوکر اپریل 1975ء سے اپنی سکول کی کاپیوں کے صفحات پر "ماہنامہ پاک کوپن ہیگن" ہر مہینے باقاعدگی سے بنانے لگا۔ اس پر ایک تفصیلی مضمون، گزشتہ سال مرکزی ویب سائٹ "پاک میگزین" کی 25ویں سالگرہ پر لکھ چکا ہوں۔

جب بھٹو صاحب کو دیکھا اور سنا

زندگی بھر کسی پارٹی یا تنظیم سے کوئی تعلق رہا نہ کسی کا آلہ کار بنا لیکن تاریخ کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے جناب ذوالفقارعلی بھٹوؒ کا سیاسی کردار ہمیشہ سے انتہائی غیرمتنازعہ رہا اور آج تک ان کے خلاف کوئی منفی بات متاثر نہیں کر سکی۔

اس عظیم المرتبت ہستی کو اپنے سامنے دیکھنے اور سننے کی سعادت حاصل ہوئی اور ان کے اس زریں فرمان پر ہمیشہ عمل کرنے کی کوشش کی جب انھوں نے کوپن ہیگن ائیرپورٹ پر اپنے مختصر خطاب میں یہ فرمایا تھا کہ "آپ سب پاکستانی، بیرونِ ملک پاکستان کے سفیر ہیں۔ کوئی کام ایسا نہ کریں، جس سے آپ کی اور آپ کے ملک کی بدنامی ہو۔۔!"

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے بعد یہاں پہلی بار پیپلز پارٹی کا دفتر قائم کیا گیا جس کا پہلا بینر میں نے ہی لکھ کر دیا تھا لیکن باقاعدہ دعوت کے باوجود پارٹی میں شمولیت سے معذرت کر لی تھی۔

1976

ایک یادگار سفر

آج جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ قدرت نے کیسے کیسے تجربات اور مشاہدات سے نوازا۔ تاریخ سے دلچسپی ہو اور جغرافیہ سے نہ ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔ ڈنمارک سے پاکستان کا ساڑھے آٹھ ہزار کلومیٹر طویل بائی روڈ سفر 28 دنوں کے تلخ و شیریں لیکن یادگار واقعات کے بعدطے ہوا اور 20 دسمبر 1976ء کو پاکستان پہنچے جو بھٹو صاحب کی "عوامی حکومت" کی 5ویں اور آخری سالگرہ کا دن تھا اور اسی دن پاکستان میں ٹیلی ویژن کی رنگین نشریات کا آغاز بھی ہوا تھا۔

1977

ایک انتہائی تلخ دور

1977-82ء کا دور میری زندگی کا انتہائی تلخ دور تھا جب خوابوں کے محل، ریت کے گھروندوں کی طرح سے بکھر گئے تھے۔ ڈنمارک کی آرام دہ زندگی چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے پاکستان گیا لیکن ایک آمرمردود نے میری "پاکستانیت" کو بڑی سخت ٹھیس پہنچائی تھی۔

1977ء کے متنازعہ انتخابات، مبینہ دھاندلیوں کے الزامات، بھٹو مخالف مہم اور بدنامِ زمانہ تحریکِ نظامِ مصطفیٰ ﷺ کے بعد ملعون جنرل ضیاع مردود کی آمد، پاکستان پر غاصبانہ اور جابرانہ قبضہ، منافقت اور قول و فعل کا تضاد، زبان و بیان پر پابندیاں، سرِعام کوڑے اور پھانسیاں، انسانیت کی تذلیل، مذہبی انتہاپسندی کا فروغ، ہیروئن، کلاشنکوف اور ڈالروں کی ریل پیل کے علاوہ بھٹو پر بے بنیاد مقدمہ قتل اور پھانسی یا عدالتی قتل کے واقعات کو آج تک نہیں بھلا سکا۔ قدرت نے شاید تاریخ کے ایک طالبِ علم کو ان سبھی تاریخی واقعات کا عینی شاہد بننے کے لیے دوبارہ پاکستان کی راہ دکھائی تھی۔

فلم بینی کا محدود شوق

ساڑھے پانچ سال کے اس تاریک دور میں فارغ اوقات میں مطالعہ اپنے عروج پر تھا۔ اخبارات و جرائد کے علاوہ لاہور اور کراچی کے ڈائجسٹ رسالے بھی بڑی تعداد میں پڑھتے تھے جبکہ شعر و شاعری کا شوق بھی پیدا ہوا۔ البتہ فلموں سے دلچسپی محدود ہونا شروع ہوئی اور زیادہ تر پرانی فلمیں ہی دیکھتا تھا۔

پاکستان میں قیام کے دوران بھی سکول کی کاپیوں پر "ماہنامہ پاک ڈائجسٹ کھاریاں" بنانے کے بعد اپریل 1978ء سے باقاعدگی سے روزانہ کی ڈائری لکھنے کا شوق پیدا ہوا جس میں ذاتی واقعات و مشاہدات کے علاوہ تاریخی اور سیاسی واقعات بھی لکھتا تھا۔

1979

بھٹو کی پھانسی

1979ء میں بھٹو کی پھانسی کے غم میں ڈیڑھ سال تک فلم بینی اور دیگر کئی شوق ترک کیے رکھے۔ بھٹو صاحب کے آخری ایام کو اپنی سیاسی ڈائریوں میں محفوظ کیا اور اس تاریک دور کے دیگر سبھی حالات آج تک ایک ڈراؤنے خواب کی طرح سے ذہن پر نقش ہیں۔

1980 کی دھائی

1980 کی دھائی میں پاکستان فلم میگزین کا ابتدائی کام شروع ہوا جب فلموں، فلمی گیتوں اور فلمی معلومات پر چھان بین شروع کی۔ اس دھائی میں پاکستان میں فلمی بزنس انہتائی عروج پر تھا اور 80 کی سالانہ اوسط سے آٹھ سو سے زائد فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔

