25th celebration of Pakistan Film Magazine
It details the evolution of film journalism from early newspaper advertisements and special sections to dedicated film magazines like Photoplay and Filmfare, discussing their content, including news, reviews, interviews, and even gossip.
The text also explores the significant roles of radio and television in promoting film through music, programs, and commercials, and acknowledges the contributions of influential figures in Pakistani film journalism and the development of online resources like the Pakistan Film Magazine website, which preserves this rich history.
Beyond media, the source includes a poignant reflection on a bygone era of simplicity and self-sufficiency in rural Pakistan. (Summary generated by AI)
پاکستان فلم میگزین کی 25ویں سالگرہ کے سلسلے میں آج پاکستانی فلمی میڈیا پر بات ہوگی۔
پاکستانی فلموں کے عروج کے دور میں لاہور اور کراچی سے بہت بڑی تعداد میں اردو اور انگریزی میں خالص فلمی اخبارات و جرائد شائع ہوتے تھے۔
قریباً سبھی بڑے قومی اخبارت، روزانہ مقامی سینماؤں کے فلمی اشتہارات کے علاوہ ہر ہفتے فلمی خبروں، تبصروں اور تصاویر پر مشتمل خصوصی رنگین فلمی ایڈیشن بھی شائع کیا کرتے تھے۔
قومی اور سیاسی امور پر چھپنے والے بیشتر ہفت روزہ اور ماہنامہ جرائد میں بھی فلمی مواد کو بڑے اہتمام سے شائع کیا جاتا تھا۔
پرنٹ میڈیا کے بعد ریڈیو اور ٹیلیویژن پر بھی فلمی گیت، فلمی اشتہارات اور فلمی پروگرام بڑے پسند کیے جاتے تھے۔
دنیا کی پہلی باقاعدہ فیچر فلم The Story of the Kelly Gang تھی جو 1906ء میں آسٹریلیا میں بنائی گئی تھی۔ امریکہ میں 1909ء میں پہلی فیچر فلم Les Misérables ریلیز ہوئی تھی۔
فیچر فلموں سے قبل مختصر دورانیے کی بہت سی فلمیں بنیں جن کے اشتہارات اس دور کے اخبارات و جرائد کی زینت بنتے تھے۔ یقیناً ان ایجادات اور ان فلموں میں نظر آنے والوں اور انھیں بنانے والوں کے بارے میں دلچسپ خبریں بھی ہوتی ہوں گی جن سے لوگ باخبر رہنا پسند کیا کرتے تھے۔
فلم بینوں کی اسی دلچسپی کو مدِنظر رکھتے ہوئے باقاعدہ شوبز یا فلمی میڈیا کا آغاز ہوا اور 1911ء میں دنیا کا پہلا اور باقاعدہ فلمی میگزین Photoplay کے نام سے امریکی شہر شکاگو سے شائع ہوا تھا۔
ایسے فلمی رسالوں میں نئی اور زیرِ تکمیل فلموں کی خبریں، معلومات، کہانیاں، تبصرے، تصاویر اور شوٹنگ وغیرہ کا آنکھوں دیکھا حال ہوتا تھا۔ زیرِ نمائش فلموں کی مختلف شہروں سے بزنس رپورٹس کے علاوہ سینماؤں اورسرمایہ کاری پر معلوماتی مضامین ہوتے تھے۔ فنکاروں کی خوبصورت اور دیدہ زیب نجی اور فلمی تصاویر، انٹرویوز، آپ بیتیاں، معاشقے، گپ شپ اور نجی زندگی کے شب و روز کے علاوہ فلمی فنکاروں کے بارے میں افواہیں، سکینڈلز اور مختلف فلمی ریکارڈز وغیرہ بھی ہوتے تھے۔ پرانی فلموں اور فنکاروں کو یاد کیا جاتا تھا۔ شائقینِ فلم کی رائے، پسندوناپسند اور بحث و تکرار کے لیے بھی صفحات مخصوص کیے جاتے تھے۔
برصغیر پاک و ہند کے اردو فلمی میڈیا میں ادبی رنگ بھی ہوتا تھا۔ ناول، افسانے اور شعروشاعری کے علاوہ قیمتی انعامات جیتنے کے لیے معمے بھی ہوتے تھے۔
