پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
منگلوار 14 اکتوبر 1980
مولانا مفتی محمود
مولانا مفتی محمود
مولانا فضل الرحمان کے والدِ گرامی تھے
مولانا مفتی محمود، دیوبندی مسلک کی سیاسی جماعت، جمیعت العلمائے اسلام کے سربراہ اور مولانا فضل الرحمان کے والدِ گرامی تھے۔۔!
1953ء کی پہلی "تحریک ختمِ نبوت" سے سیاسی کیرئر کا آغاز کیا اور 1974ء کی دوسری "تحریک ختمِ نبوت" سے خاصی شہرت ملی جب انھی کی تحریک پر دستورِ پاکستان میں قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کی دوسری آئینی ترمیم منظور ہوئی تھی۔
مولانا مفتی محمود کا سیاسی کیرئر
مولانا مفتی محمود، 1977ء کے متنازعہ انتخابات کے دوران اپوزیشن اتحاد، پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ تھے۔ اس دوران، بھٹو حکومت کے خلاف انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں اور تحریک نظام مصطفیٰ ﷺ کی قیادت بھی کی۔ اس کے بعد حکومت کے ساتھ مذاکرات میں نئے انتخابات کے انعقاد کے لیے اپوزیشن ٹیم کی سربراہی بھی کی۔ بھٹو حکومت کے خاتمہ کے بعد 1977/78ء میں ان کی جماعت جمیعت العلمائے اسلام، دوبارہ انتخابات کے انعقاد کے وعدے پر جنرل ضیاع مردود کی مارشل لاء حکومت کی کابینہ میں شامل رہی۔ اس کے علاوہ 1972/73ء میں تقریباً دس ماہ تک صوبہ خیبر پختونخواہ کی مخلوط حکومت کے وزیرِاعلیٰ بھی رہے۔
مولانا مفتی محمود کا ابتدائی دور
مولانا مفتی محمود نے 1942ء میں دیوبند (بھارت) میں زمانہ طالب علمی ہی میں سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور مولانا حسین احمد مدنی کی سیاسی اور مذہبی جماعت، جمعیت علماء ہند میں شمولیت اختیار کی۔ اس دوران انھوں نے کانگریس کی انگریز راج دشمن تحریک "ہندوستان چھوڑ دو" میں بھرپور حصہ لیا لیکن نظریاتی بنیادوں پر قیامِ پاکستان کی مخالفت کی۔
پاکستان بننے کے بعد 1956ء میں جمیعت العلمائے اسلام کا قیام عمل میں آیا تو اس کے بانی ارکان میں شامل ہوئے۔ مولانا احمد لاہوری، پہلے صدر تھے۔ 1958ء میں ایوب خان کے مارشل لاء میں سبھی سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن 1962ء کے آئین کے نفاذ کے بعد سیاسی سرگرمیاں بحال ہوئی تو مولانا مفتی محمود، جے یو آئی کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اسی سال وہ پہلی بار قومی اسمبلی کی ممبر چنے گئے۔
1970 کے پہلے عام انتخابات
1970ء کے پہلے عام انتخابات میں مولانا مفتی محمود کی جمیعت العلمائے اسلام نے کل ڈالے گئے وؤٹوں کا چار فیصد حاصل کیا اور قومی اسمبلی میں سات نشستیں حاصل کیں۔ ان میں سے صوبہ سرحد میں چھ اور بلوچستان میں ایک سیٹ تھی، دیگر صوبوں سے کوئی سیٹ نہ مل سکی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ان کی جیتی ہوئی ایک سیٹ ان کے آبائی حلقہ ڈیرہ اسماعیل خان سے تھی جس میں انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو شکست دی تھی۔ یہ سیٹ ان کے کسی کام نہ آئی کیونکہ انھوں نے وفاقی سیاست کی بجائے صوبائی سیاست کو اہمیت دی اور صوبہ سرحد کے وزیرِاعلیٰ بننے کو ترجیح دی۔
صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں مولانا مفتی محمود کی جمیعت العلمائے اسلام کو کل آٹھ سیٹیں ملیں جن میں پنجاب اور بلوچستان کی دو دو سیٹوں کے علاوہ صوبہ کے پی میں چار سیٹیں بھی تھیں۔ صوبائی انتخابات میں پنجاب میں تو پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت حاصل تھی لیکن باقی کسی بھی صوبہ سے کوئی پارٹی واضح مینڈیٹ حاصل نہیں کر سکی تھی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی، سب سے بڑی پارٹی بنی لیکن سادہ اکثریت سے بھی محروم تھی۔
مولانا مفتی محمود بطورِ وزیرِاعلیٰ صوبہ خیبرپختونخواہ
