پاکستانی زبانیں
164 زبانوں/بولیوں اور لہجوں پر دلچسپ اور نایاب معلومات
اردو
اردو (Urdu)، مذہب کے نام پر وجود میں آنے والی دنیا کی شاید واحد زبان ہے جو مذہب ہی کے نام پر قائم ہونے والی ریاست، پاکستان کی قومی زبان بھی ہے لیکن اپنی جنم بومی، ہندوستان میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔۔!
"ہندیورپین" (Indo-European) زبانوں کے خاندان میں "ہندآریائی" (Indo-Aryan) گروپ سے تعلق رکھنے والی "اردو زبان، کبھی وجود میں نہ آتی اگر ہندوستان پر مسلمان، حکمران نہ ہوتے۔۔!
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد
اردو زبان کی تاریخ جاننے کے لیے ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔
عام طور پر ہمارے تاریخ دان، ہمیں یہی بتاتے چلے آئے ہیں کہ صرف 17 سالہ مسلمان نوجوان عرب کمانڈر، محمدبن قاسم نے ایک مظلوم عورت کی پکار پر سندھ پر حملہ کیا اور ظالم راجہ داہر کو شکست دے کر ملتان تک کا علاقہ فتح کرکے "پاکستان کی بنیاد" رکھ دی تھی۔
اکثر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ محمدبن قاسم، برصغیر کا پہلا مسلمان تھا اور وہی یہاں دینِ اسلام لے کر آیا تھا، یہ بات درست نہیں ہے۔۔!
تاریخی حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک عرب تاجر اور مبلغ، مالک بن دینار نے حضرت محمدﷺ (632-570ء) کی حیاتِ مبارکہ ہی میں یعنی 629ء میں بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ کے ضلع تھریسور میں ہندوستان کی پہلی جامع مسجد تعمیر کی تھی جو اب بھی موجود ہے۔
اسی ریاست کا ہندو راجہ "چیرامن پیرومل"، اسلام قبول کرنے والا پہلا مقامی شخص تھا۔ روایات کے مطابق چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا معجزہ دیکھنے کے بعد وہ، مدینہ شریف جا کر حضورﷺ کے دستِ مبارک پر مسلمان ہو گیا تھا۔
اگر مسلمان فاتحین اور حکمران نہ ہوتے؟
آج بھی بھارت کی اس دراوڑی ریاست کیرالا کا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے جبکہ مالابار ساحل سے دو سو کلومیٹر دور "لکش و دیپ" کے جزائر میں 96فیصد مسلمان آباد ہیں جو بھارت کی کسی بھی ریاست یا وفاقی علاقے میں مسلم آبادی کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ یہاں کبھی کوئی مسلمان فاتح نہیں پہنچا تھا۔
تاریخ کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر مسلمان فاتحین اور حکمران نہ ہوتے تو انڈونیشیا کی طرح پورا انڈیا بھی مسلمان ہو گیا ہوتا۔۔!
بہرحال، اگر ہم اپنے تاریخ دانوں کے پسندیدہ اور فخریہ موضوع یعنی "مسلمان فاتحین" پر بات کریں تو تاریخی حقائق کچھ یوں ہیں:
- ہندوستان پر مسلمانوں کی پہلی یلغار، محمد بن قاسم (715-695ء) کی قیادت میں 711ء میں ہوئی جس کے نتیجے میں موجودہ صوبہ سندھ سمیت ملتان تک کا علاقہ فتح کر لیا گیا تھا۔ یہ عربوں کا ہندوستان پر اکلوتا حملہ (یا شاید واحد کامیاب حملہ) تھا۔۔!
-
سندھ کی فتح کے تین سو سال بعد غزنی کے افغان حکمران سلطان محمود غزنوی (1030-871ء) نے ہندوستان پر اپنے مشہورِ زمانہ 17 حملوں کے دوران 1021ء میں لاہور پر قبضہ کیا تھا۔ گویا آج سے ایک ہزار سال پہلے موجودہ پاکستان، پہلی بار "مشرف بہ اسلام" ہوا تھا۔
یاد رہے کہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع صوبہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان، اس وقت ایرانی سلطنت کا حصہ ہوتے تھے جو خلافتِ راشدہ (661-632ء) کے ادوار میں فتح ہو چکے تھے۔ - برصغیر پاک و ہند میں پہلے مسلم فاتح کی آمد کے پانچ صدیوں بعد یعنی 1206ء میں قطب الدین ایبک (1210-1150ء) نے دہلی فتح کیا جس پر بظاہر ساڑھے چھ سو سال تک یعنی 1857ء تک مسلمانوں کی حکومت رہی اور اسی دور میں اردو زبان وجود میں آئی تھی۔
اردو زبان کا ارتقاء
کوئی بھی زبان یا بولی، راتوں رات نہیں بنتی بلکہ اس کے بننے، سنورنے اور بگڑنے میں صدیوں کا عمل درکار ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ باقی دنیا کی طرح برصغیر پاک و ہند کی کسی بھی زبان کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کتنی پرانی ہے۔ البتہ کس زبان کا کس زبان سے کیا رشتہ ہے یا اس کا ماخذ اور تاریخ کیا ہے، اس کو ماہرینِ لسانیات نے بیشتر زبانوں کے تقابلی جائزے اور آثارقدیمہ کی مدد سے کافی حد تک معلوم کر لیا ہے۔
اردو زبان کے بارے میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ کب، کہاں، کیوں اور کیسے وجود میں آئی تھی۔۔؟
13ویں صدی میں جب مسلمانوں نے ہندوستان فتح کیا تو دہلی میں صدیوں سے بولی جانے والی سنسکرت زدہ "پراکرت" زبان کی معیاری "کھڑی بولی" اور نئے حکمرانوں کی فارسی زبان کی آمیزش سے ایک نئی زبان وجود میں آنا شروع ہوئی جس کو "ہندوستانی" کا فارسی نام دیا گیا تھا۔
یہی مخلوط "ہندوستانی زبان"، صدیوں کے ارتقائی عمل کے بعد 19ویں صدی میں دو الگ الگ زبانوں یعنی "اردو" اور "ہندی" میں تقسیم ہوئی تھی۔
اردو زبان کی تعریف
لفظ "اُردُو" (Urdu) کا لفظ "ترکی زبان" سے ماخوذ ہے جس کے معانی "لشکر" کے ہیں۔
روایت ہے کہ 5ویں مغل بادشاہ شاہ جہاں (1666-1592) ء کے دورِحکومت میں دہلی کی جامع مسجد کے ساتھ ایک فوجی چھاؤنی "اردو بازار" کے نام سے آباد تھی۔ فوجیوں یا لشکر کی زبان فارسی اور مقامی لوگوں کی ہندی (یا پراکرت) بولی کے ملاپ سے جو نئی زبان وجود میں آئی، وہ اسی بستی کے نام کی مناسبت سے "اردو" کہلائی۔
گو سنسکرت کی بجائے اب فارسی زدہ "پراکرت" نامی اس نئی زبان کے لیے 18ویں صدی تک "اردو" نام سننے میں نہیں آتا لیکن اس کے مختلف فارسی ناموں میں "ہندی"، "ہندوی"، "دہلوی" اور "ہندوستانی" کے علاوہ "ریختہ" اور "اردوئے معلیٰ" کے نام بھی استعمال ہوئے جو اصل میں شاہی محلات اور درباروں میں استعمال ہونے والی شعروسخن کی زبان تھی اور عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر تھی کیونکہ اس میں ثقیل فارسی الفاظ کا کثرت سے استعمال ہوتا تھا۔
1888ء میں اردو زبان کی شائع ہونے والی پہلی باقاعدہ لغت "فرہنگِ آصفیہ" کے مولف سید احمد دہلوی (1918-1846ء) کے مطابق اردو زبان کے 55ہزار الفاظ میں سے 75 فیصد الفاظ اور 99 فیصد گرامر برصغیر کی قدیم زبانوں "سنسکرت" اور" پراکرت" (یعنی ہندی) سے ملتی ہے جبکہ باقی 25 فیصد الفاظ فارسی اور عربی وغیرہ کے ہیں۔
گویا اردو کا سراپا، ہندی کا، پیرہن، فارسی کا اور روح، عربی کی ہے جس کو خصوصاً پاکستان میں، انگریزی کی عینک چڑھا کر پنجابی تانگے پر بٹھا دیا گیا ہے۔۔!
