پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
بدھوار ، 25 فروری 1948
اردو زبان
25 فروری 1948ء کو اردو کو پاکستان کی اکلوتی قومی زبان قرار دیا گیا تھا۔۔!
حکومتِ پاکستان نے یہ فیصلہ 10 دسمبر 1947ء کو ڈھاکہ (سابقہ مشرقی پاکستان) کے سکولوں اور کالجوں کے طلبہ کے بنگالی زبان کو قومی زبان بنانے کے حق میں مظاہرہ کرنے کے بعد کیا جو جلتی پر تیل ثابت ہوا تھا۔
اردو زبان کی تاریخ
اردو زبان ، ہندی زبان کا "اسلامی ورژن" اور واحد "مسلم زبان" ہے جو مذہب کی بنیاد پر وجود میں آئی۔ "ہندوستانی" زبان کہلانے والی ان دونوں زبانوں، اردو اور ہندی کی صوتیات ، نحو اور گرامر کے علاوہ 75 فیصد الفاظ مشترک ہیں اور دنیا بھر میں انگریزی اور چینی کے بعد سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبانیں ہیں۔
13ویں صدی میں جب مسلم حملہ آوروں نے دہلی فتح کیا تو ہندوستان کے شمال وسطی وسیع و عریض ہندی بولنے والے علاقوں اور خصوصاً راجدھانی دہلی کے اردگرد "کھڑی بولی" بولنے والے لوگ مسلمان ہونا شروع ہوئے۔ حکمرانوں کی سرکاری فارسی اور مذہبی عربی زبانوں اور رعایا کی مقامی ہندی زبان کی آمیزش سے ایک نئی زبان "ہندوستانی" وجود میں آئی جو بعد میں "اردو" کہلائی۔
اردو زبان کی وجہ تسمیہ
لفظ "اُردُو" کے معانی "لشکر" کے ہیں اور یہ ترکی زبان سے ماخوذ ہے۔ روایت ہے کہ شہنشاہ شاہ جہاں کے 1658-1627ء کے دورِحکومت میں سرکاری لشکر یا فوج کے لیے دہلی کی جامع مسجد سے ملحق ایک چھاؤنی "اردو بازار" کے نام سے آباد کی گئی تھی۔ فوجیوں کی زبان فارسی اور مقامی ہندی بولی کے ملاپ سے جو نئی زبان وجود میں آئی، وہ اسی بستی کے نام کی مناسبت سے "اردو" کہلائی۔
گو 18ویں صدی تک "اردو" نام سننے میں نہیں آتا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس زبان کے مختلف ناموں میں "ہندی"، "ہندوی"، "دہلوی"، "ہندوستانی"، "دکنی"، "گجراتی" اور "ریختہ" کے علاوہ "اردوئے معلیٰ" کا نام بھی استعمال ہوا۔
جب اردو سرکاری زبان بنی
انگریزوں نے 1612ء میں ہندوستان آمد کے بعد 1765ء میں بنگال میں اپنی پہلی حکومت قائم کی اور 1803ء میں دہلی پر بھی قبضہ کر لیا لیکن کٹھ پتلی مغل بادشاہوں کو 1857ء تک برقرار رکھا۔ خیبر پختونخواہ، 1895ء میں فتح ہونے والا آخری خطہ تھا جو "برطانوی ہند" کا حصہ بنا۔
1837ء میں انگریزوں نے شمالی ہندوستان (اور موجودہ پاکستان) میں انگریزی کے علاوہ فارسی رسم الخط میں لکھی جانے والی اردو یا "ہندوستانی" کو سرکاری زبان قرار دیا۔ فارسی زبان، گزشتہ چھ سو سال سے ہندوستان کی سرکاری زبان رہی لیکن عوامی زبان کبھی نہ بن سکی تھی۔ اس وقت تک "دیونا گری" رسم الخط، ہندو اپنی مذہبی رسومات اور تعلیم و تربیت کے لیے استعمال کرتے تھے جو ان کی مقدس زبان "سنسکرت" سے ماخوذ تھا۔
یاد رہے کہ ہندوستان کی جنوبی دراوڑی ریاستوں کے علاوہ گجرات، مہاراشٹرا، بنگال اور اوڑیسہ وغیرہ کبھی بھی اردو، ہندی، فارسی یا عربی سے متاثر نہیں ہوئے اور ہمیشہ سے اپنی مقامی زبانیں ہی بولتے رہے۔ اس دوران نظام حیدرآباد دکن کی ریاست میں خاصی تعداد میں مسلمانوں کی ہجرت کی وجہ سے وہاں کے شہری علاقوں میں بھی اردو بولی جانے لگی تھی۔