1980

مذہبی رحجان کا غلبہ

بھٹو کے قاتل اور پاکستان پر قابض جنرل ضیاع مردود کو "کانا دجال" بھی کہا جاتا تھا اور طرح طرح کی توہمات مشہور تھیں۔

خوف و ہراس کے اس تاریک دور میں صرف سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں خدا سے لو لگانے کی کوشش کی۔ باقاعدہ طور پر پنج وقتہ باجماعت نمازی بن گیا۔ قرآنِ مجید کی تفاسیر کے علاوہ بڑی بڑی مذہبی کتب پڑھیں اور مذہبی حلقوں کی روزمرہ زندگی اور سوچ کا گہرا مشاہدہ کیا۔

مذہبی بحث و مباحثے

یہ مذہبی ماحول کا ہی اثر تھا کہ یہاں ڈنمارک آکر عیسائی مشنری ٹیموں سے بحث و مباحثہ ہوتا رہا اور اس دوران بائبل کا اچھا خاصا مطالعہ کیا۔ ایک یہودی، میرا حجام اور دوست تھا جبکہ سکھوں اور ہندوؤں سے بھی مذہبی امور پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ یہاں ڈنمارک کے بیشتر لوگ بے دین ہیں جن سے متعدد دلچسپ مکالمے ہوئے۔ ان تمام تر تجربات سے مذہبی رواداری اور انتہاپسندی سے بچنے کا سبق ملا۔

دورِحاضر میں سوشل میڈیا پر مولویوں کی مرغوں کی طرح کی لڑائی سے بڑا محظوظ ہوتا ہوں۔ جو باتیں آشکار ہورہی ہیں، وہ نئی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی علوم میں جتنا گہرائی میں جائیں گے، اتنا ہی گمراہی کا اندیشہ ہوگا، اس لیے جیو اور جینے دو کا اصول یہ ہے کہ اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں، دوسروں کا چھیڑو نہیں۔۔!

زندگی رہی تو کبھی ان تجربات پر بڑی تفصیل سے لکھوں گا اور بتاؤں گا کہ ایک لبرل یا سیکولر مسلمان ہونے کے باوجود آج بھی اگر نماز روزے کی پابندی کرتا ہوں تو کیوں کرتا ہوں۔۔؟

1982

دوبارہ ڈنمارک آمد

مئی 1982ء میں ایک بار پھر ڈنمارک آنے کا موقع ملا جہاں سینما کلچر ختم ہوچکا تھا اور VCR پر فلموں کی بھرمار تھی۔ پاکستان میں ساڑھے پانچ سالہ قیام کے دوران پہلی فلم شبانہ (1976) اور آخری فلم دوستانہ (1982) تھی۔ ڈنمارک آکر جو پہلی ویڈیو فلم دیکھی وہ، دوستی (1971) تھی۔

زندگی میں پہلی بار ایک VHS ویڈیو کیسٹ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کیونکہ سینما پر ایک عام فلم کی بارہ تیرہ بڑی بڑی ریلیں دیکھی ہوئی تھیں جو ایک چھوٹی سی کیسٹ میں سمٹ کر رہ گئی تھیں۔

کیسا عجب اتفاق ہے کہ جب پہلی بار ڈنمارک آیا تو "آئیڈیو کیسٹ" دریافت کی اور دوسری بار "ویڈیو کیسٹ"، اب یہ دونوں، ماضی کا قصہ بن کر رہ گئی ہیں۔۔!

1983

یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے

فلم بینی کے اس شوق (یا جنون) میں اس دور میں ایک جدید اور انتہائی مہنگے ٹی وی اور وی سی آر سیٹ کو تین سالہ قسطوں میں خریدا۔ زندگی کی اس سب سے بڑی فضول خرچی پر آج بھی سخت پچھتاوا ہوتا ہے لیکن اس وقت "یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے۔۔" والی بات تھی۔

پاکستان کی شاید ہی کوئی فلم ہوگی جو VCR پر آئی ہو اور کم از کم ایک بار نہ دیکھی ہو۔ خاص خاص فلموں کو اپنے پاس ریکارڈ کر لیتا جبکہ بے شمار فلموں سے اپنی پسند کے گیتوں کی آئیڈیو اور ویڈیو کیسٹس بھی بنایا کرتا تھا۔ ان کے علاوہ اس دور کے پی ٹی وی پروگراموں سے فلمی فنکاروں کے انٹرویوز اور دیگر معلومات بھی اپنے پاس ریکارڈ کرلیا کرتا تھا۔

1984

بے نظیر بھٹو سے ملاقات

پاکستان میں رہ کر تو صحافت کا شوق پورا نہیں ہوا لیکن دوبارہ ڈنمارک آکر یہ تجربہ بھی ہوا اور "کانوں میں راجہ" بنا جو ایک الگ داستان ہے۔

اس تلخ تجربے کا ایک ہی یادگار پہلو تھا کہ 3 جون 1984ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ سے روبرو ملاقات ہوئی جس میں انھوں نے میری ادارت میں شائع ہونے والے ایک لوکل رسالے کی رسمی طور پر تعریف کی جس پر سخت شرمندگی محسوس ہورہی تھی۔

بے نظیر بھٹو نے یہاں کوپن ہیگن، ڈنمارک میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا جس کی رپورٹنگ اور اشاعت میری نام نہاد صحافتی زندگی کی اکلوتی کاوش تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس رسالے میں ان کی تقریر شائع کی، اس کو پاکستان میں بین کردیا گیا تھا۔

پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت

محترمہ بے نظیر بھٹو کی اس یادگار تقریر کے سرکاری کتابچہ کی ترتیب و تدوین کی اور شہ سرخیاں بھی لکھ کر دیں۔ اس کے لیے پیپلز پارٹی کے مقامی صدر نے رابطہ کیا تھا اور باضابطہ طور پر ایک اہم عہدے کے ساتھ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت بھی دی جس پر (ایک بار پھر) معذرت کر لی کیونکہ ذاتی طور پر بیرونِ ملک پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے قیام اور سرگرمیوں کے سخت خلاف رہا ہوں۔

یاد پڑتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے جلسہ کے علاوہ صرف ایک اور سیاسی مجلس میں شرکت کی جب کراچی کے ایک ہفت روزہ "تکبیر" کے ایڈیٹر محترم صلاح الدین مرحوم، کوپن ہیگن تشریف لائے تھے۔ وہ، بھٹو صاحب کے کٹڑ دشمن تھے اور زندگی بھر انھوں نے شاید ہی کوئی مضمون ایسا لکھا ہو گا، جس میں بھٹو یا اس کی پارٹی،نظریات اور سیاسی کردار پر تنقید نہ کی ہو۔ باقاعدگی سے انھیں پڑھتا تھا لیکن کبھی متاثر نہیں ہوا۔

1985

فلمی گیتوں پر تحقیق

1985ء کی ایک ڈائری پر پہلی بار فلمی معلومات اور خصوصاً پاکستانی فلمی گیتوں پر تحقیقی کام شروع کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل صرف سیاسی اور تاریخی واقعات سے دلچسپی ہوتی تھی، فلمیں اور فلمی گیت، صرف تفریح کے لیے ہوتے تھے اور فلمی معلومات کو سرسری طور پر پڑھا کرتا تھا۔

ذاتی طور پر مجھے، فلموں میں اداکاروں سے زیادہ گلوکاروں سے دلچسپی ہوتی تھی جو ایک طویل عرصہ سے ریڈیو سننے کی وجہ سے ہوگی۔ اسی لیے پاکستانی مردانہ گیتوں پر بھرپور تحقیق کی۔ خاص طور پر مسعودرانا صاحب کے گیتوں کے علاوہ موازنے کے طور پر دیگر گلوکاروں کے فلمی گیتوں کا ریکارڈ بھی اکٹھا کیا۔

آئیڈیو کیسٹوں کا دور

اس دور میں ریلیز ہونے والی مختلف گلوکاروں کی آئیڈیو کیسٹوں کا شاید ہی کوئی فلمی گیت ہوگا، جو میرے پاس نہ ہو۔ فلموں، ریڈیو، ٹی وی اور مختلف اخبارات و جرائد کے مضامین میں درج فلمی گیتوں کو بھی اپنی ڈائریوں میں نوٹ کر لیا کرتا تھا۔

پاکستان کی نسوانی آوازوں کے صرف مشہور گیت ہی یاد تھے البتہ ان سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی تھی جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ فلموں میں ناچتی گاتی عورتوں کو دیکھنے کا شوق کبھی نہیں رہا بلکہ جس طرح سے خاص طور پر ہماری پنجابی فلموں میں عورت کو نچایا جاتا ہے، وہ دیکھنے کی تاب نہیں ہوتی۔

فلمی گیتوں پر تحقیقی کام کا دائرہ اس قدر وسیع ہوا کہ زندگی میں پہلی بار محمدرفیع صاحب کے گیتوں کا بہت بڑا سٹاک خریدا اور ہر بھارتی گلوکار کی کم از کم ایک آدھ کیسٹ بھی خریدی جو میرے اپنے ہی اصول کی نفی تھی کہ بھارتی خزانے میں حصہ نہیں ڈالنا لیکن تحقیقی کام کے لیے یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔

اسی سال "پاک میگزین" کے دو شمارے شائع کرنے کا شوق بھی پورا کیا اور سخت ناکامی کے بعد عملی صحافت سے توبہ کرلی تھی۔

1986

جب پہلا کمپیوٹر کورس کیا

1986ء میں پہلا کمپیوٹر کورس کرنے کا موقع ملا جس کے دوران ٹائپ رائٹنگ کا فن بھی سیکھا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ آج بھی یہ جانے بغیر کہ انگلش/ڈینش یا اردو کا کون سا حرف کس Key پر ہے، کی بورڈ پر بن دیکھے انگلیاں ایسے تھرکتی ہیں کہ جیسے پیانو کا کوئی ماہر انگلیوں کی جل ترنگ سے ساز بکھیرتا ہے۔ اس لیے حیرت نہیں ہوتی کہ اس ویب سائٹ کا ایک ایک حرف میرا اپنا فیڈ کیا ہوا ہے۔۔!

یاسین گوریجہ کی فلم ڈائریکٹری

اسی سال، پاکستان کے ایک نامور فلمی صحافی یاسین گوریجہ کی فلم ڈائریکٹری نظر سے گزری جس نے میری آتشِ شوق کر مزید بھڑکا دیا اور فلموں کو کرونیکل آرڈر سے ویڈیو کیسٹوں پر ریکارڈ کرنا شروع کیا جو بعد میں ویب سائٹ کے لیے بھی کام آیا۔

1989

جب لازمی فوجی سروس کرنا پڑی

1980ء کی دھائی میں ہم پاکستانی، "ہیروئن کے سمگلروں" کے طور پر جانے جاتے تھے اور بڑے تلخ واقعات ہورہے تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ میرے ساتھ بھی ہوا جب اپنی کمپنی کے ساتھ یورپ کے ایک کاروباری دورے کے دوران ایک ائیرپورٹ پر میرے گرین پاکستانی پاسپورٹ کو روک لیا گیا جس پر میرے ساتھی بے جا انتظار کی کوفت میں بڑے پریشان ہوئے۔

واپسی پر یہ مخلصانہ مشورہ ملا کہ اگر آج مجھے روکا گیا ہے تو کل کو میرے بچوں کو بھی روکا جائے گا، ویزہ وغیرہ کا مسئلہ بھی رہے گا تو کیوں نہ سفری دستاویزات کے لیے ڈینش شہریت حاصل کرلوں۔

حالات و واقعات نے حقیقت پسند بنا دیا تھا اور بات سمجھ میں آگئی تھی۔ بغیر کسی خاص مشکل کے ڈینش پاسپورٹ مل گیا لیکن اس کی سزا یہ ملی کہ ڈنمارک کے اس وقت کے قانون کےمطابق لازمی فوجی سروس کرنا پڑی جو مزاج کے سخت خلاف تھی لیکن مجبوری تھی اور ایک ناقابلِ فراموش تجربہ بھی تھا۔۔!