اردو، ہندی اور ہندوستانی؟
ایک عام شخص یقیناً سوچتا ہوگا کہ یہ "اردو"، "ہندی" اور "ہندوستانی" میں کیا فرق ہے۔۔؟
اس کا جواب بڑا سادہ اور آسان ہے۔ صدیوں سے رائج فارسی زدہ "ہندوستانی زبان"، آج بھی ایک عام فہم اور روزمرہ بول چال کی روایتی زبان ہے جو مادری زبان کے طور پر پاکستان میں ہندوستانی مہاجرین اور دہلی سمیت شمال وسطی بھارت کے وسیع و عریض علاقوں کی اکثریتی زبان ہے۔ بالی وڈ کی بھی یہی زبان ہے جس کی وجہ سے "ہندوستانی" زبان ابھی تک زندہ ہے۔
"ہندوستانی زبان" بولنے والے جب میڈیا یا پبلک میں آتے ہیں تو مسلم پاکستان میں یہ زبان "اردو" بن جاتی ہے جس پر فارسی/عربی اور انگریزی کا گہرا اثر ہوتا ہے جبکہ ہندو بھارت میں "ہندی" بن جاتی ہے جس میں سنسکرت کے مشکل الفاظ کو گھسیٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بھارت میں انتہا پسند ہندو قوم پرست، ابھی تک اپنی زبان سے فارسی کا مکمل صفایا نہیں کر سکے البتہ ایک صدی قبل، وہ اپنا رسم الخظ، عربی/فارسی سے دیوناگری میں تبدیل کروانے میں کامیاب رہے تھے اور خاص طور پر یہ رسم الخط ہی ہے جو "ہندوستانی زبان" کو "اردو" اور "ہندی" میں تقسیم کرتا ہے۔
"اردو" اور "ہندی" بولنے والوں کو آج بھی "ہندوستانی" کہا جاتا ہے۔ باقی دنیا کے لوگ بھی اپنی اپنی زبانوں اور خطوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ برصغیر کے سبھی صوبوں کو بھی لسانی بنیادوں پر ہی تقسیم کیا گیا ہے اور ان کی پہچان بھی ان کی زبانیں ہی رہی ہیں۔
اردو کے لیے انگریزوں کی گراں قدر خدمات
انگریزوں نے 1612ء میں ہندوستان آمد کے بعد 1765ء میں بنگال میں اپنی پہلی حکومت قائم کی اور 1803ء میں دہلی پر بھی قبضہ کر لیا جو 1771ء سے مرہٹوں کے قبضے میں تھا لیکن انگریزوں نے بھی کٹھ پتلی مغل بادشاہوں کو 1857ء کی نام نہاد جنگِ آزادی تک برقرار رکھا تھا۔
1800ء میں فورٹ ویلیم کالج کلکتہ کے قیام کے بعد اس کے بانی ڈاکٹر گلکرسٹ (1841-1759ء) نے اردو زبان کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اردو حروفِ تہجی کی تشکیل کے علاوہ نثری کتابوں اور شعروشاعری پر بے شمار کتب شائع کی گئیں۔ انھوں نے ہی 1787ء میں ہندی/اردو کی مخلوط زبان کو "ہندوستانی زبان" کا نام دیا جو گزشتہ چھ صدیوں سے استعمال ہونے والے فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ 1843ء میں ہندوستانی زبان کی پہلی لغت بھی شائع کی گئی تھی جس میں زیادہ تر فارسی رسم الخط تھا لیکن دیوناگری کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1826ء میں قرآن مجید کا جو پہلا "اردو ترجمہ" منظرعام پر آیا، اس میں کہیں بھی اردو کا ذکر نہیں تھا بلکہ اس ترجمہ کو "ہندی اور ہندوستانی" لکھا ہوا تھا لیکن رسم الخط فارسی تھا۔
انگریزوں نے اردو کو سرکاری زبان بنا دیا
1837ء میں انگریزوں نے شمالی ہندوستان (اور موجودہ پاکستان) میں انگریزی کے علاوہ فارسی رسم الخط میں لکھی جانے والی اردو یا "ہندوستانی" کو سرکاری زبان قرار دیا تھا۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر انگریز حکمران بھی اپنے پیش رو حکمرانوں کی طرح من مانی کرتے اور آریاؤں کی سنسکرت اور مسلم فاتحین کی فارسی کی طرح اپنے رومن طرزِ تحریر کو سرکاری رسم الخط بنا دیتے تو آگے چل کر اردو/ہندی جھگڑا پیدا ہی نہ ہوتا۔۔!
اس وقت تک تو کسی کے وہم و گمان میں یہ بات نہ تھی کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ جب ان دونوں زبانوں کے لوگ اپنی اپنی زبانوں کی بجائے انٹرنیٹ پر خود ہی رومن رسم الخط میں اظہارِ خیال کیا کریں گے۔۔!
