پاکستانی زبانیں
173 زبانوں/بولیوں اور لہجوں پر دلچسپ اور نایاب معلومات
سکھی پنجابی
"پاکستانی پنجابی" اور "سکھی پنجابی"، عملی طور پر اردو اور ہندی کی طرح دو مختلف زبانیں بن چکی ہیں۔۔!
- "پاکستانی پنجابی"، گزشتہ ایک ہزار سالہ تاریخ کی امین ہے جو 1970 کی دھائی تک، پاکستانی اور بھارتی پنجاب کی مشترکہ معیاری زبان رہی ہے۔ پنجابی زبان کا لافانی ادبی اور تہذیبی خزانہ اور "شاہ مکھی" رسم الخط، مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کا مشترکہ ورثہ رہا ہے۔
- اس کے برعکس، گزشتہ نصف صدی سے "سکھی پنجابی"، ایک الگ زبان بن چکی ہے جس پر سنسکرت اور سکھ عقائد کی گہری چھاپ نظر آنے لگی ہے۔ معیاری یا ٹیکسالی زبان اور لہجہ بھی بدل گیا ہے۔ سکھوں کی مذہبی طرزِ تحریر، "گرمکھی" کو "سکھی پنجابی" زبان کی پہچان بنا دیا گیا ہے جس سے پنجابی بولنے والے ہندوؤں کے علاوہ مسلمانوں کی اکثریت مکمل طور پر لاتعلق ہے۔
سکھ مذہب کی تاریخ
15ویں صدی میں ننکانہ صاحب، ضلع شیخوپورہ (پنجاب، پاکستان) میں سکھ دھرم کے بانی، بابا گرونانک (1539-1469ء)، ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے اور 70 سال کی عمر میں کرتارپور، شکرگڑھ (پنجاب، پاکستان) میں فوت ہوئے تھے۔
یہ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی دہلی سلطنت (1526-1206ء) کے تین سو سالہ دور کا اختتام تھا کیونکہ 1526ء میں پانی پت کے میدان میں مغل حملہ آور ظہیرالدین بابر (1530-1483ء) نے ابراہیم لودھی (1526-1480ء) کو شکست دے کر ہندوستان پر مغل راج (1857-1526ء) کی بنیاد رکھی تھی۔ خطہ پنجاب پر البتہ مسلمانوں کی گزشتہ پانچ سو سال سے حکومت تھی۔
بابا گرونانک، ہندو دھرم کے ذات پات کے عقیدے اور دیوی دیوتاؤں کی پوچا کے سخت خلاف تھے۔ روایات کے مطابق، اسلامی عقائد سے متاثر تھے اور توحید کا پرچار کرتے لیکن ظاہری مذہبی رسوم و رواج کے خلاف تھے اور صرف خدائے واحد کی حمد (واہ گرو)، انسانی اقدار اور سماجی مساوات کے قائل تھے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں طور پر ایک محترم مذہبی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے اور ان کا ایک حلقہ اثر بن چکا تھا۔
سکھوں کے دوسرے گرو انگد (39-1504ء) نے دیوناگری رسم الخط سے متاثر ہوکر گرمکھی رسم الخط ایجاد کیا اور اس میں بابا گرونانک کی تعلیمات کو محفوظ کرنا شروع کیا۔ روایت ہے کہ وہ نماز بھی پڑھتے تھے جو یقیناً انھوں نے اپنے گرو ہی سے سیکھی ہوگی۔
سکھوں کے 5ویں گرو ارجن دیو (1606-1563ء) نے سکھ دھرم کی مذہبی کتاب "گرو گرنتھ صاحب" مرتب کی اور اس میں دو ہزار سے زائد بھجن لکھے تھے۔ اس کتاب میں مسلم صوفی بزرک بابا فرید گنج شکرؒ (1266-1188ء) کا کلام بھی شامل کیا گیا تھا۔ انھوں نے ہی سکھوں کے مقدس ترین مقام "گولڈن ٹمپل" کو بھی تعمیر کروایا تھا۔ روایت ہے کہ اس کا سنگِ بنیاد لاہور کے ایک مسلم صوفی بزرگ میاں میرؒ (1635-1550ء) نے رکھا تھا۔
سکھوں کے 10ویں، آخری اور بابا گرونانک (1539-1469ء) کے بعد سب سے معتبر گرو گوبند سنگھ (1708-1666ء) نے 1699ء میں سکھوں کو ایک باضابطہ سکھ مذہب "خالصہ" بنا دیا جس کی خاص خاص باتیں مندرجہ ذیل ہیں:
- "سکھ دھرم" یا "خالصہ/خالص/خودمختار"، ہندوؤں اور مسلمانوں سے ایک الگ تھلگ مذہب ہے جس کی بنیاد "گرو یعنی استاد" اور "سکھ یعنی شاگرد یا سیکھنے والے" کا براہِ راست رشتہ ہے۔ "گرو گرنتھ صاحب"، نہ صرف مذہبی کتاب ہے بلکہ تاقیامت 11ویں "آخری گرو" اور چشمہ ہدایت ہے۔
- سکھوں کے لیے "پگڑی اور داڑھی" کے علاوہ "پانچ ککوں (5K)" یعنی "کیس (بال)، کنگا، کڑا، کچھا (زیرجامہ) اور کرپان (چھوٹی تلوار)" لازمی قرار دیے۔
- سکھ مردوں کے "سنگھ یعنی شیر" اور عورتوں کے لیے "کور یعنی شہزادی" کے نام لازم کیے۔
- مسلمانوں کے حلال گوشت کو کھانا حرام قرار دیا اور عورتوں کو پردہ کرنے کی ممانعت کر دی گئی۔ اس کے علاوہ خالص عربی/فارسی حروف کو اپنی مذہبی کتاب میں پڑھنے سے بھی روک دیا گیا اور تمباکو نوشی کو بھی منع کر دیا گیا تھا۔
مسلم سکھ دشمنی
پہلے سو سال یا پہلے چار گروؤں کی زندگی میں تو مغل حکمرانوں سے سکھوں کے تعلقات بڑے خوشگوار رہے لیکن 5ویں گرو ارجن دیو (1606-1563ء) کے دور سے سکھوں کی مسلمانوں سے تاریخی اور خونی دشمنی کا آغاز ہوا جب انھوں نے ایک نئے مذہب کا پرچار شروع کیا۔ یہ اسلامی نقطہ نظر سے گناہ کبیرہ، صریحاً گمراہی اور ایک ناقابلِ معافی جرم ہے جو "توہینِ مذہب" کہلاتا ہے اور اسی جرم میں انھیں سزائے موت دی گئی جو مسلم سکھ دشمنی کی بنیاد بنی۔
اپنے "مقدس گرو کی شہادت" کے بعد سکھوں نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنا شروع کیا جس کو سختی سے کچلا گیا۔ ردِعمل کے طور پر سکھوں نے مسلح جنگجو جتھوں کی شکل اختیار کر لی جو دن کو جنگلوں میں چھپ جاتے اور رات کو گوریلا کاروائیاں کرتے، لوٹ مار کرتے اور سرکاری قافلوں پر ڈاکے مارتے۔ ان کے علاوہ قتل و غارت گری کے علاوہ لوگوں سے بھتہ وصول کرتے اور امن و امان کے مسائل پیدا کرتے تھے۔ انھوں نے ریاست کو ٹیکس دینا بھی بند کردیا اور اپنے محصولات کا نظام جاری کردیا تھا۔