1990 کی دھائی

1990 کی دھائی میں پاکستانی فلموں پر تحقیقی کام اپنے عروج پر تھا۔ اس دھائی میں وی سی آر کی جگہ کیبل اور سیٹلائٹ ٹی وی نے لے لی تھی۔ پاکستان میں 70 کی اوسط سے سات سو سے زائد فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔

1990

فلمی معلومات پر تحقیقی کام

1990 کی دھائی میں پاکستانی فلموں پر تحقیقی کام کے سلسلے میں جہاں ریڈیو، ٹی وی اور فلم کے علاوہ روزانہ اخبارات زیرِ مطالعہ تھے وہاں "اخبارِجہاں" اور متعدد دیگر جرائد کے علاوہ پہلی بار کراچی کے ایک معروف فلمی اخبار "نگار" کا باقاعدگی سے مطالعہ شروع کیا اور سالانہ خریدار بھی بنا۔

اس وقت تک ای میل عام نہیں ہوا تھا۔ پہلے خطوط کے ذریعے رابطہ ہوا لیکن کچھ عرصہ بعد ٹیلی فیکس کی سہولت مل گئی جس کا مطلب یہ تھا کہ اپنی مشین میں لکھا ہوا خط ڈالتا جو چند منٹ بعد "نگار" والوں کی ٹیلی فیکس مشین میں پرنٹ ہوجاتا تھا۔ ایک آدھ بار ٹیلی فون پر بھی بات ہوئی تھی۔

تحقیقی کام میں مشکلات

میرے ذہن میں بے تحاشا سوالات تھے لیکن تحقیقی کام میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ "نگار" والے اپنی مرضی کے سوالوں کے جوابات دیتے تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ جیسے ان کی دنیا صرف اور صرف کراچی اور حیدرآباد تک محدود ہے جبکہ پاکستان کے فلمی سینٹر لاہور اور سب سے بڑے پنجاب فلم سرکٹ کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ یہاں تک کہ وہاں کی اردو فلموں کے ریکارڈز کا ذکر تک نہیں ہوتا تھا۔

"نگار" میں لکھنے والے بیشتر مافیا ٹائپ انتہائی متعصب اور بددیانت لوگ تھے۔ چند فنکاروں کے پرستاروں کی اجارہ داری تھی۔ صرف اردو فلموں اور فنکاروں کو ہی پاکستانی فلمیں اور فنکار سمجھا جاتا جبکہ باقی "پاکستان کی علاقائی فلمیں اور فنکار" تھے جنھیں نظرانداز کرنے کے علاوہ غلط بیانی اور توہین کی جاتی تھی۔

اس بدترین تعصب، تنگ نظری اور کج روی کے باوجود فلمی معلومات کے حصول کے لیے انھیں مسلسل تنگ کرتا رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت تک وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ ساری تگ و دو، اصل میں ایک تاریخ ساز ویب سائٹ کی تیاری کے لیے کر رہا ہوں۔

1992

جب ایک فلم بنائی۔۔!

1980 کی دھائی کے آخر میں ڈینش شہریت لینے کے علاوہ لازمی فوجی سروس بھی کرچکا تھا۔ میری سرکاری کمپنی کی چیف بڑی مہربان تھی، اس نے مشورہ دیا کہ اب لگے ہاتھوں سول سروس کے امتحانات بھی پاس کرلوں۔ میں ایک آزاد پنچھی رہنا چاہتا تھا لیکن اس کو ایک چیلنج سمجھا اور ایک لمبا مرحلہ شروع ہوا جس میں بے شمار کورس کیے۔

ایک کورس کے دوران ایک انسٹرکٹر نے پڑھے ہوئے مواد پر مبنی پانچ دس منٹ کی فلمیں بنانے کا ٹارگٹ دیا۔ پورے ڈنمارک کے شرکاء تھے جنھیں تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا اور ایک ایک موضوع دے کر ریکارڈنگ کا ٹائم بھی دے دیا گیا۔ اپنے گروپ میں اکلوتا غیرملکی ہونے کے باوجود "کانا راجہ" نکلا جس نے کہانی، مکالمے، ڈائریکشن کے علاوہ ایکٹنگ بھی کی اور حسب ضرورت انسٹرکٹر کو ہدایات بھی دیں جو کیمرہ مین کی خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ یہ زندگی کا انوکھا تجربہ تھا۔

تینوں فلموں کو دکھایا گیا اور متفقہ طور پر میری بنائی ہوئی فلم پہلے نمبر پر آئی۔ آج بھی انسٹرکٹر کا یہ تعریفی جملہ یاد ہے کہ "تم تو کوئی پروفیشنل فلم ڈائریکٹر لگتے ہو۔"

1994

سرکاری ملازمت سے اخبار فروشی تک

ڈنمارک کی سرکاری ملازمت کے جملہ امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔ آخری امتحان میں پچاس سوالوں میں سے صرف دو غلطیاں ہوئیں جو سب سے کم تھیں لیکن افسردہ تھا کہ یہ غلطیاں ہوئیں تو ہوئیں کیوں؟۔ چیف کو میری یہی عادت پسند تھی۔ ویسے بھی سات سو افراد میں سے میں اکلوتا غیرملکی یا کالا تھا لیکن گوروں کے مقابلے میں کبھی احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہوا تھا۔

سرکاری ملازمت کی پیش کش ہوئی تو نہ صرف معذرت کی بلکہ کمپنی ہی کو خیرآباد کہنے کا اعلان کردیا۔ چیف سمیت سبھی حیران رہ گئے۔ خاص طور پر جب انھیں وجہ معلوم ہوئی تو خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگے کہ جیسے انھیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ایک باعزت سرکاری ملازمت پر ایک کمتر درجہ کے "اخبار فروش" بننے کو ترجیح دے رہا ہوں۔ انھیں کیا بتاتا کہ "میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں۔۔!"