یکم مئی 1972ء کو عبوری آئین کے نفاذ کے بعد جب جمہوری حکومتیں تشکیل پائیں تو صوبہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں کسی بھی پارٹی کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہ تھی۔ ان دونوں صوبوں میں بائیں بازو کی سوشلسٹ جماعت، نیشنل عوامی پارٹی (نیپ، جس کے سربراہ خان عبدالولی خان تھے)، سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی جس کے قیوم لیگ سے سخت سیاسی اختلاف تھے جو دوسری بڑی پارٹی تھی۔
یہی وجہ تھی صوبہ کے پی میں بائیں بازو کے سیاستدان ولی خان نے دائیں بازو کے مذہبی سیاستدان، مولانا مفتی محمود سے مل کر حکومت بنائی اور انھیں وزیرِاعلیٰ کا عہدہ بھی دے دیا حالانکہ اسمبلی میں ان کی کل چالیس میں سے صرف چار سیٹیں تھیں۔ آزاد امیدواران کو ملا کر حکومت بنی۔ پیپلز پارٹی بھی صوبہ سرحد میں اپنے مرکز میں اتحادی، قیوم لیگ اور آزاد امیدواران کو ملا حکومت بنا سکتی تھی لیکن انھوں نے ان دونوں پارٹیوں کو موقع دیا۔ بلوچستان میں نیپ اور جے یو آئی کو ملا کر سادہ اکثریت حاصل تھی، وہاں نیپ کا وزیرِاعلیٰ بنا۔
مولانا مفتی محمود کا استعفیٰ
21 فروری 1973ء کو تقریباً دس ماہ کی حکومت کے بعد مولانا مفتی محمود نے بطورِ احتجاج صوبہ کے پی کے وزیرِ اعلیٰ کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ ان کی اتحادی جماعت، نیشنل عوامی پارٹی کی بلوچستان کی مخلوط حکومت کو ملک دشمن سرگرمیوں کی پاداش میں برطرف کردیا گیا تھا۔ صدربھٹو کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود مولانا نے اپنا استعفیٰ واپس نہیں لیا تھا۔
1973ء میں بھٹو حکومت کے خلاف متحدہ جمہوری محاذ میں شامل ہوئے۔ اس دوران دوبارہ وفاقی سیاست کا آغاز کیا اور آئینِ پاکستان پر دستخط کیے۔ 1977ء کے انتخابات میں پاکستان قومی اتحاد کا قیام عمل میں آیا تو اس کے سربراہ مقرر ہوئے لیکن انتخابات میں شکست کے بعد مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف بھرپور تحریک چلائی۔ مذاکرات کی نتیجہ میں تین رکنی اپوزیشن ٹیم کے قائد بنے۔ بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد جلد انتخابات کروانے کے وعدے پر جنرل ضیاع ملعون کی مارشل لاء حکومت کی کابینہ میں اپنے تین وزراء (حاجی فقیر محمد خان ، محمد زمان خان اچکزئی اور صبح صادق کھوسہ) دیے۔ جنرل ضیاع کی وعدہ خلافی کے بعد حکومت سے الگ ہوئے اور 1983ء میں ایم آر ڈی میں شمولیت اختیار کی جس میں دیگر پارٹیوں میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی بھی شامل تھی۔مولانا مفتی محمود کون تھے؟
مولانا مفتی محمود، ڈیرہ اسماعیل خان میں 1919ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی۔ اعلیٰ مذہبی تعلیم کے لیے دہلی ، مرادآباد اور دیوبند تشریف لے گئے۔ قیام پاکستان کے بعد ملتان کے سب سے بڑے دینی تعلیمی ادارے، مدرسہ قاسم العلوم کے مدرس کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور بہت جلد شیخ الحدیث اور مفتی کے مناسب پر فائز کر دیئے گئے۔ عربی، فارسی اور اردو ادب پر گہری دسترس حاصل تھی۔ 14 اکتوبر 1980ء کو انتقال ہوا۔ ان کی وفات کے بعد مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں ان کے صاحبزادے، مولانا فضل الرحمان کو متفقہ طور پر جمعیت علمائے اسلام کا جنرل سیکرٹری چن لیا گیا تھا۔
Maulana Mufti Mahmood
Tuesday, 14 October 1980
Mufti Mehmood was Chief Minister of Khyber Pakhtunkhwa in 1972 and the opposition-leader in 1977..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
12-10-1999: منگل اور جنگل کا قانون
15-08-1947: پاکستان کی پہلی کابینہ
10-07-2018: پاکستان کا بجٹ 2018ء