اردو، فارسی کی جانشین تھی جو چھ سو سال تک ہندوستان کی سرکاری زبان رہی لیکن عوامی زبان کبھی نہ بن سکی تھی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ فارسی بھی سنسکرت کی طرح اس زمین یا زمین کے لوگوں میں سے نہیں تھی، اس لیے حکمرانوں کے بدلتے ہی گمنام اور غیراہم ہوگئی تھی۔ صدیوں سے ہندوستان پر اجارہ داری کے باوجود فارسی زبان کی حقیقت اس مشہور محاورے کی طرح تھی: "آب آب کرتے مر گئے، سرہانے دھرا رہا پانی۔۔"
اردو ہندی تنازعہ
1837ء میں انگریز حکومت نے انگریزی کے علاوہ فارسی زبان کی جانشین، اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیا تو اکثریتی آبادی ہندوؤں کی قوم پرستی جاگ اٹھی اور انھیں احساس ہوا کہ اب مسلم راج ختم ہوچکا ہے۔ انھوں نے دورِ غلامی کی یاد کے طور پر فارسی رسم الخط کی بجائے اپنی مادری زبان ہندی کو دوبارہ اپنی مذہبی زبان "دیوناگری" میں لکھنے کا مطالبہ کیا اور اس مقصد کے لیے باقاعدہ ملک گیر تحریکیں چلائیں۔ اس طویل مہم جوئی نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں شدید کشیدگی پیدا کر دی تھی۔
مسلمانوں کا موقف تھا کہ رائج الوقت فارسی زدہ "ہندوستانی یا اردو زبان" کے لیے دیوناگری رسم الخط موضوع نہیں جبکہ ہندوؤں کا موقف تھا کہ مسلمانوں کی ہندوستان آمد سے قبل وہ یہی رسم الخط استعمال کیا کرتے تھے اور ان کی مذہبی زبان سنسکرت ہے، عربی یا فارسی نہیں۔ یہ بحث و مباحثہ اس وقت کا سب سے بڑا سیاسی موضوع بن چکا تھا جس نے فریقین کو ایک دوسرے سے بہت دور کردیا تھا۔
مذہبی یا لسانی تنازعہ؟
حقیقت یہ تھی کہ مسئلہ اردو ہندی کا نہیں، بلکہ مسلمانوں اورہندوؤں کا بن گیا تھا۔ گویا ایک لسانی تنازعہ، مذہبی شکل اختیار کر گیا تھا۔ ہندوستان کی اکثریتی ہندو آبادی کے لیے مسلم دور میں بھی مذہبی زبان سنسکرت ہی تھی جس کا اس دور میں صرف سیاسی اثرورسوخ کم ہوا تھا۔ جنوبی دراوڑی ہندو ریاستوں کے علاوہ گجرات، مہاراشٹرا، بنگال، اوڑیسہ اور آسام وغیرہ بھی اردو، ہندی، فارسی یا عربی سے کبھی متاثر نہیں ہوئے تھے اور ہمیشہ سے اپنی مقامی زبانیں ہی بولتے تھے جبکہ سنسکرت ان سب کی مشترکہ مذہبی زبان تھی۔
موجودہ پاکستان کے سبھی علاقے چونکہ زیادہ عرصہ تک مسلم راج کے تلے رہے اور بیشتر مسلمان ہوچکے تھے، اس لیے یہاں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس دوران نظام حیدرآباد دکن کی ہندو آبادی کی اکثریتی ریاست میں خاصی تعداد میں مسلمانوں کی ہجرت کی وجہ سے وہاں کے شہری علاقوں میں بھی اردو بولی جانے لگی تھی جس کو "دکنی اردو" کہا جاتا ہے۔
جب ایک لسانی مسئلہ، دو قومی نظریہ بنا!
"اردو ہندی تنازعہ" کا انجام یہ ہوا کہ 1900ء میں انگریز حکومت نے ہندوستان کی اکثریتی آبادی ہندوؤں کا دیرینہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور دیونا گری رسم الخط کو بھی سرکاری درجہ دے دیا۔ اس طرح سے قدیم ہندی زبان کی حیاتِ نو تو ہوئی لیکن ایک مشترکہ "ہندوستانی زبان"، دو الگ الگ زبانوں، "اردو" اور "ہندی" میں تقسیم ہوگئی۔ فارسی زدہ اردو، مسلمانوں کی اور سنسکرت زدہ ہندی، ہندوؤں کی زبان بن گئی جو "دو قومی نظریہ" اور "ہندی، ہندو اور ہندوستان" کے نعروں کے بعد انجام کار ملک کے بٹوارے کا باعث بنی۔
علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی سرسیداحمدخان (1898-1817ء)، پہلے شخص تھے جنھوں ان حالات میں پہلی بار "دو قومی نظریہ" کی بات کی تھی جبکہ ان کے ایک شاگرد نواب محسن الملک (1907-1837ء) (جو 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے صدر بنے) نے"اردو ہندی تنازعہ" پر یہ شعر کہا تھا:
- چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔۔
ہندی، بھارت کی قومی زبان کیوں نہ بن سکی؟
1947ء میں آزادی کے بعد بھارت میں 1950ء کے آئین میں انگریزی کے ساتھ ہندی کو بھی سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا۔ بھارتی وزیرِاعظم جواہر لال نہرو کی کوشش تھی کہ ہندی، پورے بھارت کی قومی زبان بن جائے لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی کیونکہ بھارتی ریاستوں میں لسانی تعصب بڑا شدید رہا ہے۔ نفرت کا یہ عالم ہے کہ تامل علاقوں میں "ہندی اور برہمن" ایک گالی ہے جو ماضی کی تاریخ بیان کرتا ہے جب آریاؤں نے گنگا جمنا کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں کے اصل باسیوں کو جنوب کی طرف ماربھگایا اور دیگر کو شودر، ملیچھ وغیرہ بنا دیا تھا۔
وقت کے ساتھ، بھارتی آئین میں بے شمار ترامیم کی گئیں جن کے مطابق اب تک کل 22 زبانوں کو سرکاری زبانوں کا درجہ دیا جا چکا ہے جن میں پنجابی، سندھی، ڈوگری اور کشمیری کے علاوہ "اردو" بھی بھارت کی ایک سرکاری زبان ہے جو مجموعی طور پر 7ویں سب سے زیادہ بولی جانے زبان ہے لیکن صرف مسلمانوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ بھارت میں 14فیصد مسلم آبادی ہے اور ہر چوتھے مسلمان کی مادری زبان اردو ہے جو 2011ء کی مردم شماری کے مطابق پانچ کروڑ سے زائد ہے۔