اتفاق سے ایک "اخبار فروش" کی دکان خریدنے کا موقع ملا جس نے اپنے بینک کا قرضہ میرے نام کروا دیا اور اس طرح سے اچانک اور بغیر کسی پیشگی ارادے یا مطلوبہ بجٹ کے ایک دکان کا مالک بن گیا تھا۔

اس وقت تک، ایک پاکستانی دکان سے روزانہ اردو اخبار کی خریداری کے علاوہ ہر ہفتے مقامی لائبریری میں جا کر بین الاقوامی اخبارات و جرائد اور کتب کا مطالعہ کرنا مستقل عادت بن چکی تھی۔ اب شوق اور کاروبار ایک ہورہا تھا تو انکار نہ کرسکا۔ ایک سال تک آفس اور دکان کی دوہری ذمہ داریاں نبھائیں اور روزانہ سولہ سولہ گھنٹے تک کام کیا۔

1996

پاکستان کا یادگار سفر

مارچ اپریل 1996ء میں، عرصہ چودہ سال بعد، پاکستان کا ایک یادگار سفر کرنے کا موقع ملا جس میں اپنے ویڈیو کیمرے سے اٹھارہ گھنٹے تک کی طویل اور یادگار ریکارڈنگ کی تھی۔ اس دوران لاہور کے کسی سینما (ملک تھیٹر) میں پہلی فلم دیکھی جبکہ اپنے آئیڈیل گلوکار جناب مسعودرانا صاحب کی تعزیت کے لیے ان کے گھر (اقبال ٹاؤن) بھی گیا تھا۔ لاہور کے ایک ہوٹل میں اتفاق سے گلوکار غلام عباس سے بھی بات چیت کا موقع ملا تھا۔

دسمبر 1993ء میں ٹیلی فون پر مسعودرانا سے بات ہوئی تھی جبکہ ان سے پہلے یہاں ڈنمارک میں مختلف میوزکل شوز میں مہدی حسن، مجیب عالم، معین اختر، عرفان کھوسٹ، جمیل فخری اور ملک انوکھا سے باتیں کرنے کا موقع بھی ملا۔ ان کے علاوہ غلام فرید صابری قوال ، نصرت فتح علی خان اور اسد امانت علی خان ہی کو براہ راست سننے کا موقع ملا اور خواہش کے باوجود کبھی کسی دوسرے فنکار سے ملنے کا موقع نہیں ملا اور نہ ہی کبھی مصروفیات نے اس کی اجازت دی۔

1997

ایک یادگار دور

1990 کی دھائی کا بیشتر حصہ ایک "اخبار فروش" کے طور پر گزارا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ میری زندگی کا بہترین، آئیڈیل اور یادگار دور تھا جب شوق اور کاروبار یکجا ہوگئے تھے۔۔!

صبح کا آغاز مقامی اخبارات کے مطالعہ سے ہوتا۔ دوپہر تک بین الاقوامی اخبارات بھی آجاتے جن میں اپنے لیے روزنامہ جنگ لندن بھی منگواتا جو 18 جنوری 2025ء کو مستقل طور پر بند ہوچکا ہے۔ بیشتر عالمی اخبارات کی زبانیں سمجھ نہ آنے کے باوجود ان کی ورق گردانی کرتا اور لے آؤٹ اور ڈیزائن کو غور سے دیکھتا جو ویب سائٹ بناتے ہوئے بڑے کام آیا۔

روزانہ اخبارات کے مطالعہ کے بعد دیگر جرائد کی باری آتی۔ ریڈیو، ٹی وی اور ویڈیو کی سہولت بھی تھی اور پتہ ہی نہ چلتا تھا کہ روزانہ کے پندرہ سولہ گھنٹے کیسے گزر جاتے تھے۔

1998

پرنٹ میڈیا کا زوال

سوچا تھا کہ "زندگی اپنی گزر جائے گی آرام کے ساتھ۔۔" لیکن زندگی، پاکستان کے سیاسی حالات کی طرح ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رہی ہے اور بڑی بڑی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔

میری دکان، کوپن ہیگن کے ایک پورش ایریا میں تھی جہاں بڑے بڑے مہذب اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ گاہک ہوتے جن میں اس وقت کی ڈنمارک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی سوشل ڈیموکریٹک اور اپوزیشن لیڈر Poul Nyrup Rasmussen بھی تھا جو بعد میں آٹھ سال تک ڈنمارک کا وزیرِاعظم رہا۔ وہ میری دکان کے قریب چوتھی منزل پر اپنی ایک سیاستدان بیوی کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہتا تھا۔ ہر ہفتے کی شام نو بجے کے قریب لمبی لائن میں کھڑا ہو کر اتوار کے اخبارات خریدتا اور اس ناچیز سے گپ شپ بھی لگاتا تھا۔