قریباً نصف صدی کے دورِ حکومت کے بعد شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر (1707-1618ء) کا انتقال ہوا تو اس کے جانشینوں کی اقتدار کی ہوس میں آپس کی لڑائیوں سے مغل سلطنت (1857-1526ء) کمزور ہونا شروع ہوگئی تھی۔ قیادت کی کمزوری کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے دو سو سال میں صرف چھ مغل حکمران رہے لیکن اگلے ڈیڑھ سو سال میں 14 حکمران بدلے۔
1735ء میں ایرانی بادشاہ نادر شاہ درانی (1747-1688ء) اور 1747ء سے افغان حکمران احمدشاہ ابدالی (72-1722ء) کے پے درپے حملوں نے مغل سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیا اور وہ مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہونا شروع ہوگئی۔ اس کا فائدہ ایک طرف انگریزوں نے اور دوسری طرف مرہٹوں نے اٹھایا۔ ان کی دیکھا دیکھی، پنجاب میں سکھ بھی شیر ہوگئے جن کی دیدہ دلیری کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے دہلی پر 19 حملے کیے اور لوٹ مار کر کے بھاگ جاتے تھے۔
سکھوں کا جنم پنجاب میں ہوا جہاں ان کے مختلف مسلح جنگجو جتھوں یا مثلوں نے اپنے اپنے علاقوں کی بندر بانٹ کی اور لوٹ مار کے لیے آپس میں دست و گریباں رہتے تھے۔ 1799ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ (1839-1780ء) کے "خالصہ راج" نے ان میں سے بیشتر کو متحد کیا اور نصف صدی تک پنجاب اور کشمیر پر حکومت کی۔ سکھوں کے اس دور کو مسلمان "سکھا شاہی" یعنی انتہائی ظلم و بربریت کا دور کہتے ہیں۔
1849ء میں انگریزوں نے سکھوں سے پنجاب چھینا تو مسلمانوں نے انھیں اپنا نجات دہندہ سمجھا تھا۔ یہی روایتی دشمنی تھی کہ جب قائدِاعظمؒ (1948-1876ء) نے سکھوں کے لیڈر ماسٹر تارا سنگھ (1967-1885ء) کو پاکستان میں شامل ہونے کی دعوت دی تو اس نے اپنی کرپان لہراتے ہوئے کہا تھا کہ "جو مانگے کا پاکستان، اس کو دیں گے قبرستان!!!"
اور ایسا ہی ہوا جب 1947ء میں قیامِ پاکستان کے موقع پر بھارتی پنجاب سے مسلمانوں کا صفایا کر دیا گیا اور اس کے بدلے میں پاکستانی پنجاب سے سکھوں اور ہندوؤں کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا تھا۔
مسلم سکھ دشمنی کے اہم ترین واقعات
سکھ تاریخ، مسلمانوں سے نفرت، عداوت اور بغض سے بھری پڑی ہے جس میں دروغ گوئی اور مبالغہ آرائی کی انتہا کی گئی ہے۔ سکھوں کے دس میں سے تین گرو، مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے، بے شمار جنگیں اور جھڑپیں ہوئیں جن میں ان کے مخالف عام طور پر مغل اور افغان مسلمان تھے جن پر سکھوں کے قتلِ عام اور انھیں زبردستی مسلمان بنانے کے الزامات بھی ہیں۔ مسلمانوں اور سکھوں کی اس تاریخی دشمنی کے چند اہم ترین واقعات درج ذیل ہیں:
-
چوتھے مغل بادشاہ جہانگیر (1627-1569ء) نے سکھوں کے 5ویں گرو ارجن دیو (1606-1563ء) کو قتل کروا دیا تھا۔ جہانگیر نے اپنی سوانح حیات "تزکِ جہانگیری" میں ارجن دیو کو ایک "جھوٹا سنت" قرار دیا جو سادہ لوح مسلمانوں اور ہندوؤں کو گمراہ کر رہا تھا اور "توہینِ مذہب" کا مجرم قرار پایا تھا، اس لیے سزائے موت کا شکار بنا۔ سکھوں کے نزدیک، گرو صاحب نے جہانگیر کے باغی بیٹے خسرو کو پناہ دی جس پر انھیں قلعہ لاہور میں سزائے موت دی گئی تھی۔
گرو ارجن دیو ہی کو سکھوں کا "پہلا شہید" کہا جاتا ہے جبکہ ان کی جانشینی پر تنازعہ ہوا اور پہلا سکھ فرقہ بھی وجود میں آیا تھا۔ - سکھوں کے چھٹے گرو ہرگوبند (1644-1595ء) نے اپنے والد، گرو ارجن دیو کے قتل کا انتقام لینے کے لیے سکھوں کو دو دو تلواریں رکھنے کا حکم دیا اور ایک عسکریت پسند گروپ بنا دیا تھا جس نے مغل حکومت کے خلاف بے شمار باغیانہ کاروائیاں کیں۔ اس جرم کی پاداش میں مغل شہنشاہ جہانگیر نے گرو ہرگوبند کو بارہ سال تک گوالیار کے قلعے میں قید رکھا اور معافی تلافی کے بعد رہا کر دیا تھا۔
- سکھوں کے 9ویں گرو تیغ بہادر (75-1621ء) کا چھٹے مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر (1707-1618ء) کے دور میں باغیانہ سرگرمیوں، توہینِ ادیان اور لوگوں سے بھتہ وصول کرنے کے جرم میں دہلی میں لال قلعہ کے باہر چاندنی چوک میں سرعام سر قلم کردیا گیا تھا۔ وہ روحانیت کا کوئی ثبوت دینے میں بھی ناکام رہے تھے جبکہ سکھ روایات کے مطابق، انھوں نے کشمیری پنڈتوں کو اورنگزیب کے ظلم و تشدد سے بچانے کے لیے قربانی دی تھی۔
-
سکھوں کے 10ویں اور آخری گرو گوبند سنگھ (1708-1666ء) بھی مغلوں کے خلاف ایک جھڑپ میں مارے گئے تھے۔ انھوں نے 1699ء میں جہاں سکھ مذہب کا باقاعدہ آغاز کیا وہاں سکھوں کو ایک مسلح، جنگجو اور باغی گروپ بنا دیا جس پر مغل حکومت نے بڑی سختی کی۔ "چمکور کی جنگ" (1704ء) میں گرو صاحب، خود تو جان بچا کر بھاگ نکلے لیکن ان کے چاروں بیٹے مارے گئے تھے۔
اس شکست کے بعد گرو گوبند سنگھ نے اورنگزیب کو ایک خط لکھا جو تاریخ میں "ظفرنامہ" کے نام سے مشہور ہوا۔ اس فارسی خط میں جہاں انھوں نے اپنی "اخلاقی فتح" کا دعویٰ کیا وہاں اورنگزیب پر قرآن پر حلف اٹھا کر مکرنے کا الزام بھی عائد کیا جس میں ان کی جان بخشی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ موصوف نے اس خط میں یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ان کے صرف 40 افراد کے خلاف "دس لاکھ سے زائد مغل فوج" نے حملہ کیا تھا۔
اگر مسلم سکھ دشمنی نہ ہوتی۔۔!