بھارت میں اردو کی حالتِ زار
اردو زبان، اپنی جنم بومی ہندوستان میں شدید دباؤ کا شکار ہے اور اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اردو بولنے والے مجبور اور بے بس مسلمانوں کا رویہ انتہائی معذرت خواہانہ ہے جو یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں کہ اردو، ایک ہندوستانی زبان ہے اور صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ یقیناً، بھارت کے مسلمان، اپنے پرکھوں کو کوس رہے ہوں گے کہ جنھوں نے اردو کو ہندوستانی زبان نہیں بننے دیا اور اس پر ایک بدیسی زبان، فارسی کا مصنوعی غلاف چڑھائے رکھا۔ گویا "کوا چلا ہنس کی چال، اور اپنی بھی بھول گیا۔۔"
تقسیمِ ہند کے بعد اردو کا پاکستان کی اکلوتی "قومی زبان" بننا جہاں بنگالیوں کے لیے قابلِ اعتراض تھا وہاں بھارت کی انتہاپسند ہندو آبادی کے لیے بھی مخالفت کی بڑی وجہ بنا جنھوں نے اردو کو صرف پاکستان اور مسلمانوں کی زبان سمجھا۔ گزشتہ آٹھ دھائیوں کی پاک بھارت معاندانہ روش نے معاملات کو مزید خراب کیا ہے اور موجودہ سیاسی صورتحال میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
بدقسمتی سے مسلمان، نوشتہ دیوار نہیں پڑھ سکے اور حقائق سے مسلسل چشم پوشی کرتے رہے کہ ہندوستان سے مسلم راج ختم ہوچکا تھا اور مسلمان، ایک اقلیت بن چکے تھے، اسی لیے اکثریتی آبادی پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتے تھے کیونکہ جس طاقت کے بل بوتے پر وہ حاکم بنے تھے، اب وہ طاقت دوسری طرف منتقل ہوچکی تھی۔
نئے حکمران، انگریز تھے جو بڑے حقیقت پسند تھے۔ وہ دیگر غاصب حکمرانوں کی طرح صرف اپنی ہی زبان یعنی انگریزی زبان ہی کو اکلوتی سرکاری زبان قرار دے سکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا اور فارسی جیسی بدیسی زبان کی جگہ اردو (یا ہندوستانی) جیسی مقامی زبان کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا۔ ہندوستان کے دیگر سبھی صوبوں کی اپنی اپنی زبانیں تھیں۔
مسلمانوں نے انگریزوں کی اس حقیقت پسندی کو اپنی طاقت اور ان کی مجبوری سمجھا اور احساسِ برتری کے زعم میں اکثریتی ہندو آبادی کو اپنا دشمن بنا لیا جس کی قیمت آج بھارتی مسلمان ادا کر رہے ہیں اور اپنے ہی دیس میں اجنبی بن چکے ہیں۔
بھارت میں خود مسلمانوں کی اکثریت اب فارسی/عربی رسم الخط چھوڑ کر اردو لکھنے کے لیے دیوناگری رسم الخط استعمال کر رہی ہے۔ متعدد اردو اخبارات و رسائل اب دیوناگری میں شائع ہورہے ہیں جو بظاہر پڑھنے میں زیادہ آسان ہیں کیونکہ دیوناگری میں الفاظ کو مکمل تلفظ کے ساتھ لکھا جاتا ہے جو اردو میں ممکن نہیں۔ یہ Abugidas طرزِتحریر ہے جس میں اعراب لکھنا لازمی ہوتا ہے جبکہ اردو Abjads طرزِتحریر ہے، جس میں اعراب کے بغیر لکھا جاتا ہے جو صحیح تلفظ میں پڑھنا مشکل ہوتا ہے۔
پاکستان میں اردو
قیامِ پاکستان کے بعد برصغیر پاک و ہند کی مسلم زبان، اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان کا درجہ دیا گیا حالانکہ اسوقت تک اردو ، پاکستان کے کسی ایک بھی علاقے کی زبان نہیں تھی۔ مشرقی پاکستان میں اس کا انتہائی منفی ردِعمل ہوا جہاں ہمیشہ سے بنگالی زبان ہی بولی جاتی تھی۔ اس کا نتیجہ 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں سامنے آیا تھا۔
2023ء کی مردم شماری کے مطابق، اردو، پاکستان کی 5ویں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے جس کو 2 کروڑ 22 لاکھ افراد بولتے ہیں اور یہ کل آبادی کا قریباً 10 فیصد ہے۔ صوبہ سندھ کے ہر 5ویں شخص کی مادری زبان اردو ہے جبکہ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق، پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں صرف 5فیصد لوگ اپنی مادری زبان کے طور پراردو کا نام لیتے ہیں۔
کراچی کی آدھی آبادی اردو بولتی ہے جبکہ دوسری بڑی تعداد لاہور میں ہے جس کی 12فیصد آبادی اردو بولتی ہے۔ اردو بولنے والے دیگر شہروں میں حیدرآباد، ملتان اور راولپنڈی/اسلام آباد قابلِ ذکر ہیں۔ اردو بولنے والوں کی اکثریت 1947ء میں حکومتِ پاکستان کے سرکاری ملازمین کے کوٹے میں پاکستان آئی تھی اور اسی لیے زیادہ تر لوگ شہری علاقوں میں رہائش پذیر ہوئے تھے۔
اردو، عوامی زبان کیوں نہیں بن سکی؟
پاکستان میں اردو زبان زیادہ تر شہری علاقوں کے پڑھے لکھے "مہذب" لوگوں میں بولی جاتی ہے جو "مڈل کلاس" کی زبان بن گئی ہے جبکہ انگریزی "اپرکلاس" اور مقامی زبانیں "لوئرکلاس" یا عوام الناس کی زبانیں ہیں۔ یہ طبقاتی تقسیم، تاریخ کے ہر دور میں اور ہر جگہ پائی جاتی رہی ہے، اس لیے کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔
قومی زبان ہونے کے باوجود اردو زبان، پاکستان میں کبھی بھی عوامی زبان نہیں بن سکی کیونکہ مزاجاً وہ، پاکستان کی کسی بھی زبان، عوام اور علاقے سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ 90فیصد پاکستانیوں کی مادری زبان اردو نہیں ہے اور جو اردو بولتے ہیں، ان پر علاقائی لہجے غالب ہوتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اردو زبان، شعر و ادب کی زبان بن سکتی ہے۔ میڈیا یعنی اخبارات و جرائد، ریڈیو، ٹی وی، فلم اور ڈراموں کی زبان بھی بن سکتی ہے۔ یہاں تک کہ "قومی زبان" اور "رابطہ زبان" بھی بن سکتی ہے لیکن اگر نہیں بن سکتی تو "عوامی زبان" نہیں بن سکتی کیونکہ اس کا مزاج ہی عوامی نہیں ہے۔
شاہی ماحول، امراء اور رؤسا کے درباروں میں بڑے نازو نعم میں پلی ہوئی یہ نازک اندام، اردو زبان، مہذب اور تعلیم یافتہ ماحول ہی میں زندہ رہ سکتی ہے، اسی لیے اس کا دائرہ اثر بڑا محدود رہا ہے۔ گو عربی اور فارسی کے بعد سب سے زیادہ مذہبی کتابیں، اردو میں لکھی گئی ہیں لیکن جدید فنی علوم یا اعلیٰ تعلیمی قابلیت اور ملازمتوں کے لیے ایک انتہائی پسماندہ زبان ہے اور اس میدان میں کسی طور بھی انگریزی زبان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
دلچسپ اتفاق دیکھیے کہ 1837ء سے انگریزی کے سائے میں اردو کا "سرکاری زبانوں" کے طور پر "چولی دامن" کا ساتھ شروع ہوا جو قریباً دو سو سال بعد بھی ویسے ہی قائم ہے اور لگتا ہے کہ ابھی کافی عرصہ تک رہے گا۔
اردو زبان کا مختصر تعارف
- 13ویں صدی میں یعنی 1206ء میں دہلی فتح ہوا۔ مقامی "ہندی" (یا پراکرت) اور حکمرانوں کی فارسی زبان کے اختلاط سے ایک نئی زبان وجود میں آنے لگی جو آج "اردو" کہلاتی ہے۔
- اسی صدی کے ایک شاعر اور ماہر موسیقی ، امیر خسرو (1253–1325) کو اردو کا پہلا شاعر کہا جاتا ہے۔
- 16/17ویں صدی میں "کلیاتِ قلی قطب شاہی" کے نام سے اردو شاعری کا پہلا دیوان ملتا ہے جو پہلے "صاحبِ دیوان" شاعر اور حاکمِ گو لکنڈہ ،محمد قلی قطب شاہی (1612-1565ء) سے منسوب ہے۔ انھوں ہی نے بھارت کا شہر حیدرآباد دکن آباد کیا تھا۔
- 18ویں صدی یعنی 1780ء میں پہلی بار لفظ "اردو" ایک شاعر غلام علی ہمدانی مصحفی (1824-1748ء) نے استعمال کیا تھا۔
- 19ویں صدی ہی میں اردو کی حروفِ تہجی کا باقاعدہ آغاز 1800ء میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں وائسرائے ہند Lord Wellesley (1760-1842) کے دور میں ہوا جہاں پہلی بار بڑی تعداد میں اردو میں شعر و ادب کی کتابیں شائع کی گئیں۔
- 19ویں صدی میں قرآنِ مجید کا پہلا بامحاورہ اردو ترجمہ 1790ء میں شاہ عبدالقادر دہلوی (1814-1753ء) نے کیا جو 1826ء میں جا کر چھپا تھا۔ فارسی رسم الخط میں اس نسخے کو "ہندی" یا "ہندوستانی" بتایا گیا تھا۔
- 1837ء کو اردو یا فارسی زدہ ہندوستانی کو ہندوستان کی سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا جس پر اکثریتی آبادی ہندوؤں نے بھرپور احتجاج کیا تھا۔
- اسی دور میں یعنی 1843ء کو اردو کی پہلی لغت شائع ہوئی جو اردو اور دیوناگری رسم الخط میں تھی۔
- اردو کا پہلا سٹیج ڈرامہ "اندرسبھا" 1853ء میں آغا حسن امانت (59-1815ء) نے والی اودھ واجد علی شاہ (87-1822ء) کی فرمائش پر لکھا جبکہ پہلا اردو ناول 1869ء میں ڈپٹی نذیر احمد دہلوی (1912-1836ء) سے منسوب ہے۔
- 1888ء میں اردو کی پہلی مستند لغت "فرہنگِ آصفیہ" شائع ہوئی جس کے مولف سیداحمددہلوی (1918-1846ء) تھے۔
- 20ویں صدی یعنی 1907ء میں پہلا افسانہ منشی پریم چند (1936-1880ء) نے لکھا تھا۔
- اردو کا پہلا ٹائپ رائٹر 1911ء میں ایجاد ہوا تھا۔
- اردو کا پہلا ریڈیو 1927ء اور پہلا ٹی وی 1964ء میں قائم ہوا۔
- اردو کی پہلی فیچر فلم "عالم آراء" 1931ء میں ریلیز ہوئی جس میں پہلا اردو فلمی گیت بھی گایا گیا تھا۔
- 20ویں صدی میں پہلا کمپوٹرائزڈ اخبار روزنامہ جنگ لاہور، یکم اکتوبر 1981ء کو شائع ہوا تھا۔ اس میں استعمال ہونے والے رسم الخط کو "اردو نوری نستعلیق" کا نام دیا گیا جس کے بانی مرزا احمدجمیل (2016-1921ء) تھے۔
- 1994ء میں اردو زبان کا پہلا سافٹ وئر InPage سامنے آیا۔ 2008ء میں اس کا یونی کوڈ ورژن بھی ریلیز ہوا۔
اردو حروفِ تہجی
کسی بھی زبان کی حروفِ تہجی یا حروفِ ہجا (Alphabets) کے حروف، اس زبان میں بولی جانے والی مختلف آوازوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زبان کی اپنی اپنی حروفِ تہجی ہوتی ہے، چاہے وہ زبان کوئی بھی طرزِ تحریر استعمال کرتی ہو۔
اردو زبان کو دیوناگری اور رومن کے علاوہ کسی بھی رسم الخط میں لکھا جاسکتا ہے لیکن عربی طرزِ تحریر کو بنیاد بنایا گیا ہے مگر اس میں وہ سبھی حروف یا آوازیں شامل نہیں تھیں جو اردو یا ہماری دیگر زبانوں میں استعمال ہوتی ہیں، اسی لیے حسب ضرورت اس میں مطلوبہ حروف کا اضافہ کیا گیا۔