1990 کی دھائی میں کمیونسٹ بلاک کی ناکامی اور سرمایہ دارانہ نظام کی فیصلہ کن فتح نے دنیا بھر میں "گلوبائزیشن" کو فروغ دیا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے دنیا فتح کرنا شروع کی۔ چھوٹے موٹے سبھی کاروبار تباہ ہوئے۔ میرے منافع کا مارجن بین الاقوامی اخبارات و جرائد میں اچھا خاصا ہوتا تھا لیکن 1996ء کے بعد جب انٹرنیٹ عام ہوا تو پرنٹ میڈیا کا زوال شروع ہوگیا جس کو میں نے بھی بڑی شدت سے محسوس کیا اور نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ 1998ء میں ماہانہ اخراجات پورے کرنا بھی بڑا مشکل ہوگیا تھا۔

1999

جب ویب سائٹ بنانا سیکھی

ان نازک حالات میں ایک بار پھر انگڑائی لی اور وقت کے ساتھ چلنے کا عزم کیا۔ ان دنوں "ڈاٹ کم ریوولوشن" کی اصطلاح عام تھی۔ میں نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا اور 1999ء میں مائیکروسوفٹ کا ایک چھ ماہ کا کورس کرلیا جس نے اتفاق سے ایک بار پھر سابقہ کمپنی ہی میں جاب دلوا دی جہاں مارکیٹنگ کے علاوہ ویب سائٹ اور گرافک کا کام بھی ہوتا تھا۔

مائیکروسوفٹ کے اس کورس میں ایک دن کا تعارف HTML سے تھا جو ویب سائٹ بنانے کی بنیادی تیکنیک ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر اپنی ذاتی ویب سائٹ بنائی جو اب 25ویں سلورجوبلی سالگرہ منا رہی ہے۔ یہ کام کمپنی کی عنایات کے بغیر ممکن نہیں تھا کہ جس نے گھرسے کام کرنے کے لیے جو لیپ ٹاپ کمپیوٹر دیا، اس میں "فوٹوشاپ اور ڈریم ویور" جیسے پروفیشنل ویب پروگرام انسٹال تھے جن کے بھرپوراستعمال سے ایک منفرد اور دیدہ زیب ویب سائٹ بنانے میں کامیابی ہوئی تھی۔

2000 کی دھائی

انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی پاکستانی فلمی ویب سائٹ، "پاکستان فلم میگزین" کا باقاعدہ آغاز ہوا جس کو "پاکستانی فلموں کا انسائیکلوپیڈیا" اور "پاکستانی فلموں کی بائبل" کے خطابات بھی ملے۔ پاکستان میں اس دھائی میں 50 کی اوسط سے پانچ سو کے قریب فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔

2000

جب پاکستان فلم میگزین کا آغاز ہوا

3 مئی 2000ء کو اپنی ویب سائٹ کے ایک حصہ کو "پاکستان فلم میگزین" کا نام دیا جس کا بنیادی مقصد پاکستانی فلموں، فنکاروں اور گیتوں پر معلومات کو آن لائن محفوظ کرنا تھا۔

انٹرنیٹ کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد کاوش تھی۔ اس وقت تک وکی پیڈیا، فیس بک، یوٹیوب، گوگل، چیٹ جی پی ٹی یا دیگر سوشل میڈیا کا وجود نہیں تھا۔

پاکستان فلم میگزین کا آغاز فلم ہیررانجھا (1970) کی معلومات سے کیا۔ وجہ یہ تھی کہ اس وقت کے سرچ انجن پر جب یہ فلم سرچ کرتا تو ہر بار بھارتی فلموں کا ذکر ہوتا جو میری برداشت سے باہر تھا۔ یہ سلسلہ مزید فلموں تک پھیلا جو بے حد پسند کیا گیا تھا۔

اس وقت تک، ہر فلم کا الگ الگ صفحہ بنانا ممکن نہیں تھا، اس لیے سالانہ صفحات بنائے گئے جن میں ہر سال کی خاص خاص فلموں پر اہم معلومات محفوظ کی گئیں۔ یہ سلسلہ طویل ہوا تو ہر سال ریلیز ہونے والی ایک ایک فلم کا حوالہ دیا گیا۔ اس کے لیے محترم یاسین گوریجہ مرحوم کی 2003ء کی فلم ڈائریکٹری سے ایک ایک پاکستانی اور تقسیم سے قبل کی فلموں کے ریکارڈز کو Excel فائل پر منتقل کیا جس سے فلموں اور فنکاروں کے ریکارڈز مرتب کرنا اور انھیں ویب پیج کی شکل دینا آسان ہوگیا تھا۔ بعد میں یہی فائل، ڈیٹابیس کی شکل میں سامنے آئی۔

2002

پاکستان کا آخری سفر

2002ء میں پاکستان کا "آخری سفر" کرنے کا موقع ملا جس کے دوران تقریباً آدھا پاکستان دیکھا۔ ایک طرف کراچی سے لاہور اور مری اور دوسری طرف سیالکوٹ سے ملتان اور سرگودھا تک کے علاقے دیکھے۔

اس دوران لاہور کے گلستان سینما پر جاوید شیخ کی فلم یہ دل آپ کا ہوا (2002) دیکھی اور پہلی بار ایبٹ روڈ کے قطار در قطار سینما گھر دیکھے۔ مزید چھان بین کا وقت نہیں تھا اور بڑا افسوس ہوا کہ زندگی بھر کبھی کوئی فلم سٹوڈیو دیکھا نہ کبھی کسی فلمی شخصیت سے کوئی رابطہ رہا، اور چلا تھا پاکستانی فلموں کی سب سے بڑی ویب سائٹ بنانے، واہ۔۔!