مندرجہ بالا تاریخی حقائق کی روشنی میں دیکھیں تو اگر مسلم سکھ دشمنی نہ ہوتی تو آج صوبہ پنجاب متحد ہوتا اور مسلم اکثریت کی وجہ سے پاکستان میں ہوتا۔ گویا، پاکستان کی سرحدیں دریائے جمنا تک ہوتیں اور دہلی بھی پاکستان میں ہوتا جیسا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی ڈیمانڈ تھی۔
آج کے سوشل میڈیا کے دور میں جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سکھوں کو پاکستان سے کتنی گہری دلچسپی ہے تو حیرت نہیں ہوتی۔ ان کے بیشتر مذہبی مقامات تو پاکستان میں ہیں ہی مگر یہ پنجابی زبان ہی ہے جو ہمیں ان سے ایسے ہی ملاتی ہے جیسے ہمارے اردو بولنے والوں کو ہندی بولنے والوں سے ملاتی ہے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہب ہر انسان کی زندگی کا لازمی حصہ ہوتا ہے جس کا اثر ہماری تہذیب و تمدن، بول چال اور سوچ بچار پر بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں پنجابی زبان بھی تین مذاہب یعنی "مسلم، ہندو اور سکھ" حصوں میں تقسیم ہے۔
"سکھی پنجابی" کیوں؟ "انڈین پنجابی" کیوں نہیں؟
تاریخ کے ایک طالبِ علم ہونے کے ناطے میں نے دانستہ طور پر "سکھی پنجابی" کی اصطلاح استعمال کی ہے اور اس کو "انڈین یا بھارتی پنجابی"، اس لیے نہیں کہا کہ بھارت میں پنجابی زبان صرف سکھوں کی زبان اور پہچان بن کر رہ گئی ہے حالانکہ ان مضامین پر تحقیق کے دوران بے شمار ویڈیوز دیکھے اور انکشاف ہوا کہ ہماچل پردیش کی 70فیصد اور مقبوضہ کشمیر کی 40فیصد آبادی، پنجابی زبان کی مختلف بولیاں بولتی ہیں جبکہ دہلی، ہریانہ اور راجستھان میں بھی پنجابی بولنے والوں کی بڑی تعداد آباد ہے جو ہندو ہے لیکن سکھوں کی پنجابی زبان پر اجارہ داری کی وجہ سے خود کو پنجابی نہیں کہتی یا سمجھتی۔
بھارت میں مجموعی طور پر پنجابی بولنے والوں کی کل تعداد سے بھی تین گنا زیادہ افراد پاکستان میں آباد ہیں جو مسلمان ہیں اور پنجابی بولتے ہیں لیکن لکھنا پڑھنا نہیں جانتے کیونکہ ان کی مادری زبان ذریعہ تعلیم نہیں ہے۔ پاکستانی پنجاب میں سکھوں اور ہندوؤں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس تحقیق کے دوران ایک پرکشش، انتہائی ذہین اور چرب زبان سکھ استانی کے ویڈیوز بڑے غور سے دیکھے اور خاص طور پر "پنجابی گرامر" کے ویڈیوز کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کی مگر مجال ہے کہ "سکھی پنجابی کی گرامر" کی کوئی ایک بھی سنسکرت زدہ اصطلاح سمجھ میں آئی ہو۔
پہاڑی بولیاں یا پنجابی بولیاں؟
بھارت کے شمال مشرقی پہاڑی علاقوں میں کشمیر اور پنجاب سے ملحق پہاڑی علاقوں کے لیے "پہاڑی بولیوں یا Western Pahari" کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں جو اصل میں پنجابی بولیوں کا ایک پہاڑی سلسلہ ہے جو پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے شمال مشرق میں واقع ہندوکش کے پہاڑوں سے شروع ہوکر جنوب کی طرف، آزاد کشمیر اور مقبوضہ جموں و کشمیر سے ہوتا ہوا بھارتی ریاست ہماچل پردیش کے سرمائی دارالحکومت شملہ تک جا پہنچتا ہے۔ اس پہاڑی سلسلے میں "ہندکو، پوٹھواری، پونچھی، میرپوری، گوجری، ڈوگری، کانگڑی، چمبیالوی، منڈیالوی، کولوئی، گدیالوی اور بلاس پوری" جیسی پنجابی بولیاں بولی جاتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر ان مختلف پنجابی بولیوں کے ویڈیوز بڑا مزہ دیتے ہیں جس سے پنجابی زبان کی وسعت، بول چال اور مختلف علاقوں کی تہذیب و تمدن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
پنجابی زبان اور ہندو
پنجابی زبان کا تعلق وادی سندھ کی تہذیب سے ہے اور یہ کبھی ہندوؤں کی زبان ہوتی تھی جو دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ مسلمانوں کے بعد سکھوں سے سخت نظریاتی اختلافات اور قوم پرستی کے شدید جذبات سے مغلوب ہو کر تقسیم کے بعد ہندوؤں نے اپنی پنجابی شناخت تک کو خیرآباد کہہ دیا حالانکہ تعداد میں وہ سکھوں سے دگنے تھے اور زیادہ تر علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ بھارتی پنجاب کا دوآبی علاقہ (جالندھر) وغیرہ میں آج بھی ہندو پنجابیوں کی اکثریت آباد ہے جبکہ اس ریاست کے دیگر چند اضلاع میں بھی ہندوؤں کی تعداد سکھوں سے زیادہ ہے۔
1947ء سے قبل، متحدہ پنجاب میں مسلمانوں کی 53 فیصد آبادی کے بعد ہندوؤں کی 30 فیصد آبادی ہوتی تھی۔ سکھ، صرف 15 فیصد کے لگ بھگ تھے۔ تقسیم کے بعد 56 فیصد پنجاب، پاکستان کو اور 44 فیصد بھارت کو ملا جس میں موجود ریاستیں، ہریانہ اور ہماچل پردیش بھی شامل تھیں۔
ہندی، ہندو اور ہندوستان
آزادی کے بعد سکھوں کو اپنی قومی، مذہبی اور لسانی شناخت کااحساس بڑی شدت سے ہوا جن کے مقدس ترین مقام، گولڈن ٹمپل کے علاوہ تقریباً دیگر سبھی مذہبی مقامات بھی خطہ پنجاب ہی میں واقع ہیں۔سکھ مذہب کے ماننے والے پنجاب تک ہی محدود رہے ہیں لیکن کبھی اکثریت میں نہیں رہے اور نہ ہی انھیں کبھی بین الاقوامی قبولیت حاصل ہوئی۔ سکھوں کی پہچان صرف اور صرف پنجاب سے منسلک ہے جس کی زبان، کلچر اور تاریخ کا وہ حصہ ہیں۔
سکھوں کی اس پنجابی شناخت کے برعکس، پورے بھارت کی طرح پنجاب میں بھی ہندوؤں کو "ہندی، ہندو اور ہندوستان" کے نعروں نے بے حد متاثر کیا تھا جو 19ویں صدی میں "اردو ہندی تنازعہ" کی وجہ سے ہندو مسلم کشیدگی کا باعث بنے تھے۔ اس لسانی تحریک میں کامیابی سے ہندوؤں نے فارسی زدہ "ہندوستانی" زبان کو دیوناگری رسم الخط میں لکھنے کا اپنا دیرینہ مطالبہ انگریز حکمرانوں سے منظور کروا لیا تھا لیکن اس سے "اردو"، مسلمانوں کی اور "ہندی"، ہندوؤں کی دو الگ الگ زبانیں بن گئی تھیں۔