اردو ہندی جھگڑا
اس سے قبل فورٹ ویلیم کالج کلکتہ کے بانی ڈاکٹر گلکرسٹ نے 1787ء میں ہندی/اردو کی مخلوط زبان کو "ہندوستانی زبان" کا نام دیا اور 1800ء میں کالج کے قیام کے بعد اردو کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ نثری کتب کے علاوہ شعروشاعری پر بے شمار کتب شائع کی گئیں لیکن اس دوران ہندوؤں کی اکثریتی آبادی نے فارسی زدہ اردو (جو شاعری میں "ریختہ" کہلاتی تھی) پر اعتراض کیا اور ہندی کو اپنی مذہبی زبان "دیوناگری" میں لکھنے کا مطالبہ کیا جس نے "ہندوستانی زبان" کو "اردو۔ ہندی" میں تقسیم کر دیا۔ اردو، مسلمانوں کی اور ہندی، ہندوؤں کی زبان بن گئی جو ایک سیاسی تفریق کے بعد انجام کار ملک کے بٹوارے کا باعث بھی بنی۔
یاد رہے کہ "ہندی" کا لفظ بھی مسلمانوں ہی کی ایجاد ہے جو ہندوستان کی ہر زبان کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ جیسے "ہند" کا لفظ دریائے سندھ کے مشرق کے بھارت کے تمام علاقوں کو کہا جاتا تھا جن میں پاکستان کے دو صوبے پنجاب اور سندھ بھی شامل ہیں۔
اردو کا پہلا اخبار
اردو کا پہلا اخبار
اردو کا پہلا اخبار "جامِ جہاں نما" تھا جو 27 مارچ 1822ء کو "ہری ہروت" نے منشی سداسکھ لعل کی ادارت میں کلکتہ سے شائع کیا لیکن صرف چھ شماروں اور قارئین کی عدم دلچسپی کے باعث بند ہوگیا تھا۔
اسی نام سے یہ اخبار ایک فارسی ہفت روزہ کی صورت میں شائع ہونے لگا اور ایک سال بعد اس میں اردو کا ضمیمہ بھی شامل کیا گیا جو 23 جنوری 1828ء تک چل سکا۔ اس اخبار میں زیادہ تر خبریں، مقامی انگریزی اور درآمد شدہ یورپین اخبارات سے ترجمہ کر کے شائع کی جاتی تھیں۔
اردو زبان کا پہلا باقاعدہ اخبار ہفت روزہ "اردو اخبار" تھا جو مولوی محمد باقر نے 1836ء میں دہلی سے شائع کیا اور 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مولوی صاحب کی شہادت کی وجہ سے بند ہوا۔
اس تاریخی نوعیت کے اخبار میں علمی اور ادبی مضامین کے علاوہ مقامی اور بین الاقوامی خبریں، تبصرے، تنقیدی اور مزاحیہ مضامین شائع ہوتے تھے۔ صفحہ اول پر "حضورِ والا" کے عنوان سے کٹھ پتلی حکمرانوں یعنی تاجدارِ مغلیہ اور "صاحبِ کلاں" کے نام سے اس وقت کی اسٹبلشمنٹ یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرگرمیوں کا ذکر ہوتا تھا۔ ان کے علاوہ غالب، ذوق، مومن اور بادشاہ کم شاعر، بہادر شاہ ظفر وغیرہ کے کلام بھی باقاعدگی سے چھپتے تھے۔
اردو کے پہلے اخبار کے بارے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ شیرِ میسور ٹیپو سلطان نے 1794ء میں "فوجی اخبار" کے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار شائع کیا تھا جس میں جہادی مضامین ہوتے تھے۔
اردو زبان کا پہلا روزانہ اخبار "اردو گائیڈ" تھا جو 1858ء میں مولوی کبیرالدین احمد خان بہادر نے کلکتہ سےشائع کیا جو "دارالسطنت" کے نام سے بھی جاری ہوا۔ مولانا عبدالکلام آزاد بھی اس اخبار کے مدیر رہے۔
اردو زبان میں قرآنِ مجید کا پہلا ترجمہ