2004

حجِ بیت اللہ کی سعادت

فروری 2004ء میں حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس دوران جہاں، مقدس مقامات، مکہ مکرمہ میں حرم شریف اور مدینہ منورہ میں مسجدِ نبوی ﷺ میں عبادت کرنے کا شرف حاصل ہوا، وہاں، واپسی پر اہرامِ مصر دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ اس موضوع پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی معلوماتی اردو ویب سائٹ بنائی تھی۔

بھٹو کی 25ویں برسی پر ویب سائٹ

اپریل 2004ء میں پاکستان کے عظیم محسن جناب ذوالفقار علی بھٹو شہیدؒ کی 25ویں برسی پر اپنی سیاسی ڈائریوں میں درج بھٹو کے آخری ایام کے واقعات کو آن لائن کیا اور بعد میں اس موضوع پر سیرحاصل مضامین لکھے۔

2005

ایک یادگار ٹرین سفر

2002ء میں پاکستان کے سفر کے دوران کراچی سے لاہور تک کا ایک بدترین ٹرین سفر میرے لیے میری فیملی کا طعنہ بنا ہوا تھا جس کو اگست 2005ء میں دھونے کا موقع ملا جب ڈنمارک سے اٹلی تک کا ایک یادگار سفر کیا۔ اس دوران جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کی سیر بھی کی۔ اس یادگار سفر پر اردو میں ایک باتصویر ویب سائٹ بنائی جو اس دور میں شاید ایک منفرد آن لائن سفرنامہ تھا۔۔؟

2006

سوشل میڈیا کا دور

2006ء میں پہلی بار سوشل میڈیا کا استعمال کیا اور "یوٹیوب" پر بڑی تعداد میں ویڈیوز اپ لوڈ کیے۔ میرے پاس، پرانی پاکستانی فلموں اور گیتوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے اور خیال تھا کہ یہ سارا ریکارڈ یوٹیوب پر اپ لوڈ کرکے اپنی ویب سائٹ پر فلمی معلومات کے ساتھ محفوظ کروں گا لیکن چند برسوں میں نام نہاد کاپی رائٹ نے سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیا تھا۔

اس دوران پاکستان فلم میگزین پر سینکڑوں صفحات بن گئے جنھیں ایک ایک کرکے اپ ڈیٹ کیا کرتا جو بڑا ہی مشکل کام تھا۔ میری کمپنی کی ویب سائٹ، ڈیٹابیس ٹیکنالوجی استعمال کرنے لگی تھی جس کی افادیت سے آگاہ تھا لیکن یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ فن خود کب اور کیسے سیکھ پاؤں گا۔۔؟

2008

پاکستانی فلموں کے 60 سال

2008ء میں پاکستان فلم میگزین پر "پاکستانی فلموں کے 60 سال" کے سلسلے میں گرافک ورژن میں معلوماتی فلمی مضامین لکھنا شروع کیے۔ دیگر بے شمار ویڈیوز کے علاوہ 15 مارچ 2008ء کو یوٹیوب پر پہلی پاکستانی فلم ارمان (1966) بھی اپ لوڈ کی تھی۔

عالمی مالی بحران

اسی سال، ایک شدید قسم کا عالمی مالی بحران آیا جس نے بڑی بڑی کمپنیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ ان میں میری کمپنی بھی شامل تھی جہاں ہر دو سال بعد ملازمین کی چھانٹی ہوتی تھی۔ اب کی بار یقین تھا کہ میری بھی باری آئے گی۔ خود بھی چھوڑ سکتا تھا لیکن اس سے نقصان ہوتا، اس لیے بڑے صبروتحمل سے آنے والے وقت کا انتظار کرنے لگا۔

2010 کی دھائی

2010 کی دھائی میں پاکستان فلم میگزین کو ڈیٹابیس پر منتقل کیا گیا۔ اس دھائی میں صرف ساڑھے تین سو فلمیں ہی ریلیز ہوئیں اور بچے کھچے سینماؤں کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی تھی۔

2011

جب ڈیٹابیس ٹیکنالوجی سیکھی

31 دسمبر 2010ء کا دن، دو نشستوں میں مجموعی طور پر 19 برسوں کی طویل رفاقت کے بعد میرا اپنی کمپنی کے ساتھ آخری دن تھا۔۔!

ایک سال کی پوری تنخواہ، نئی جاب کی تلاش اور حسبِ خواہش کورس کے جملہ اخراجات ملنے کے بعد کوئی بہانہ نہیں رہ گیا تھا کہ اپنی ویب سائٹ کی سب سے بڑی ضرورت یعنی ڈیٹا بیس ٹیکنالوجی کو نہ سیکھوں۔ قدرت نے میرے لیے راہیں ہموار کردی تھیں، الحمد للہ۔۔!

2011ء میں کوپن ہیگن یونیورسٹی سے ویب ڈیویلپمنٹ کے سلسلے میں ڈیٹابیس، پروگرامنگ اور ڈیزائننگ کے کورس کیے جنھوں نے ویب سازی کا کام بہت آسان کردیا تھا۔

اپنے اس نئے علم کا پہلا کامیاب تجربہ، 2011ء کے نماز اور رمضان کیلنڈروں سے کیا جس سے روزانہ کے اوقات خودبخود اپ ڈیٹ ہوجاتے تھے۔

2012

پاکستان فلم میگزین کا ڈیٹابیس ورژن

2012ء کا پورا سال پاکستان فلم میگزین کو ڈیٹابیس ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے پر صرف کیا۔ اس کے لیے ایک ایک صفحہ کی پروگرامنگ کرنا تھی۔ علاوہ ازیں، ایک ایک فلم، فنکار، گیت اور سینما کے ریکارڈ کو ڈیٹابیس پر منتقل کرنا بہت بڑا اور محنت طلب کام تھا۔

12 دسمبر 2012ء کو پاکستان فلم میگزین کے ڈیٹابیس ورژن کا افتتاح کیا جس نے میرا کام بہت آسان کر دیا تھا۔۔!