پنجاب میں بھی ہندوؤں نے اپنی مذہبی زبان سنسکرت سے متاثرشدہ قومی زبان، "ہندی" کو اپنی پہچان قرار دے دیا اور اپنی مادری زبان، "پنجابی" کو بھی ہندی زبان کی ایک بولی قرار دینے لگے تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ہندوؤں کی اکثریت ہریانہ اور ہماچل پردیش کی ریاستوں میں آباد تھی جہاں اکثریتی زبان ہندی یا اس کی پنجابی کی ملاوٹ شدہ بولیاں مثلاً "ہریانوی، باگڑی، پوادھی" وغیرہ بولی جاتی تھیں۔ ان کے برعکس، سکھوں کی آبادی کی اکثریت خالص پنجابی بولنے والے علاقوں میں تھی اور سکھوں کا مذہبی ورثہ بھی صرف پنجاب کے ساتھ منسلک تھا۔ ان حالات نے "ہندو سکھ کشیدگی" کی راہ ہموار کردی تھی۔
ہندو سکھ کشیدگی
1947ء میں انگریز راج (1947-1757ء) کے خاتمے اور پاکستان اور بھارت کے قیام کے بعد کئی نئے مسائل ابھرے جن میں زبان کا مسئلہ زیادہ گھمبیر تھا۔ پاکستان میں اگر "اردو بنگالی جھگڑا" تھا تو بھارت میں "ہندی دراوڑی" کے علاوہ دیگر بڑے لسانی مسائل نے سر اٹھایا۔ بھارت کی ہر ریاست کی اپنی اپنی زبان اور اس کی اپنی اپنی تاریخ رہی ہے جس پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں تھا لیکن بھارتی وزیرِاعظم جواہر لال نہرو (1964-1889ء) کی خواہش تھی کہ صرف ہندی ہی پورے بھارت کی قومی زبان بنے۔
سکھوں نے بھی اپنے صوبے اور زبان کے لیے سیاسی جدوجہد شروع کردی جو طویل، پرتشدد اور خونی ثابت ہوئی۔ بتایا جاتا ہےکہ گولڈن ٹمپل پر حملہ صرف اندراگاندھی (84-1917ء) ہی نے نہیں بلکہ اس کے باپ نہرو نے بھی کیا تھا جس کی زندگی میں سکھ اپنے مطالبات منظور نہ کروا سکے تھے۔ بالآخر 1962ء کی ہندچینی جنگ اور 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سکھوں کی کارکردگی سے متاثر ہوکر بھارتی حکومت نے انھیں الگ صوبہ دینے کا مطالبہ منظور کر لیا اور یہ صوبہ صرف لسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ مذہبی بنیادوں پر بھی قائم ہوا تھا جس میں سکھوں کی اکثریت تھی۔
"سکھ صوبہ پنجاب" کا قیام
19 سالہ طویل جدوجہد کے بعد یکم نومبر 1966ء کو موجودہ بھارتی صوبہ پنجاب یا حقیقت میں "سکھ صوبہ پنجاب" کی تشکیل ہوئی جس کی سرکاری زبان پنجابی قرار پائی جو گورمکھی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور یہی ذریعہ تعلیم بھی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت تک اردو ہی بھارتی پنجاب کی بھی سرکاری اور تعلیمی زبان تھی۔ ہریانہ اور ہماچل پردیش کو پنجاب سے الگ کر کے الگ ہندی (اور ہندو) ریاستیں بنا دیا گیا تھا۔
موجودہ بھارتی صوبہ پنجاب میں 2011ء کی مردم شماری کے مطابق، سکھوں کی تعداد 58 فیصد اور ہندوؤں کی 38 فیصد ہے۔ مسلمان، صرف 2 فیصد ہیں جو کبھی بھارتی پنجاب کے کئی اضلاع میں اکثریت میں تھے لیکن 1947ء کےخونی فسادات میں ان کا صفایا کردیا گیا تھا۔
پنجابی ہندوؤں کی بڑی تعداد دیگر ریاستوں اور دہلی کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے جموں کے علاقے میں آباد ہے جن کی پنجابی زبان کی ایک بولی "ڈوگری" کو 1969ء میں ایک الگ زبان کا درجہ دیا گیا تھا جو سراسر ایک سیاسی فیصلہ تھا۔
گرمکھی رسم الخط

"سکھی پنجابی"، "گرمکھی" رسم الخط میں لکھی جاتی ہے جو ہندوستان کے قدیم "براہمی" طرزِ تحریر سے ماخوذ ہے اور موجودہ "دیوناگری" رسم الخط کی نقل اور ترتیب ہے جس میں بیشتر حروف کی شکل، بقول ہندوؤں کے، "بگاڑ" دی گئی ہے۔
سکھوں کے دوسرے گورو انگد (1552-1504ء) نے "گرمکھی" رسم الخط کا اجراء کیا جس کو پانچویں گرو ارجن دیو (1606-1563ء) نے سکھوں کی مذہبی کتاب "گرو گرنتھ صاحب" کی ترتیب و تدوین میں پہلی بار استعمال کیا تھا۔
1970 کی دھائی تک "گرمکھی"، صرف سکھوں کی مذہبی کتابوں، بالخصوص گروگرنتھ صاحب تک محدود رہی جو تقسیم سے قبل پنجاب بھر میں صرف "خالصہ سکولوں" میں پڑھائی جاتی تھی لیکن 1966ء میں نئے صوبہ یا ریاست پنجاب کی تشکیل اور گرمکھی کو سرکاری طرزِ تحریر بنانے کے بعد یہ "سکھوں کی پنجابی زبان" کی عالمی پہچان بن چکی ہے۔
گرمکھی رسم الخط کے چند حقائق
- "گرمکھی" میں لکھی گئی سکھوں کی مقدس کتاب "گرو گرنتھ صاحب" میں کل 35 حروف تھے جن میں پہلے تین Vowels ہیں جبکہ باقی 32 Consonants ہیں۔ ان کے علاوہ کئی حروفِ علت اور مرکب حروف ہیں جو حروفِ تہجی میں نہیں لکھے جاتے لیکن پڑھے جاتے ہیں۔
- سکھوں کے دسویں اور آخری گرو گوبند سنگھ (1708-1666ء) نے "گرمکھی" کی لپی میں مزید پانچ "غیرپنجابی یا غیر مقامی یعنی فارسی" حروف یعنی "ش،خ،غ،ز اور ف" کا اضافہ کیا لیکن مسلمانوں سے سخت نفرت کی وجہ سے ان حروف کو مذہبی کتاب میں پڑھنے سے منع کیا جاتا ہے حالانکہ "ش" ایک عام حرف ہے جو بے شمار الفاظ میں استعمال ہوتا ہے اور اگر اس کی جگہ کوئی دوسرا حرف استعمال کیا جائے تو مفہوم تک بدل جاتا ہے۔ مثلاً "شیر" کو "سیر" اور "شالا" کو "سالا" پڑھنا کتنا عجیب لگتا ہے۔
- 1966ء میں بھارتی پنجاب کا سرکاری رسم الخط "گرمکھی" قرار پایا تو مزید حروف کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس طرح سے "ل" اور "ن" میں "ڑ" کی ملی جلی آوازوں کا اضافہ کیا گیا جو متعلقہ آوازوں کے حروف کے نیچے ہندی کی طرح ایک بندی، ڈاٹ یا نقطہ لگا کر کیا گیا۔