برصغیر پاک و ہند میں قرآنِ مجید کا پہلا فارسی ترجمہ شاہ ولی اللہ دہلوی نے 18ویں صدی میں کیا جبکہ اردو (یا ہندوستانی زبان میں) پہلی بار یہ کارنامہ ان کے صاحبزادے شاہ عبدالقادر دہلوی (1814-1753ء) نے "موضح القرآن" کے نام سے 1790ء یا 1205 ہجری میں سرانجام دیا جس کو بے حد سراہا گیا تھا۔ روایت ہے کہ ان سے قبل یہ کام ان کے بھائی شاہ رفیع الدین بھی کر چکے تھے لیکن ان کا ترجمہ شائع نہیں ہو سکا تھا۔
"موضح القرآن" کے دیپاچے کے پہلے صفحہ کا عکس ملاحظہ فرمائیں جس میں یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ موصوف نے "اردو" لفظ کہیں استعمال نہیں کیا بلکہ اس ترجمہ کو "ہندی یا ہندوستانی" زبان قرار دیا تھا جبکہ یہ بھی لکھا کہ "اس میں زبان ریختہ نہیں بولی بلکہ ہندی متعارف کروائی تا کہ عوام کو بے تکلف دریافت ہو۔" یاد رہے کہ" ریختہ" بھی اردو زبان کا قدیم نام رہا ہے جو فارسی زدہ اردو کے لیے مختص رہا ہے۔ یہ سرکاری اور شعروشاعری کی زبان تو تھی لیکن عام فہم یا عوامی زبان نہیں تھی۔
1790ء میں لکھی ہوئی تفسیر"موضح القرآن" کا یہ قدیم طرزِ تحریر بھی بڑا دلچسپ ہے جس میں اردو املاء کا بہت زیادہ فرق نظر آتا ہے جو بتاتا ہے کہ اس وقت اردو اپنے ارتقائی مراحل میں تھی اور کئی حروف اپنی مکمل ساخت سے محروم تھے، مثلاً
- اس وقت بڑی یے (ے) کا استعمال نہیں ہوتا تھا، اس کی جگہ چھوٹی یے (ی) لکھی جاتی تھی۔ "سے" کو "سی"، "اپنے" کو "اپنی" اور "پہچانے" کو "پہچانی" وغیرہ لکھا ہوا ہے۔ بڑی یے (ے) کا حرف صرف اردو زبان میں ملتا ہے لیکن عربی، فارسی یا ہندی میں نہیں ہے۔
- نون غنہ (ں) بھی اس وقت تک ایجاد نہیں ہوئی تھی اور "کروں" کو "کرون"، "میں" کو "مین" اور "نہیں" کو "نہین" لکھا ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نون غنہ (ں) کا حرف اردو حروفِ تہجی میں لکھا بھی نہیں جاتا حالانکہ اس کی اپنی آواز (اور ضرورت) ہوتی ہے۔
- اس تحریر میں دو چشمی ھے (ھ) بھی نہیں ہے اور "رکھ" کو "رکہہ"، "رکھیے" کو "رکہیئ" اور "سیکھتا" کو "سیکہتا" لکھا ہوا ہے۔ "ھ" ہمیشہ مرکب الفاظ ہی میں آتا ہے اور اس سے اردو کا کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا۔
- اتفاق سے اس عبارت میں کہیں بھی "ٹ"، "ڈ" یا "ڑ" نہیں ہے۔ اس وقت ان تینوں "ہندی" حروف پر "ط" کی جگہ چار نقطے لکھے جاتے تھے۔
- "اُس" کو "اوس"، "یہ" کو "یہہ" اور "جگہ" کو "جگہہ" لکھنے کے علاوہ کوئی کاما، فل سٹاپ یا پیراگراف نہیں بلکہ ایک بوجھل سی تحریر ہے جس میں + کا نشان بڑا عجیب سا لگتا ہے۔ اس تحریر سے البتہ اردو زبان کا ارتقائی سفر ضرور نظر آتا ہے۔
اردو زبان کے اہم سنگِ میل
- 13ویں صدی کے شاعر اور ماہر موسیقی ، امیر خسرو (1253–1325) کو اردو کا پہلا شاعر کہا جاتا ہے۔
- 16ویں صدی میں اردو شاعری کا پہلا دیوان ملتا ہے۔
- 18ویں صدی یعنی 1780ء میں پہلی بار لفظ "اردو" ایک شاعر غلام ہمدانی مشفی نے استعمال کیا تھا۔
- قرآنِ مجید کا پہلا بامحاورہ اردو ترجمہ 1790ء میں شاہ عبدالقادر دہلوی (1814-1753ء) نے کیا تھا۔
- اردو کی حروفِ تہجی کا باقاعدہ آغاز 1800ء میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں وائسرائے ہند Lord Wellesley کے دور میں ہوا جہاں پہلی بار بڑی تعداد میں اردو کتابیں شائع کی گئیں۔