اردو حروفِ تہجی، عربی کی "ابجد" (Abjads) حروفِ تہجی کی ایک ترمیم شدہ شکل ہے جن میں بیشتر حروف کا تلفظ عربی نہیں، فارسی ہے۔ ان حروف کی کل تعداد پر اختلافات ہیں جو 36 سے 57 تک جاتے ہیں اور ان میں مفرد اور مرکب حروف شامل ہیں۔ بنیادی طور پر 47 مختلف آوازیں ہیں۔ عربی، فارسی اور ہندی کے علاوہ اردو کے اپنے مخصوص حروف یا آوازیں بھی ہیں۔
اردو حروفِ تہجی میں مصمتوں یا حروفِ صحیحہ (consonant) کے علاوہ کل 7 مصوتے یا حروفِ علت (vowel) ہیں جن میں سے 3 مختصر مصوتے (short-vowels) "زبر، زیر اور پیش" اور 4 لمبے مصوتے (long-vowels) یعنی "الف، و، ی اور ے" شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر علامات (مثلاً جزم/سکون، تشدید، تنوین وغیرہ) بھی شامل ہیں۔
اردو حروفِ تہجی کے اہم حقائق
- پاکستان میں پڑھائے جانے والے اردو کے ابتدائی قاعدے میں کل 37 حروف ہیں جن میں ہمزہ (ء) بھی شامل ہے جس کو بابائے اردو مولوی عبدالحق، ایک حرف نہیں بلکہ علامت سمجھتے تھے، اس لیے کل 36 حروف مانتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ فارسی کی طرح عربی میں بھی "ہمزہ" (ء) کا حرف شامل نہیں ہے۔ یہ اور بات یہ ہے کہ جدید عربی میں "الف" کو "ہمزہ" پڑھا جاتا ہے۔
- بعض حلقے "الف" کے ساتھ "الف مد (آ) کو بھی ایک الگ حرف مانتے ہیں حالانکہ یہ دو الف کے برابر ایک مرکب حرف ہے۔ اسی طرح سے "ہ" اور "ھ" کو بھی دو الگ الگ حروف سمجھا جاتا ہے حالانکہ "ھ" ایک خودمختار حرف نہیں بلکہ ہمیشہ دیگر حروف کے ساتھ ہی آتا ہے جبکہ "ہ" عام استعمال کا حرف ہے جو انگریزی کے H کا متبادل ہے۔
- بعض حلقے "ہائیہ حروف" (aspirated) یعنی وہ حروف جن کے ساتھ دو چشمی "ھ" لگا کر حرف کو موٹا پڑھا جاتا ہے، کو بھی حروفِ تہجی کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ دو حروف کو ملا کر مرکب حروف بنائے جاتے ہیں، اس لیے حروفِ تہجی کا حصہ نہیں ہونے چاہئیں۔ جتنے زیادہ حروف ہوں گے، اتنا ہی سیکھنے والے پر بوجھ ہوگا۔ ذرا تصور کریں، انگریزی صرف 26 حروف کے ساتھ دنیا پر راج کر رہی ہے۔۔!
- اردو زبان کے "ہائیہ حروف" پر بھی خاصا اختلاف ہے اور ان کی تعداد بھی مختلف ہے۔ اردو قاعدے میں ہائیہ حروف کی کل تعداد 14 ہے لیکن دیگر حلقے "رھ"، "وھ" اور "یھ" کو بھی ہائیہ حروف لکھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سبھی ہائیہ حروف، ہندی زبان سے آئے ہیں لیکن ان میں بھی صرف 10 حروف ہندی میں موجود ہیں جبکہ باقی سبھی (یعنی "رھ، ڑھ، لھ، مھ، نھ" وغیرہ) اردو کے اپنے حروف ہیں۔
- "ادارہ فروغِ قومی زبان" کے مطابق اردو حروفِ تہجی کی کل تعداد 54 ہے جس میں 15 ہائیہ حروف کے علاوہ "الف مدآ"، ہمزہ (ء)، نون غنہ (ں) اور بڑی یے (ے) بھی شامل ہیں لیکن دوچشمی "ھ"، "وھ" اور "یھ" شامل نہیں ہیں۔
- اردو حروفِ تہجی میں فارسی کا صرف ایک حرف "ژ" شامل ہے جس کا تلفظ "ز" کے علاوہ "ی، ش اور ج" بھی کیاجاتا ہے۔ عام طور پر یہ حرف صرف فارسی کے ان الفاظ میں آتا ہے جو اردو میں استعمال ہوتے ہیں لیکن انگریزی لفظ "ویژن" میں "ے" کی آواز میں یہی حرف لکھا جاتا ہے۔
- اردو حروفِ تہجی میں عربی کے کل 13 مخصوص حروف (یا آوازیں) شامل ہیں جن میں "ث، ح، خ، ذ، ز، ص، ض، ط، ظ، ع، غ، ف اورق" وہ حروف ہیں جو عام طور پر اردو میں رائج صرف عربی الفاظ ہی میں لکھے جاتے ہیں۔ ان میں سے "ث، ح، ص، ط، ع اور ق" کے متبادل حروف (یا آوازیں) مقامی زبانوں میں موجود ہیں لیکن عربی زبان میں "و" کا صحیح تلفظ انگریزی کا W ہے جو ہمارے ہاں V بن جاتا ہے۔
- اردو حروفِ تہجی میں اردو زبان کے اپنے 7 مخصوص حروف ہیں جن میں "رھ، ڑھ، لھ، مھ، نھ، وھ اور یھ" شامل ہیں جو ہندی میں نہیں ہیں، باقی 31 حروف یا آوازیں، اردو زبان کی بنیاد یعنی ہندی سے لی گئی ہیں جن میں "الف، آ، ب، بھ، پ، پھ، ت، تھ، ٹ، ٹھ، ج، جھ، چ، چھ، د، دھ، ڈ، ڈھ، ر، س، ش، ک، کھ، گ، گھ، ل، م، ن، و، ہ، ی" شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندی میں "ڑ" کا باقاعدہ حروف نہیں بلکہ "ڈ" کے نیچے ایک نقطہ ڈال کر اس کو "ڑ" پڑھا جاتا ہے۔
پاک میگزین پر اردو حروفِ تہجی پر ایک مخصوص ویب سائٹ بنائی گئی ہے جس میں الف سے یے تک ہر حرف کی تاریخ، تشکیل، تلفظ اور دیگر دلچسپ معلومات محفوظ کی گئی ہیں۔
Title: | Urdu - اردو |
Type: | Language |
Speakers: | 22.800.000 (2023) |
Region: | Pakistan and India |
Location: | Urban area like Karachi, Lahore, Hyederabad, Multan and Rawalpindin in Pakistan and Delhi, UP in India. |
Family: | Indo-European, Indo-Iranian |
Group: | Central Indo-Aryan, Western Hindi, Hindustani |
Status: | Institutional |
Quraan (1826), Dictionary, Grammar, Literature, Newspapers, Radio, TV, Film | |
Writting: | Arabic |
Etc.: | Urdu is National language of Pakistan. |
Pakistan Linguistic Database
Pakistan Linguistic Database on PAK Magazine contains information on 164 languages, dialects and accents.
