PAK Magazine | An Urdu website on the Pakistan history
Thursday, 21 November 2024, Day: 326, Week: 47

PAK Magazine |  پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان ، ایک منفرد انداز میں


پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان

Annual
Monthly
Weekly
Daily
Alphabetically

جمعتہ المبارک 24 اکتوبر 1947

مسئلہ کشمیر

مسئلہ کشمیر

24 اکتوبر 1947ء کو آزاد کشمیر حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا جس کے صرف دو دن بعد 26 اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ کشمیر نے ریاست کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کر دیا تھا۔۔!

3 جون 1947ء کو تقسیم ہند کے منصوبے کے مطابق مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان اور ہندو اکثریت کے علاقے بھارت میں شامل ہونا تھے لیکن ریاستوں کے بارے میں ایسا کوئی منصوبہ نہیں تھا کہ وہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوں گی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان کے گیارہ صوبے تو براہ راست برطانوی اختیار میں تھے لیکن 562 ریاستیں اندرونی طور پر خودمختار تھیں جنھیں یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ چاہیں تو آزاد رہیں یا پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک میں ضم ہو جائیں۔

آزادی کشمیر کا آغاز

سردار عبدالقیوم خان

قیام پاکستان کے بعد درجن بھر ریاستیں ، پاکستان میں شامل ہوئی تھیں لیکن 70فیصد مسلم اکثریتی آبادی کی ریاست کشمیر کے ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے حیل و حجت سے کام لیا جس سے پاکستان کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔ اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کی خواہش تھی کہ کشمیر ان کے پاس ہو جبکہ 95فیصد کشمیری مسلمانوں کو بھی پاکستان میں شامل ہونے کی امید تھی۔

28 جولائی 1947ء کو ڈوگرا ریاست کے خلاف آزادی کی مسلح تحریک شروع ہوگئی جس میں زیادہ تر قبائلی علاقوں کے جنگجو تھے جنھیں پاک فوج کا بھرپور غیرسرکاری تعاون حاصل تھا۔ روایت ہے کہ سردارعبدالقیوم خان نے اس دن تین ڈوگرا سپاہی مار کر جنگ آزادی کا آغاز کیا تھا۔ جموں کے مغربی اضلاع میں باغی افواج کو مسلم کانفرنس کے رہنما سردار ابراہیم کی قیادت میں منظم کیا گیا جنھوں نے 22 اکتوبر 1947ء تک ریاست کے بیشتر مغربی حصوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ 24 اکتوبر کو آزاد کشمیر کی عارضی حکومت قائم کردی گئی تھی۔

جنرل گریسی کا قائداعظمؒ کا حکم ماننے سے انکار

مجاہدین کی پے درپے کامیابیوں سے ڈوگرہ افواج سری نگر تک محدود ہوکر رہ گئی تھیں۔ خود کو بچانے کے لیے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کی درخواست کی تھی۔ 26 اکتوبر 1947ء کو یہ معاہدہ ہوا اور اگلے ہی دن بھارت نے اپنی فوج ، وادی میں اتار دی تھی۔

قائد اعظمؒ نے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق اور بھارتی فوجی مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے قائم مقام آرمی چیف جنرل گریسی کو فوری فوجی کاروائی کا حکم دے دیا تھا لیکن اس نے یہ حکم ماننے کے بجائے پاک بھارت افواج کے مشترکہ سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل جنرل Claude Auchinleck کو شکایت کردی تھی۔ وہ دوسرے ہی دن لاہور آئے تھے اور قائداعظمؒ کو اپنا یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا تھا۔ جنرل آوکن لیک کا موقف تھا کہ ان کی کمانڈ میں دونوں افواج کیسے لڑیں گی اور اگر ایسا ہوا بھی تو پاک فوج وسائل کی کمیابی کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے گی۔ اس کے باوجود پاک فوج درپردہ کشمیر کے مجاہدین کی مدد کرتی رہی۔

قائداعظمؒ اور کشمیر

15 ستمبر 1947ء کو ریاست جوناگڑھ نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا جو قائداعظمؒ نے قبول کرلیا تھا۔ انھیں یہ بھی توقع تھی کہ بھارت کے جنوب میں واقع ریاست حیدرآباد کے علاوہ شمال کی ریاست کشمیر بھی پاکستان میں شامل ہوجائیں گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مبینہ طور پر جولائی 1947ء میں قائداعظمؒ نے مہاراجہ کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونے کی پرکشش دعوت دی تھی لیکن انھوں نے انکار کردیا تھا۔

یکم نومبر 1947ء کو سابق وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن (جو اس وقت بھارت کے گورنر جنرل تھے) کی لاہور میں گورنرجنرل پاکستان قائداعظمؒ کے ساتھ ایک ملاقات ہوئی تھی جس میں بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے تجویز پیش کی تھی کہ متنازعہ ریاستوں یعنی حیدرآباد دکن ، جوناگڑھ اور کشمیر میں غیرجانبدارانہ استصواب رائے کروایا جائے کہ وہ کن دو ممالک کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں لیکن قائداعظمؒ نے اس تجویز کو مسترد کردیا تھا۔

مسئلہ کشمیر ، اقوام متحدہ میں

یکم جنوری 1948ء کو بھارت کے وزیراعظم نہرو ، مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے تھے۔ انھیں توقع تھی کہ اقوام عالم ، بھارت اور کشمیر کے الحاق کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرے گا اور پاکستان کو جارح قرار دے گا۔ 21 اپریل 1948ء کو کشمیر پر ایک قرارداد منظور ہوئی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت اپنی اپنی فوجوں یا مسلح گروپوں کو کشمیر سے نکالیں تو وہاں استصواب رائے ہوسکتا ہے۔ یہ شرط دونوں فریقین ماننے کو کبھی تیار نہیں ہوئے۔ یہ کامیابی البتہ ضرور ہوئی تھی کہ یکم جنوری 1949ء کو کشمیر میں جنگ بندی ہو گئی تھی۔