- اردو کا پہلا سٹیج ڈرامہ "اندرسبھا" 1853ء میں آغا حسن امانت نے والی اودھ واجد علی شاہ کی فرمائش پر لکھا جبکہ پہلا اردو ناول 1869ء میں ڈپٹی نذیر احمد دہلوی سے منسوب ہے۔
- 20ویں صدی یعنی 1907ء میں پہلا افسانہ منشی پریم چند نے لکھا تھا۔
- اردو کا پہلا ٹائپ رائٹر 1911ء میں ایجاد ہوا تھا۔
- اردو کی پہلی فیچر فلم "عالم آراء" 1931ء میں ریلیز ہوئی جس میں پہلا اردو فلمی گیت بھی گایا گیا تھا۔
- "اردو نوری نستعلیق" رسم الخط میں پہلا کمپوٹرائزڈ اخبار روزنامہ جنگ لاہور، یکم اکتوبر 1981ء کو شائع ہوا تھا۔
قیامِ پاکستان کے بعد اردو زبان
قیامِ پاکستان کے بعد اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان کا درجہ ملا حالانکہ اسوقت تک اردو ، پاکستان کے کسی علاقے کی زبان نہیں تھی۔ اس کا جہاں منفی ردِعمل مشرقی پاکستان میں ہوا وہاں بھارت میں بھی اردو کی بجائے ہندی کو اہمیت دی جانے لگی جو انگریزی کے ساتھ سرکاری زبان بن گئی۔
آج بھی سب سے زیادہ اردو بولنے والے بھارت میں رہتے ہیں جہاں اس مسلم زبان کو 22 سرکاری زبانوں میں سے ایک زبان کا درجہ حاصل ہے لیکن اپنی جنم بومی میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔
اردو زبان کے دلچسپ اعدادوشمار
2022ء کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں اردو بولنے والوں کی تعداد سات کروڑ کے لگ بھگ ہے جن میں سے اڑھائی کروڑ کے قریب پاکستان میں ہیں جو کل آبادی کا 7 فیصد بنتے ہیں۔ کراچی اور حیدرآباد ، پاکستان کے وہ شہر یا علاقے ہیں جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت آباد ہے۔
- 2017ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ 47 لاکھ تھی جو کل آبادی کا 7,08 فیصد بنتی ہے۔ اس میں سے پنجاب میں 4,87، سندھ میں 18,20، کے پی میں 0,84، بلوچستان میں 0,81 اور اسلام آباد میں 12,23 فیصد آبادی اردو بولتی ہے۔
- کراچی کے تقریباً ستر لاکھ (42فیصد) کے بعد اردو بولنے والوں کی دوسری بڑی تعداد لاہور میں آباد ہے جو 14 لاکھ (13 فیصد) سے زائد ہے۔
اردو کی حروفِ تہجی
اردو زبان کے ماہرینِ لسانیات کے نزدیک ہمیشہ یہ اختلاف رہا ہے کہ اردو کی حروف تہجی میں کل کتنے حروف ہیں۔ ان کی تعداد 36 سے 55 تک جاتی ہے۔ پاکستان میں اردو قاعدے میں 37 حروف ہوتے تھے جن میں ہمزہ (ء) بھی شامل تھا جس کو بابائے اردو مولوی عبدالحق، ایک حرف نہیں بلکہ علامت مانتے تھے۔ بعض کے نزدیک الف مدا (آ) بھی ایک باقاعدہ حرف ہے۔
زیرِنظر اردو حروفِ تہجی کے صفحہ پر مفرد اور مرکب حروف ملا کر کل 52 حروف درج ہیں جن میں تین حروف "رھ" ، "ں" اور "ھ" نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ "ہ" اور "ھ" دو مختلف حروف ہیں جن کا "ی" اور "ے" کی طرح استعمال الگ الگ ہے۔
Urdu language
Wednesday, 25 February 1948
Urdu was declared as solo national language of Pakistan on February 25, 1948..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
14-11-1993: فاروق احمد لغاری
07-08-2020: راوی ریور فرنٹ
30-04-1974: جنگی قیدیوں کی واپسی