12 main languages
Details on main languages in Pakistan.
1. | Arabic |
2. | Balochi |
3. | Brahui |
4. | English |
5. | Hindi |
6. | Hindko |
7. | Pashto |
8. | Persian |
9. | Punjabi |
10. | Saraiki |
11. | Sindhi |
12. | Urdu |
58 Languages
A complete list of languages of Pakistan.
No. | Language | Region | Group |
---|---|---|---|
1 | Aer | Sindh, Pakistan | Western Indo-Aryan, Gujarati |
2 | Arabic | The Muslim World | Semitic |
3 | Arsoniwar | Chitral, Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan |
4 | Badeshi | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Unclassified |
5 | Bagri | Punjab, Pakistan | Indo-Aryan |
6 | Balochi | Balochistan, Pakistan, Iran and Afghanistan | Western Iranian, Northwestern |
7 | Balti | Gilgit-Baltistan, Pakistan | Bodish, Ladakhi–Balti |
8 | Bashgaliwar | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan |
9 | Bateri | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Dardic Kohistani |
10 | Bengali | Bangladesh, India and Karachi, Pakistan | Indo-Aryan |
11 | Bhaya | Sindh, Pakistan | Indo-Aryan, Western Hindi |
12 | Brahui | Balochistan, Pakistan | Northern |
13 | Burushaski | Gilgit-Baltistan, Pakistan | South Asian |
14 | Chilisso | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Dardic, Kohistani |
15 | Dameli | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Dardic, Kunar |
16 | Dari | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan and Afghanistan | Western Iranian, Persian |
17 | Dogri | Jammu & Kashmir | Indo-Aryan, Northern, Western Pahari |
18 | English | the whole world | Germanic |
19 | Gawar-Bati | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Dardic, Kunar |
20 | Gawri | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Dardic, Kohistani |
21 | Ghera | Sindh, Pakistan | Indo-Aryan, Western Hindi |
22 | Goaria | Sindh, Pakistan | Indo-Aryan, Rajasthani |
23 | Gowro | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Dardic, Kohistani |
24 | Gujarati | Sindh, Pakistan | Western Indo-Aryan |
25 | Gurgula | Sindh, Pakistan | Western Indo-Aryan, Rajasthani |
26 | Hindi | India | Central Indo-Aryan, Western Hindi, Hindustani |
27 | Hindko | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Northwestern, Punjabic, Lahnda |
28 | Kalasha | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Dardic, Chitrali |
29 | Kalkoti | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Eastern Dardic, Shinaic |
30 | Kashmiri | Kashmir | Indo-Aryan, Dardic |
31 | Kati | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Nuristani |
32 | Khowar | Khyber Pakhtunkhwa and Gilgit-Baltistan, Pakistan | Indo-Aryan, Chitrali |
33 | Kohistani | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Eastern Dardic |
34 | Kundal Shahi | Azad Kashmir | Indo-Aryan, Eastern Dardic, Shinaic |
35 | Loarki | Sindh, Pakistan | Indo-Aryan, Western, Rajasthani |
36 | Marwari | Punjab, Sindh, Pakistan | Western Indo-Aryan, Rajasthani |
37 | Memoni | Sindh, Pakistan | Indo-Aryan, Northwestern, Sindhic |
38 | Mewati | Punjab and Sindh in Pakistan | Indo-Aryan |
39 | Oadki | Sindh, Pakistan | Western Indo-Aryan, Rajasthani |
40 | Ormuri | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Eastern Iranian |
41 | Palula | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Eastern Dardic |
42 | Parkari Koli | Sindh, Pakistan | Indo-Aryan, Western, Gujarati |
43 | Pashto | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan and Afghanistan | Eastern-Iranian |
44 | Persian | Iran and Balochistan, Pakistan | Western Iranian |
45 | Punjabi | Pakistani and Indian Punjab | Indo-Aryan, Northwestern |
46 | Sansi | Sindh, Pakistan | Indo-Aryan |
47 | Saraiki | Punjab, Pakistan | Indo-Aryan, Northwestern, Punjabic, Lahnda |
48 | Sarikoli | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Eastern-Iranian, Shugni-Yazgulami |
49 | Shina | Khyber Pakhtunkhwa, Gilgit-Baltistan and Kashmir | Indo-Aryan, Eastern Dardic |
50 | Sikh Punjabi | Punjab, India | Indo-Aryan, Northwestern |
51 | Sindhi | Sindh, Pakistan | Indo-Aryan, Northwestern, Sindhic |
52 | Thall Lamenti | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan |
53 | Torwali | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Dardic, Kohistani |
54 | Urdu | Pakistan and India | Central Indo-Aryan, Western Hindi, Hindustani |
55 | Ushojo | Swat, Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Eastern Dardic, Kohistani |
56 | Uyghur | Gilgit-Baltistan, Pakistan | Turkic |
57 | Wakhi | Gilgit-Baltistan, Pakistan, Afghanistan, Tajikstan and China | Eastern Iranian |
58 | Yidgha | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Eastern-Iranian |
64 Dialects
A list of known dialects of various languages in Pakistan.