بھارتی آئین کا آرٹیکل 370

26 جنوری 1950ء کو منظور ہونے والے بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت تھی جس کے آرٹیکل 370 میں یہ کہا گیا تھا کہ

    یہ آرٹیکل واضح کرتا ہے کہ ریاست کو ہندوستانی پارلیمنٹ کے قوانین کے اطلاق میں متفق ہونا چاہیے، سوائے ان کے جو مواصلات، دفاع اور خارجہ امور سے متعلق ہوں۔ مرکزی حکومت ریاست کے نظم و نسق کے کسی دوسرے شعبے میں مداخلت کرنے کے اپنے اختیار کا استعمال نہیں کر سکتی۔

جنوری 1951ء میں دولت مشترکہ کے سالانہ اجلاس میں بھی کشمیر کے مسئلہ پر برطانیہ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ کشمیر میں پاک بھارت مشترکہ فوج کی نگرانی میں استصوائے رائے کروایا جائے۔ پاکستان نے اس تجویز کو مان لیا تھا لیکن بھارت نے رد کردیا تھا۔

نہرو کا یوٹرن

24 جولائی 1952 کو بھارتی وزیر اعظم نہرو اور کشمیر کے وزیراعلیٰ شیخ محمدعبداللہ کے درمیان ایک ملاقات میں اس آئینی شق کا اطلاق ہوا تھا لیکن 1953ء میں شیخ صاحب کا ضمیر جاگا اور انھوں نے بھارتی حکومت سے بغاوت کردی جس پر انھیں وزارت اعلیٰ کے عہدے سے برطرف کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اسی سال جولائی میں بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے پینترا بدلا اور کشمیر میں ریفرنڈم کروانے پر رضامندی ظاہر کردی۔ پاکستان کی یہ خوشی مختصر رہی کیونکہ 1954ء میں جب امریکہ نے ایک طویل المدتی معاہدے کے تحت پاکستان کو بھاری فوجی اور اقتصادی امداد دینا شروع کی تو نہرو نے یوٹرن لے لیا اور کشمیر میں ریفرنڈم کروانے سے صاف مکر گیا تھا۔

پاک بھارت کشمیر مذاکرات

1962/63 میں پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر پر مذاکرات کے چھ راؤنڈ ہوئے تھے جن کی قیادت بھارت سے وزیرخارجہ سورن سنگھ اور پاکستان سے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹوؒ کررہے تھے۔ 1965ء میں پاکستان نے بزور کشمیر آزاد کروانے کی ناکام کوشش کی۔ 1971ء کی جنگ میں پاکستان کی شکست سے مایوس ہو کر کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ نے 1975ء میں بھارت سے الحاق کرلیا تھا۔ 1980ء کی دھائی سے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر جنگجو کاروائیاں ہوئیں لیکن بھارت نے ان پر قابو پالیا۔ 1984ء میں بھارت نے سیاچین گلیشئر پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ 1999ء میں کارگل کی جنگ بھی کشمیر کا حل نہ بن سکی۔ 2020ء میں بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا اور ریاست کو بھارتی یونین میں ضم کرلیا تھا ، تب سے اب تک سکون ہے اور بظاہر مسئلہ کشمیر ختم ہوچکا ہے۔

کشمیر کی تاریخ

افغان حکمران نادر شاہ درانی نے 1752ء میں کشمیر کو فتح کیا۔ 1819ء میں پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کشمیر پر قبضہ کیا۔ جموں کے ڈوگرا خاندان کے راجہ گلاب سنگھ نے 1840ء میں کشمیر پر قبضہ کیا۔ 1946ء میں انگریزوں نے کشمیر کو فتح کیا لیکن گلاب سنگھ کے ہاتھوں بیچ دیا تھا جس کا ڈوگرا خاندان 1947ء تک کشمیر کا حاکم رہا۔

ریاست کشمیر ، ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں 1941 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کشمیر کی آبادی میں 77 فیصد مسلمان، 20 فیصد ہندو اور 3 فیصد دیگر (سکھ اور بدہست) تھی۔ مسلمان صرف وادی کشمیر میں 95 فیصد ہیں جبکہ جموں اور لداخ میں بالترتیب ہندوؤں اور بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت ہے۔ پاکستان کے کشمیر اور گلگت و بلتستان میں البتہ مسلمان سو فیصدی ہیں۔ اسوقت ریاست کشمیر کا بھارت کے پاس 55 فیصد ، پاکستان کے پاس 30 فیصد اور چین کے پاس 15 فیصد علاقہ ہے۔

کشمیر کا ایک دلکش منظر





Kashmir issue

Friday, 24 Otober 1947

Kashmir is a disputed area between Pakistan and India..


Kashmir issue (video)

Credit: travelfilmarchive

مہاراجہ ہری سنگھ پر ایک دستاویزی فلم

Credit: British Movietone

وزیر اعظم لیاقت علی خان نے لندن میں میڈیا سے کشمیر موضوع پر بات کی اور دولت مشترکہ کے سربراہان کا شکریہ ادا کیا جو اس مسئلہ کے حل میں سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ انہوں نے علاقائی امن کو مسئلہ کشمیر کے حل سے نتھی کیا تھا۔


پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ

پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ



پاکستان کے اہم تاریخی موضوعات



تاریخِ پاکستان کی اہم ترین شخصیات



تاریخِ پاکستان کے اہم ترین سنگِ میل



پاکستان کی اہم معلومات

Pakistan

چند مفید بیرونی لنکس



پاکستان فلم میگزین

پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔


پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……

پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.