- اس طرح سے کل 41 حروف ہوئے لیکن ان میں بھی مزید آوازوں کا اضافہ کیا جاتا ہے کیونکہ گرمکھی میں ہندی کی طرح متعدد "ہائیہ حروف" نہیں ہیں جیسے کہ "رھ، ڑھ، لھ، نھ، مھ" وغیرہ۔ اسی طرح "بھ، جھ، دھ، ڈھ اور گھ" کے حروف تو ہیں لیکن ان کے ڈبل پنجابی تلفظ نہیں ہیں۔
گورمکھی حروف کے تلفظ
گورمکھی حروف تہجی جس کو "لپی اور پینتی" یعنی "35 حروف والی پٹی" بھی کہتے ہیں۔ 1950/60 کی دھائیوں میں "پنجاب صوبہ تحریک" اور "ہندوسکھ کشیدگی" کے دوران ان حروف کے تلفظ کا خوب مذاق اڑایا گیا اور ہندو پنجابیوں نے اس کو اپنانے سے انکار کر دیا تھا۔ ہندو، پنجابی زبان کو ہمیشہ سے دیوناگری میں لکھتے آئے ہیں۔ گورمکھی کی پوری پٹی ملاحظہ فرمائیں:
اُووڑا، ایڑا، ایڑی، سسا، ہاہا
ککا، کھکھا، گگا، گھگھا،ننگا
چچا، چھچھا، ججا، جھجھا، ننیا
ٹینکا (ٹٹا)، ٹھٹھا، ڈڈا، ڈھڈھا، نڑانا
تتا، تھتھا، ددا، دھدھا، ننھا
پپا، پھپھا (ففا)، ببا، بھبھا،مما
ییا، رارا، للا، واوا، ڑاڑا
ششا، خخا (کھکھا)، غغا، ززا، ففا، لڑا
"سکھ پنجابی" کی بولیاں/لہجے
"سکھوں کی پنجابی" کی بنیاد بھی "پاکستانی پنجابی" کی طرح "ماجھی" بولی ہے جس کا مرکز امرتسر کا ایک گاؤں ہے۔ موجود بھارتی پنجاب کے 4 اور پاکستانی پنجاب کے 14 اضلاع میں یہ اکثریتی بولی بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت میں "مالوی، دوآبی، پوادھی، کانگڑی، ڈوگری اور گوجری" وغیرہ، پنجابی زبان کی دیگر بڑی بڑی بولیاں ہیں۔
مالوی
مالوی (Malwai)، بھارتی پنجاب کی سب سے زیادہ بولی جانے والی پنجابی بولی (dialect) ہے۔
"پنجابی زبان" کی یہ بولی، دریائے ستلج اور "ماجھی" بولی کے جنوبی علاقوں میں بولی جاتی ہے جو بھارتی پنجابی کا سب سے بڑا علاقہ ہے اور جس کا صدر مقام لدھیانہ ہے۔ انبالا، فیروزپور، فاضلکا، فریدکوٹ، موگا، بٹھنڈہ، سنگرور، پٹیالہ، برنالا، مکتسر وغیرہ کی اکثریتی آبادی یہ بولی بولتی ہے۔ اس کے علاوہ "مالوی" بولی، ہریانہ اور راجستھان میں بھی بولی جاتی ہے۔
پاکستان میں "مالوی" بولی، ویہاڑی، بہاولنگر اور ننکانہ صاحب کے اضلاع میں ہندوستانی مہاجرین بولتے ہیں۔
مالوی کی خصوصیات
"مالوی" بولی میں "اُو" کا بہت استعمال ہوتا ہے مثلاً "آئے گا" کو مالوی میں "آؤگا" کہا جاتا ہے۔ اسی طرح کئی الفاظ میں "ل" کی جگہ "ر" بولی جاتی ہے۔
دوآبی
دوآبی (Doabi)، پنجابی زبان کی ایک بولی (dialect) ہے۔
"سکھ پنجابی" کی بڑی بولیوں میں سے ایک "دوآبی" ہے جو بھارتی پنجاب میں دریائے بیاس اور ستلج کے درمیانی علاقے میں بولی جاتی ہے۔ جالندھر، ہوشیارپور، نگر اور کپورتھلا، اس بولی کے بڑے اضلاع ہیں۔
"دوآبی" بولی، پاکستان کے تیسرے بڑے شہر فیصل آباد (لائلپور) اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی بولی جاتی ہے۔ یہ وہ زمیندار طبقہ لوگ تھے جنھیں انگریز دور میں نہری نظام کی برکت سے بننے والی نئی زرعی زمینوں پر کام کرنے کے لیے بطورِ خاص بلایا گیا تھا۔
دوآبی، ہندو پنجابیوں کی بولی؟
"دوآبی" بولی بولنے والی آبادی کی اکثریت ہندو پنجابیوں پر مشتمل ہے جو بھارتی صوبہ پنجاب کے ضلع جالندھر (64فیصد)، ہوشیارپور (63فیصد) اور نگر (66فیصد) کے علاوہ "ماجھی" بولنے والے اضلاع، پٹھانکوٹ (88فیصد) اور گورداسپور (47فیصد) اور "مالوی" بولنے والے ضلع فاضلکا (54فیصد) میں آباد ہیں۔
تقسیم سے قبل، امرتسر سمیت ان میں سے بیشتر اضلاع میں مسلمان اکثریت میں ہوتے تھے لیکن اب ان کی کل تعداد دو فیصد سے بھی کم ہے۔ ان کی جگہ پاکستان سے جانے والے ہندوؤں (اور سکھوں) نے لے لی تھی جبکہ سکھ صرف ایک ضلع لدھیانہ میں اکثریت میں ہوتے تھے۔ دوسری طرف، پاکستانی پنجاب کے کسی ایک بھی ضلع میں ہندوؤں اور سکھوں کی اکثریت نہیں ہوتی تھی۔
"دوآبی" بولی، پنجابی زبان کی دیگر بولیوں، "ماجھی، مالوی، پوادھی اور کانگڑی" میں گری ہوئی ہے۔ "دونا" اور "منجکی"، اس کے دیگر لہجے (accent) ہیں۔
دوآبی بولی کی خصوصیات
"دوآبی" بولی میں "و" کو"ب" اور "ش" کو "چ" کے حروف سے بدل دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جملے کو بھی معیاری پنجابی (ماجھی) کے مقابلے میں لمبا کر دیا جاتا ہے مثلاً اگر یہ کہنا ہو کہ "او کردا سی۔۔" (وہ کرتا تھا) تو دوآبی میں کہتے ہیں "او کردا سی گا۔۔" یا "اسیں کردے سی۔۔" (ہم کرتے تھے) کو "آپاں کردے سی گے۔۔" بولتے ہیں۔
پوادھی
پوادھی (Puadhi) بھی پنجابی زبان کی ایک بولی (dialect) ہے جو بھارتی پنجاب میں بولی جاتی ہے۔
"پوادھی بولی"، بھارتی صوبہ پنجاب اور ہریانہ کی سرحد پر واقع دریائے ستلج اور گھاگھری کے درمیان "پوادھ" کے علاقے میں ضلع روپ نگر کے علاوہ پٹیالہ، امبالہ اور مشترکہ دارالحکومت چندی گڑھ کے علاوہ ہماچل پردیش کے کچھ علاقوں میں بھی بولی جاتی ہے۔
"پوادھی" کا لفظ، سنسکرت کے لفظ "پوروا اردھ" سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے: "مشرق کی طرف کا آدھا علاقہ"، اسی لیے اس خطے کے لوگوں کو "پوادھی" اور وہاں بولی جانے والی بولی کو "پوادھی" کہا جاتا ہے۔
پوادھی بولی کی خصوصیات
"پوادھی" بولی پر ہمسایہ بولی ہریانوی/ہندی کا بڑا اثر ہے مثلاً "ساڈا" اور "تہاڈا" کو "مہارا" اور "تہارا" کہا جاتا ہے۔ یہ بولی بھی شمال میں "دوآبی" اور مغرب میں "مالوی" کی طرح گورمکھی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور بولنے والوں کی اکثریت سکھوں کی ہے۔
ڈوگری
"ڈوگری" (Dogri) کو ایک الگ زبان (language) تسلیم کیا گیا ہے حالانکہ یہ پنجابی زبان کی ایک بولی (dialect) ہے۔۔!