سابقہ ویب سائٹ

پاکستان فلم میگزین کی نئی ڈیٹابیس ویب سائٹ کے افتتاح کے بعد سابقہ ویب سائٹ کو آف لائن کردیا تھا۔ اس میں بےشمار ٹیکنیکی خامیاں تھیں لیکن جب یہ علم ہوا کہ اس پرانے ورژن کی کاپی آن لائن دستیاب ہے تو اس شرط پر بحال کیا کہ گوگل سرچ انجن میں نظر نہ آئے کیونکہ ان کی ڈیویلپمنٹ ٹیم کی طرف سے ای میلز کی بمباری شروع ہوجاتی ہے کہ فلاں فلاں غلطیاں درست کرو، اب بھلا، اتنا وقت کس کے پاس ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو درست کرتا پھرے۔۔؟

ڈیٹابیس ٹیکنالوجی کیا ہے؟

تادمِ تحریر، پاکستان فلم میگزین پر 4.579 پاکستانی فلموں، 13.262 پاکستانی فلمی گیتوں، 3.026 تقسیم سے پہلے کی فلموں، 1.287 گیتوں، 4.633 فنکاروں اور 995 سینماؤں کے مجموعی طور پر 27.782 الگ الگ "صفحات" بنتے ہیں۔

یہ تمام صفحات اگر پرانی ویب سائٹ پر بنانا پڑتے تو عمرِخضر درکار تھی لیکن ڈیٹابیس ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ یہ سب کچھ ممکن ہوا۔

حقیقت میں مندرجہ بالا سبھی Virtual pages یعنی "فرضی صفحات" ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعداد میں ہر موضوع پر صرف ایک ایک صفحہ ہے جس کو اپ ڈیٹ کرتا ہوں، باقی سارے صفحات، ڈیٹا بیس ٹیکنالوجی خود بنا دیتی ہے۔ کمال یہ ہے کہ ان صفحات کو الگ الگ بک مارک بھی کیا جا سکتا ہے۔

ڈیٹابیس میں تمام تر مواد ایک ہی جگہ پر موجود ہوتا ہے جس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ فیڈ کیا جاتا ہے اور مختلف صفحات پر مطلوبہ پروگرامنگ اور ڈیزائننگ کے مطابق پیش کیا جاتا ہے۔

2013

فلمسازی کے 100 سال

3 مئی 1913ء کو برصغیر پاک و ہند کی پہلی فلم "راجہ ہریش چند" ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کی یاد میں "برصغیر کی سو سالہ فلمی تاریخ" پر ایک تفصیلی اردو مضمون کے علاوہ 1913ء سے لے کر 1947ء تک ریلیز ہونے والی تین ہزار سے زائد فلموں کا ڈیٹابیس آن لائن کیا جو اپنی نوعیت کی پہلی کاوش تھی۔

یہ محض ایک اتفاق ہے کہ جس دن برصغیر کی پہلی فلم ریلیز ہوئی، اسی دن، 87 سال بعد پاکستان فلم میگزین کا آغاز بھی ہوا تھا۔۔!

2017

پاک میگزین کا آغاز

23 مارچ 2017ء کو پرانے ڈومین mazhar.dk کو ختم کرکے نیا ڈومین pakmag.net شروع کیا جس پر دیگر ویب سائٹس کے علاوہ پاکستان فلم میگزین کو بھی منتقل کیا۔

2020 کی دھائی

2020 کی دھائی میں پاکستان فلم میگزین پر اردو مضامین کی اجارہ داری رہی جبکہ اس دور میں پاکستان میں فلمیں ماضی کا قصہ بن کر رہ گئی ہیں۔

2020

مسعودرانا کو خراجِ تحسین

2020ء میں، اپنے آئیڈیل گلوکار جناب مسعودرانا صاحب کی 25ویں برسی پر ایک نایاب خراجِ تحسین پیش کیا جب ان کے ایک ہزار کے قریب فلمی گیتوں کا اردو/پنجابی ڈیٹابیس بنایا۔ اس کے علاوہ دو سو سے زائد معلوماتی مضامین بھی لکھے جن میں دیگر فنکاروں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا۔

بھلا ہو کرونا کی وباء کا کہ جس کی وجہ سے ایک بار پھر گھر بیٹھے ایک سال تک تنخواہ ملتی رہی اور اس قابل ہوا کہ اتنی بڑی تعداد میں تحقیقی مضامین لکھ پایا۔ یہ سلسلہ ابھی نامکمل ہے۔

2023

پاکستانی فلموں کے 75 سال

2023ء میں پاکستانی فلموں کے 75 سال کے سلسلہ میں برصغیر پاک و ہند کی پوری فلمی تاریخ کو مختلف تحقیقی مضامین کی صورت میں پیش کیا۔ یہ عظیم اور نایاب فلمی مواد، زندگی بھر کے اخبارات و جرائد اور کتابوں کے مطالعہ کا نچوڑ ہے۔

2025

پاکستان فلم میگزین کی 25ویں سالگرہ

2025ء میں پاکستان فلم میگزین، 25ویں سالگرہ منا رہا ہے جس میں کوشش کر رہا ہوں کہ اس ویب سائٹ کا مکمل پس منظر، تاریخ اور اغراض و مقاصد بیان کروں جو اصل میں ذاتی بائیو گرافی بھی ہے۔

یہ کام یکم جنوری 2025ء سے شروع کرنا چاہتا تھا لیکن اس سال "پاکستانی زبانوں کا ڈیٹابیس" اور "حروفِ تہجی کی تاریخ" کی ویب سائٹس کی تکمیل میں دیر ہوئی، جس کی وجہ سے انتظار کرنا پڑا۔

میری کوشش ہوگی کہ ذہن میں فلموں کے بارے میں جتنا مواد بھرا ہوا ہے، وہ اس سال خالی کرنے کی کوشش کروں تاکہ کوئی اور کام بھی کرسکوں۔



Gulbadan
Gulbadan
(1937)
Pagli
Pagli
(1943)
Farz
Farz
(1947)
Jugnu
Jugnu
(1947)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.