No. | Dialect | Language | Region |
---|---|---|---|
1 | Bazigar | Punjabi | Punjab, Pakistan |
2 | Bilaspuri | Punjabi | Himachal Pradesh, India |
3 | Brokskat | Shina | Gilgit-Baltistan, Pakistan |
4 | Central Pashto | Pashto | Khyber Pakhtunkhwa , Pakistan |
5 | Chambeali | Punjabi | Himachal Pradesh, India |
6 | Cholistani | Punjabi/Saraiki | Punjab, Pakistan |
7 | Dawoodi | Burushaski | Gilgit-Baltistan, Pakistan |
8 | Dehwari | Persian | Balochistan, Pakistan |
9 | Derawali | Punjabi/Saraiki | Punjab, Pakistan |
10 | Dhatki | Sindhi | Sindh, Pakistan |
11 | Doabi | Punjabi | Punjab, Pakistan |
12 | Dogri | Punjabi | Jammu & Kashmir |
13 | Faraqi | Sindhi | Sindh, Pakistan |
14 | Gojri | Punjabi | Jammu & Kashmir |
15 | Hazargi | Persian | Balochistan, Pakistan |
16 | Hindko | Punjabi | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan |
17 | Jadgali | Sindhi | Sindh, Pakistan |
18 | Jandavra | Gujarati | Sindh, Pakistan |
19 | Jangli | Punjabi | Punjab, Pakistan |
20 | Jhalawani | Brahui | Balochistan, Pakistan |
21 | Jogi | Hindi | Sindh, Pakistan |
22 | Kabutra | Hindi | Sindh, Pakistan |
23 | Kachi Koli | Gujarati | Sindh, Pakistan |
24 | Kangri | Punjabi | Himachal Pradesh, India |
25 | Khetrani | Punjabi/Saraiki | Balochistan, Pakistan |
26 | Komviri | Pashto | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan |
27 | Koroshi | Balochi | Balochistan, Pakistan |
28 | Kullui | Punjabi | Himachal Pradesh, India |
29 | Kutchi | Sindhi | Sindh, Pakistan |
30 | Lari | Sindhi | Sindh, Pakistan |
31 | Lasi | Sindhi | Sindh, Pakistan |
32 | Madaklashti | Persian | Balochistan, Pakistan |
33 | Majhi | Punjabi | Punjab, Pakistan |
34 | Makrani | Balochi | Balochistan, Pakistan |
35 | Malwai | Punjabi | Punjab, India |
36 | Mandeali | Punjabi | Himachal Pradesh, India |
37 | Mankiyali | Hindko | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan |
38 | Mewari | Hindi | Sindh, Pakistan |
39 | Multani | Punjabi/Saraiki | Punjab, Pakistan |
40 | Northern Pashto | Pashto | Khyber Pakhtunkhwa , Pakistan |
41 | Pamir Kyrgyz | Kyrgyz | Gilgit-Baltistan, Pakistan |
42 | Pothwari | Punjabi | Northern Punjab, Pakistan |
43 | Puadhi | Punjabi | Punjab, Pakistan |
44 | Purgi | Balti | Gilgit-Baltistan, Pakistan and India |
45 | Rakhshani | Balochi | Balochistan, Pakistan |
46 | Rakhshani Brahui | Brahui | Balochistan, Pakistan |
47 | Rangri | Hindi | Punjab, Pakistan |
48 | Riasti | Punjabi/Saraiki | Punjab, Pakistan |
49 | Saraiki | Punjabi | Punjab, Pakistan |
50 | Saravani | Brahui | Balochistan, Pakistan |
51 | Saroli | Sindhi | Sindh, Pakistan |
52 | Sawi | Shina | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan |
53 | Shahpuri | Punjabi | Punjab, Pakistan |
54 | Sindhi Bhil | Sindhi | Sindh, Pakistan |
55 | Sindhi Brahui | Brahui | Balochistan, Pakistan |
56 | Southern Pashto | Pashto | Khyber Pakhtunkhwa , Pakistan |
57 | Sulemani | Balochi | Balochistan, Pakistan |
58 | Thalochri | Punjabi/Saraiki | Punjab, Pakistan |
59 | Thareli | Sindhi | Sindh, Pakistan |
60 | Utradi | Sindhi | Sindh, Pakistan |
61 | Vaghri | Gujarati | Sindh, Pakistan |
62 | Wacholi | Sindhi | Sindh, Pakistan |
63 | Wadiyara Koli | Gujarati | Sindh, Pakistan |
64 | Waneci | Pashto | Balochistan, Pakistan |
44 Accents
A list of known accents of various dialects and languages in Pakistan.
No. | Accent | Dialect | Language |
---|---|---|---|
1 | Aajri | Hindko | Punjabi |
2 | Afridi | Northern Pashto | Pashto |
3 | Awankari | Pothwari/Hindko | Punjabi |
4 | Baar di Boli | Majhi | Punjabi |
5 | Banawali | Malwai | Sikh Punjabi |
6 | Bhattiani | Malwai | Sikh Punjabi |
7 | Bherochi | Shahpuri | Punjabi |
8 | Bugti | Sulemani | Balochi |
9 | Chenavri | Majhi | Punjabi |
10 | Chenhawri | Multani | Punjabi/Saraiki |
11 | Chhachhi | Pothwari/Hindko | Punjabi |
12 | Dhanni | Shahpuri/Hindko | Punjabi |
13 | Domki | Makrani | Balochi |
14 | Ghebi | Pothwari/Hindko | Punjabi |
15 | Hindki | Multani | Punjabi/Saraiki |
16 | Jaghdali | Derawali | Punjabi/Saraiki |
17 | Jandli | Pothwari | Punjabi |
18 | Jatki | Majhi | Punjabi |
19 | Kachhi | Thalochri | Punjabi/Saraiki |
20 | Kachi | Majhi | Punjabi |
21 | Kalati | Rakhshani | Balochi |
22 | Kandahar | Southern Pashto | Pashto |
23 | Karachi | Makrani | Balochi |
24 | Kechi | Makrani | Balochi |
25 | Kohati | Hindko | Punjabi |
26 | Lashari | Makrani | Balochi |
27 | Lubanki | Malwai | Sikh Punjabi |
28 | Mandwani | Sulemani | Balochi |
29 | Mazari | Sulemani | Balochi |
30 | Mulki | Thalochri | Punjabi/Saraiki |
31 | Pachhadi | Derawali | Punjabi/Saraiki |
32 | Panjgori | Rakhshani | Balochi |
33 | Pashori | Hindko | Punjabi |
34 | Poonchhi | Pothwari | Punjabi |
35 | Rachnavi | Majhi | Punjabi |
36 | Rathi | Jhangvi | Punjabi/Saraiki |
37 | Rathoori | Malwai | Sikh Punjabi |
38 | Sarawani | Rakhshani | Balochi |
39 | Sarhaddi | Rakhshani | Balochi |
40 | Sibi | Sulemani | Balochi |
41 | Swaen | Hindko | Punjabi |
42 | Wazirabadi | Majhi | Punjabi |
43 | Waziri | Southern Pashto | Pashto |
44 | Yusufzai | Northern Pashto | Pashto |
Pakistan Linguistic Database
On the International Mother Language Day on February 21, 2025, PAK Magazine is introducing the Pakistan Linguistic Database.
It contains information on 164 languages, dialects and accents.
پاکستانی زبانوں کا ڈیٹابیس
پاک میگزین ، 21 فروری 2005ء کو یعنی "مادری زبان کے عالمی دن" کے موقع پر پاکستانی زبانوں کے ایک منفرد ڈیٹابیس کا آغاز کر رہا ہے جس میں پاکستان میں بولی جانے والی سبھی زبانوں، بولیوں اور لہجوں کی نایاب معلومات محفوظ کی جارہی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
22-11-1971: مشرقی پاکستان پر بھارتی حملہ
28-08-1978: بھٹو کے خلاف وہائٹ پیپر
10-04-1986: بے نظیر بھٹو کا جنرل ضیاع کو چیلنج