"ہند آریائی" (Indo-Aryan) زبانوں کے گروپ سے تعلق رکھنے والی "ڈوگری زبان"، مقبوضہ کشمیر میں جموں کے ہندوؤں کی اکثریتی زبان ہے جس کو ایک پنجابی سمجھنے والا بغیر کسی مترجم کے باآسانی سمجھ لیتا ہے لیکن بھارتی آئین میں 1969ء میں پہلی بار "ڈوگری" کو "پنجابی" سے ایک الگ زبان کے طور پر شمار کیا گیا ہے۔
"ڈوگری" زبان، بھارت کی 22 شیڈول زبانوں اور مقبوضہ کشمیر کی پانچ سرکاری زبانوں (اردو، کشمیری، انگریزی، ہندی اور ڈوگری) میں سے ایک ہے جو جموں کے علاوہ بھارتی ریاستوں ہماچل پردیش اور پنجاب کے شمال اور پاکستانی پنجاب کے سرحدی علاقوں میں بھی بولی جاتی ہے۔
"ڈوگری" زبان کا لسانی تعلق پنجابی زبان کی شمالی بولی "پوٹھواری" سے زیادہ ہے اور اس کی کئی ایک پہاڑی شاخیں بھی ہیں۔ یہاں مثلاً "گئے نیں" (گئے ہیں) کہنا ہو تو "گئے دے نیں" کہا جاتا ہے۔
ڈوگری، پنجابی کیوں نہیں؟
یکم نومبر 1966ء کو جب 19 سالہ طویل جدوجہد اور شدید ہندو سکھ کشمکش کے بعد لسانی اور مذہبی بنیادوں پر موجودہ بھارتی صوبہ پنجاب کی تشکیل ہوئی تو اردگرد کے علاقوں (کشمیر، ہماچل پردیش، ہریانہ، دہلی اور راجستھان) کے ہندو پنجابیوں نے سکھوں کی پنجابی زبان پر اجارہ داری اور سکھوں کی مذہبی تحریر "گرمکھی" کو سرکاری لپی بنانے پر بطور احتجاج اپنی پنجابی شناخت ترک کر دی لیکن اپنی پنجابی بولی نہ بدل سکے تھے۔
1969ء میں ماہرینِ لسانیات کی سفارش پر "ڈوگری" کو ایک الگ زبان کا درجہ دے دیا گیا جو سراسر ایک سیاسی فیصلہ تھا۔ اس کا واضح نتیجہ یہ نکلا کہ ہماچل پردیش کی دیگر پہاڑی پنجابی بولیوں سمیت سب سے بڑی پنجابی بولی "کانگڑی" کو بھی ہندی بولیوں میں شمار کیا جانے لگا۔
ڈوگری حروفِ تہجی
"ڈوگری زبان" کو بھارت میں دیوناگری رسم الخط میں لکھا جاتا ہے جبکہ مسلمان، عربی/فارسی رسم الخط میں لکھتے ہیں اور حروفِ تہجی مکمل طور پر اردو/پنجابی سے ملتا ہے۔ ریڈیو جموں سے بیشتر پروگرام اسی زبان میں نشر ہوتے ہیں۔
کانگڑی
کانگڑی (Kangri) بھی پنجابی زبان کی ایک بولی (dialect) ہے جو ہماچل پردیش میں بولی جاتی ہے۔
"ہندآریائی" (Indo-Aryan) زبانوں کے گروپ سے تعلق رکھنے والی "کانگڑی" زبان، پنجابی/ڈوگری کی ایک بولی ہے لیکن 1971ء کی مردم شماری میں بھارتی حکومت نے پہلی بار اس کو ہندی زبان کی بولیوں میں شمار کیا جو کسی طور پر بھی درست نہیں ہے۔ یاد رہے کہ 1966ء سے قبل ہماچل پردیش، بھارتی صوبہ پنجاب کا ایک حصہ تھا۔
"کانگڑی زبان"، ہماچل پردیش کے سب سے بڑے ضلع کانگڑہ اور دھرم شالا کے علاوہ منڈی، چمبہ اور بھارتی پنجابی علاقوں گورداسپور اور ہوشیارپور وغیرہ میں بھی بولی جاتی ہے۔ 1947ء سے یہاں سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے بہت سے افراد یہ بولی بولتے ہیں۔
"کانگڑی" زبان کا ایک لہجہ "بلاسپوری/کلہوری" بھی کہلاتا ہے جو ہماچل پردیش میں ایک چھوٹی سی ہندو ریاست کی بولی ہوتی تھی۔
"کانگڑی زبان" کو "ٹکری" اور دیوناگری رسم الخط میں لکھا جاتا ہے اور بولنے والوں کی اکثریت، ڈوگری زبان کی طرح ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔
چمبیالی
چمبیالی (Chambeali)، بھارتی ریاست ہماچل پردیش کے شمال مشرقی علاقہ، ضلع چمبہ میں پنجابی زبان کی پہاڑی بولیوں کا ایک سلسلہ ہے۔ یہاں بولی جانے والی دیگر دو بولیاں، "گدی" اور "بھٹیالی" بھی ملتی جلتی ہیں لیکن "چراہی" اور "پنگوالی" بالکل مختلف ہیں۔
کولوئی
کولوئی (Kullui)، بھارتی ریاست ہماچل پردیش کے وسطی ضلع "کولو" میں بولی جانے والی ایک پہاڑی شاخ ہے جو ایک پنجابی بولنے والا آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔
منڈیالوی
منڈیالی (Mandeali)، بھارتی ریاست ہماچل پردیش کے وسط میں منڈی کے ضلع میں بولی جانے والی پنجابی زبان کی ایک شاخ ہے۔ اس کے مشرق میں "کولوی"، شمال میں "کانگڑی" اور مغرب میں "بلاس پوری" کی پنجابی بولیاں بولی جاتی ہیں جبکہ جنوب میں شملہ کی بولی ان سے بالکل مختلف ہے۔
بلاسپوری
بلاسپوری یا کہلوری (Bilaspuri)، بھارتی ریاست ہماچل پردیش پنجاب سے ملحق علاقے میں بولی جاتی ہے۔ اس کے دو اطراف ہماچل پردیش کی دیگر پنجابی زبانیں، "کانگڑی" اور "منڈیالی" بولی جاتی ہیں جبکہ جنوب میں "ہندوری" بولی بھی پنجابی زبان کی ایک شاخ ہے۔ مشرق کی طرف صوبہ پنجاب میں پنجابی زبان کی بولی "دوآبی" بولی جاتی ہے۔
بھٹیانی
بھٹیانی (Bhatiani)، پنجابی زبان کی "مالوی بولی" کا ایک لہجہ (accent) ہے۔
بھارتی صوبہ پنجاب کے جنوب میں حصار اور بیکانیر کے علاقوں میں "بھٹیانی" بولی جاتی ہے جو "مالوی" اور "ہریانوی" کی ایک ملی جلی بولی ہے۔ بیکانیر کے رانوں کی مخصوص زبان ہے۔
راٹھوری
راٹھی (Rathi)، پنجابی زبان کی "مالوی بولی" کا ایک لہجہ (accent) ہے۔
بھارتی صوبہ پنجاب کے جنوب میں ہریانہ کے بارڈر پر بٹھنڈہ، مکستر اور منسا کے اضلاع میں بولی جاتی ہے۔ یہ بولی "مالوی، بھٹیانی، باگڑی" اور ہریانوی کے درمیانی علاقوں میں بولی جاتی ہے۔
بازیگر
"بازیگر" (Bazigar) بھی پنجابی زبان کی ایک بولی (dialect) ہے جو کبھی مداریوں کی زبان ہوتی تھی۔
پنجابی زبان کی اس بولی کو بعض ماہرین نامعلوم زبان قرار دیتے ہیں حالانکہ وکی پیڈیا پر موجود ویڈیو دیکھ کر صاف اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ پنجابی زبان کی ایک شاخ ہے جو ماضی میں شمالی ہندوستان اور پاکستان کے پنجاب کے علاقوں میں کرتب دکھانے والے مداری لوگ استعمال کرتے تھے۔ ان کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد بیان کی جاتی ہے اور زیادہ تر پاکستان سے ہجرت کرکے بھارت میں آباد ہوئے۔
ان لوگوں کی ایک خوبی یہ تھی کہ خفیہ بات کرنے کے لیے عجیب و غریب قسم کی زبان بولتے تھے جو کسی اور کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ یہ زبان بھی معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔
بانوالی
بانوالی (Banawali)، پنجابی زبان کی "مالوی بولی" کا ایک لہجہ (accent) ہے۔
بھارتی صوبہ پنجاب کے جنوب میں سرسہ اور حصار کے علاقے میں "بانوالی" بولی جاتی ہے جو "مالوی" اور "ہریانوی" کی ایک ملی جلی بولی ہے۔
لبانکی
لبانکی (Lubanki)، پنجابی زبان کی "مالوی بولی" کا ایک لہجہ (accent) ہے جو لبانا قبیلہ بولتا ہے۔ یہ بولی بھی معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔
Pakistan Linguistic Database
Pakistan Linguistic Database on PAK Magazine contains information on 173 languages, dialects and accents.
12 main languages
Details on main languages in Pakistan.
1. | Arabic |
2. | Balochi |
3. | Brahui |
4. | English |
5. | Hindi |
6. | Hindko |
7. | Pashto |
8. | Persian |
9. | Punjabi |
10. | Saraiki |
11. | Sindhi |
12. | Urdu |
58 Languages
A complete list of languages of Pakistan.
No. | Language | Region | Group |
---|---|---|---|
1 | Aer | Sindh, Pakistan | Western Indo-Aryan, Gujarati |
2 | Arabic | The Muslim World | Semitic |
3 | Arsoniwar | Chitral, Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan |
4 | Badeshi | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Unclassified |
5 | Bagri | Punjab, Pakistan | Indo-Aryan |
6 | Balochi | Balochistan, Pakistan, Iran and Afghanistan | Western Iranian, Northwestern |
7 | Balti | Gilgit-Baltistan, Pakistan | Bodish, Ladakhi–Balti |
8 | Bashgaliwar | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan |
9 | Bateri | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Dardic Kohistani |
10 | Bengali | Bangladesh, India and Karachi, Pakistan | Indo-Aryan |
11 | Bhaya | Sindh, Pakistan | Indo-Aryan, Western Hindi |
12 | Brahui | Balochistan, Pakistan | Northern |
13 | Burushaski | Gilgit-Baltistan, Pakistan | South Asian |
14 | Chilisso | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Dardic, Kohistani |
15 | Dameli | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Dardic, Kunar |
16 | Dari | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan and Afghanistan | Western Iranian, Persian |
17 | Dogri | Jammu & Kashmir | Indo-Aryan, Northern, Western Pahari |
18 | English | the whole world | Germanic |
19 | Gawar-Bati | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Dardic, Kunar |
20 | Gawri | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Dardic, Kohistani |
21 | Ghera | Sindh, Pakistan | Indo-Aryan, Western Hindi |
22 | Goaria | Sindh, Pakistan | Indo-Aryan, Rajasthani |
23 | Gowro | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Dardic, Kohistani |
24 | Gujarati | Sindh, Pakistan | Western Indo-Aryan |
25 | Gurgula | Sindh, Pakistan | Western Indo-Aryan, Rajasthani |
26 | Hindi | India | Central Indo-Aryan, Western Hindi, Hindustani |
27 | Hindko | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Northwestern, Punjabic, Lahnda |
28 | Kalasha | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Dardic, Chitrali |
29 | Kalkoti | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Eastern Dardic, Shinaic |
30 | Kashmiri | Kashmir | Indo-Aryan, Dardic |
31 | Kati | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Nuristani |
32 | Khowar | Khyber Pakhtunkhwa and Gilgit-Baltistan, Pakistan | Indo-Aryan, Chitrali |
33 | Kohistani | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Eastern Dardic |
34 | Kundal Shahi | Azad Kashmir | Indo-Aryan, Eastern Dardic, Shinaic |
35 | Loarki | Sindh, Pakistan | Indo-Aryan, Western, Rajasthani |
36 | Marwari | Punjab, Sindh, Pakistan | Western Indo-Aryan, Rajasthani |
37 | Memoni | Sindh, Pakistan | Indo-Aryan, Northwestern, Sindhic |
38 | Mewati | Punjab and Sindh in Pakistan | Indo-Aryan |
39 | Oadki | Sindh, Pakistan | Western Indo-Aryan, Rajasthani |
40 | Ormuri | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Eastern Iranian |
41 | Palula | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Eastern Dardic |
42 | Parkari Koli | Sindh, Pakistan | Indo-Aryan, Western, Gujarati |
43 | Pashto | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan and Afghanistan | Eastern-Iranian |
44 | Persian | Iran and Balochistan, Pakistan | Western Iranian |
45 | Punjabi | Pakistani and Indian Punjab | Indo-Aryan, Northwestern |
46 | Sansi | Sindh, Pakistan | Indo-Aryan |
47 | Saraiki | Punjab, Pakistan | Indo-Aryan, Northwestern, Punjabic, Lahnda |
48 | Sarikoli | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Eastern-Iranian, Shugni-Yazgulami |
49 | Shina | Khyber Pakhtunkhwa, Gilgit-Baltistan and Kashmir | Indo-Aryan, Eastern Dardic |
50 | Sikhi Punjabi | Punjab, India | Indo-Aryan, Northwestern |
51 | Sindhi | Sindh, Pakistan | Indo-Aryan, Northwestern, Sindhic |
52 | Thall Lamenti | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan |
53 | Torwali | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Dardic, Kohistani |
54 | Urdu | Pakistan and India | Central Indo-Aryan, Western Hindi, Hindustani |
55 | Ushojo | Swat, Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Indo-Aryan, Eastern Dardic, Kohistani |
56 | Uyghur | Gilgit-Baltistan, Pakistan | Turkic |
57 | Wakhi | Gilgit-Baltistan, Pakistan, Afghanistan, Tajikstan and China | Eastern Iranian |
58 | Yidgha | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan | Eastern-Iranian |
64 Dialects
A list of known dialects of various languages in Pakistan.
No. | Dialect | Language | Region |
---|---|---|---|
1 | Bazigar | Punjabi | Punjab, Pakistan |
2 | Bilaspuri | Punjabi | Himachal Pradesh, India |
3 | Brokskat | Shina | Gilgit-Baltistan, Pakistan |
4 | Central Pashto | Pashto | Khyber Pakhtunkhwa , Pakistan |
5 | Chambeali | Punjabi | Himachal Pradesh, India |
6 | Cholistani | Punjabi/Saraiki | Punjab, Pakistan |
7 | Dawoodi | Burushaski | Gilgit-Baltistan, Pakistan |
8 | Dehwari | Persian | Balochistan, Pakistan |
9 | Derawali | Punjabi/Saraiki | Punjab, Pakistan |
10 | Dhatki | Sindhi | Sindh, Pakistan |
11 | Doabi | Punjabi | Punjab, Pakistan |
12 | Dogri | Punjabi | Jammu & Kashmir |
13 | Faraqi | Sindhi | Sindh, Pakistan |
14 | Gojri | Punjabi | Jammu & Kashmir |
15 | Hazargi | Persian | Balochistan, Pakistan |
16 | Hindko | Punjabi | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan |
17 | Jadgali | Sindhi | Sindh, Pakistan |
18 | Jandavra | Gujarati | Sindh, Pakistan |
19 | Jangli | Punjabi | Punjab, Pakistan |
20 | Jhalawani | Brahui | Balochistan, Pakistan |
21 | Jogi | Hindi | Sindh, Pakistan |
22 | Kabutra | Hindi | Sindh, Pakistan |
23 | Kachi Koli | Gujarati | Sindh, Pakistan |
24 | Kangri | Punjabi | Himachal Pradesh, India |
25 | Khetrani | Punjabi/Saraiki | Balochistan, Pakistan |
26 | Komviri | Pashto | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan |
27 | Koroshi | Balochi | Balochistan, Pakistan |
28 | Kullui | Punjabi | Himachal Pradesh, India |
29 | Kutchi | Sindhi | Sindh, Pakistan |
30 | Lari | Sindhi | Sindh, Pakistan |
31 | Lasi | Sindhi | Sindh, Pakistan |
32 | Madaklashti | Persian | Balochistan, Pakistan |
33 | Majhi | Punjabi | Punjab, Pakistan |
34 | Makrani | Balochi | Balochistan, Pakistan |
35 | Malwai | Punjabi | Punjab, India |
36 | Mandeali | Punjabi | Himachal Pradesh, India |
37 | Mankiyali | Hindko | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan |
38 | Mewari | Hindi | Sindh, Pakistan |
39 | Multani | Punjabi/Saraiki | Punjab, Pakistan |
40 | Northern Pashto | Pashto | Khyber Pakhtunkhwa , Pakistan |
41 | Pamir Kyrgyz | Kyrgyz | Gilgit-Baltistan, Pakistan |
42 | Pothwari | Punjabi | Northern Punjab, Pakistan |
43 | Puadhi | Punjabi | Punjab, Pakistan |
44 | Purgi | Balti | Gilgit-Baltistan, Pakistan and India |
45 | Rakhshani | Balochi | Balochistan, Pakistan |
46 | Rakhshani Brahui | Brahui | Balochistan, Pakistan |
47 | Rangri | Hindi | Punjab, Pakistan |
48 | Riasti | Punjabi/Saraiki | Punjab, Pakistan |
49 | Saraiki | Punjabi | Punjab, Pakistan |
50 | Saravani | Brahui | Balochistan, Pakistan |
51 | Saroli | Sindhi | Sindh, Pakistan |
52 | Sawi | Shina | Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan |
53 | Shahpuri | Punjabi | Punjab, Pakistan |
54 | Sindhi Bhil | Sindhi | Sindh, Pakistan |
55 | Sindhi Brahui | Brahui | Balochistan, Pakistan |
56 | Southern Pashto | Pashto | Khyber Pakhtunkhwa , Pakistan |
57 | Sulemani | Balochi | Balochistan, Pakistan |
58 | Thalochri | Punjabi/Saraiki | Punjab, Pakistan |
59 | Thareli | Sindhi | Sindh, Pakistan |
60 | Utradi | Sindhi | Sindh, Pakistan |
61 | Vaghri | Gujarati | Sindh, Pakistan |
62 | Wacholi | Sindhi | Sindh, Pakistan |
63 | Wadiyara Koli | Gujarati | Sindh, Pakistan |
64 | Waneci | Pashto | Balochistan, Pakistan |
53 Accents
A list of known accents of various dialects and languages in Pakistan.
No. | Accent | Dialect | Language |
---|---|---|---|
1 | Aajri | Hindko | Punjabi |
2 | Afridi | Northern Pashto | Pashto |
3 | Awankari | Pothwari/Hindko | Punjabi |
4 | Baar di Boli | Majhi | Punjabi |
5 | Banawali | Malwai | Sikh Punjabi |
6 | Bhattiani | Malwai | Sikh Punjabi |
7 | Bherochi | Shahpuri | Punjabi |
8 | Bugti | Sulemani | Balochi |
9 | Chenavri | Majhi | Punjabi |
10 | Chenhawri | Multani | Punjabi/Saraiki |
11 | Chhachhi | Pothwari/Hindko | Punjabi |
12 | Dhanni | Shahpuri/Hindko | Punjabi |
13 | Domki | Makrani | Balochi |
14 | Ghebi | Pothwari/Hindko | Punjabi |
15 | Hindki | Multani | Punjabi/Saraiki |
16 | Jaghdali | Derawali | Punjabi/Saraiki |
17 | Jandli | Pothwari | Punjabi |
18 | Jatki | Majhi | Punjabi |
19 | Jattatar | Majhi | Punjabi |
20 | Kachhi | Thalochri | Punjabi/Saraiki |
21 | Kachi | Majhi | Punjabi |
22 | Kalati | Rakhshani | Balochi |
23 | Kandahar | Southern Pashto | Pashto |
24 | Karachi | Makrani | Balochi |
25 | Kechi | Makrani | Balochi |
26 | Kohati | Hindko | Punjabi |
27 | Lammay di Boli | Majhi | Punjabi |
28 | Lashari | Makrani | Balochi |
29 | Lhori | Majhi | Punjabi |
30 | Lubanki | Malwai | Sikh Punjabi |
31 | Mandwani | Sulemani | Balochi |
32 | Mazari | Sulemani | Balochi |
33 | Mirpuri | Pothwari | Punjabi |
34 | Mulki | Thalochri | Punjabi/Saraiki |
35 | Pachhadi | Derawali | Punjabi/Saraiki |
36 | Pahari | Pothwari | Punjabi |
37 | Panjgori | Rakhshani | Balochi |
38 | Pashori | Hindko | Punjabi |
39 | Pindiwal | Pothwari | Punjabi |
40 | Poonchhi | Pothwari | Punjabi |
41 | Rachnavi | Majhi | Punjabi |
42 | Rathi | Jhangvi | Punjabi/Saraiki |
43 | Rathoori | Malwai | Sikh Punjabi |
44 | Sarawani | Rakhshani | Balochi |
45 | Sarhaddi | Rakhshani | Balochi |
46 | Shakargarh | Majhi | Punjabi |
47 | Sialkoti | Majhi | Punjabi |
48 | Sibi | Sulemani | Balochi |
49 | Swaen | Hindko | Punjabi |
50 | Ubhay di Boli | Majhi | Punjabi |
51 | Wazirabadi | Majhi | Punjabi |
52 | Waziri | Southern Pashto | Pashto |
53 | Yusufzai | Northern Pashto | Pashto |