18ویں صدی کے آخر میں یعنی 29 جنوری 1780ء کو نئے حاکم، ایسٹ انڈیا کمپنی نے کلکتہ سے برصغیر پاک و ہند کا پہلا اخبار The Bengal Gazette شائع کیا جو ان کی اپنی انگریزی زباں میں تھا۔
19ویں صدی تک، برصغیر پاک و ہند کی سرکاری زباں، فارسی میں چھپنے والے کلکتہ ہی کے ایک اخبار "جام جہاں نما" نے 27 مارچ 1822ء کو پہلی بار اردو زباں کا ایک خصوصی ضمیمہ شائع کیا۔ اسی سال ممبئی سے شائع ہونے والا ایک گجراتی اور انگریزی اخبار، اب تک مسلسل شائع ہونے والا بھارت کا سب سے قدیم اخبار ہے۔ اس کے بعد دیگر بڑے بڑے اخبارات و جرائد بھی منظرِعام پر آئے۔
20ویں صدی کے آغاز تک فلم تجرباتی مراحل میں تھی۔ یقیناً اس دور کے ان اخبارات میں نئی ایجادات اور خصوصاً فلموں کی آمد پر خبریں اور معلومات ہوتی ہوں گی۔
19ویں صدی کے آخر یعنی 7جولائی 1896ء کو بمبئی کے واٹسن ہوٹل میں فرانس کے "لومیئر برادران" نے اپنی چھ مختصر فلموں کے چار شو کیے۔ اس وقت کا ایک روپیہ فی شو ٹکٹ تھا جو یقیناً عام آدمی کی پہنچ سے دور تھا۔ اس پہلے فلمی اشتہار کو اس وقت کے بمبئی کے مشہور اخبار "ٹائمزآف انڈیا" میں شائع کروایا گیااور اس نئی ایجادکو ان الفاظ میں متعارف کروایا گیا:
20ویں صدی تک برصغیر میں بے شمار اخبارات و جرائد شائع ہورہے تھے جن میں سے متعدد اردو زباں میں بھی تھے۔ "زمیندار، انقلاب، احسان اور ملاپ" وغیرہ، اس دور کے مشہور ترین روزانہ اخبارات ہوتے تھے۔
1930/40 کی دھائیوں میں فلمی کاروبار اپنے عروج پر تھا اور ایک بہت بڑی تفریح ہوتا تھا۔ اس دور کے اردو اخبارات سے فلمی معلومات ملتی ہیں۔ خاص طور پر روزنامہ "انقلاب" لاہور میں باقاعدگی کے ساتھ روزانہ کے فلمی اشتہارات کے علاوہ ہر ہفتے فلمی خبریں، تبصرے اور لاہور کے سینماؤں میں زیرِ نمائش فلموں کی تفصیل ہوتی تھی جن کی ایک جھلک 1937ء کے ایک اخباری عکس میں نظر آتی ہے:
برصغیر میں خالص فلمی میڈیا کے بارے میں متضاد معلومات ملتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق اس کا آغاز لاہور سے ہوا جہاں 1920 کی دہائی میں پہلا فلمی جریدہ "سینما " تھا۔
دوسری روایت میں فلمی جرائد کی تاریخ 1924ء سے شروع ہوتی ہے جب کلکتہ سے ایک ماہانہ بنگالی فلمی رسالہ Bijoli شائع ہوا۔ اسی سال، گجراتی زبان کے فلمی رسالہ "موج ماجہ" کا ذکر بھی ملتا ہے۔
ہندی/اردو فلموں کے مرکز ممبئی سے پہلا فلمی پرچہ Kinema تھا جو 1929ء میں منظر عام پر آیا۔ دہلی سے شائع ہونے والا پہلا ہندی فلمی رسالہ Chitrapat تھا۔ 1935ء میں برصغیر کا ایک ممتاز فلمی پرچہ FilmIndia بھی منظرعام پر آیا جو اس وقت تک کا سب سے معیاری فلمی میگزین سمجھا جاتا تھا۔ 1951ء میں بھارت کا سب سے مقبول فلمی پرچہ Filmfare جاری ہوا جس نے فلمی ایوارڈز بھی دینا شروع کیے۔
1939ء میں ہندوستان کا مقبول ترین اردو فلمی رسالہ ماہ نامہ "شمع" نئی دہلی شائع ہوا جس کے بانی یوسف دہلوی تھے۔ اس کا ہندی ورژن Sushma کے نام سے شائع ہوتا تھا۔
ابتداء میں "شمع"، ایک مذہبی رسالہ تھا لیکن کامیابی سے محروم رہا۔ بھارتی فلموں کے عروج کے دور میں اس فلمی رسالے نے بڑا عروج دیکھا جس کی بڑی وجہ "ادبی معمے" ہوتے تھے جن میں ایک لاکھ روپے تک کی رقم جیت سکتے تھے۔ 1999ء میں یہ مقبول ترین فلمی رسالہ بند ہوگیا تھا۔
ماہنامہ "شمع" کے علاوہ دہلی سے "فلمی ستارے، روبی ، گلفام، نرالی دنیا، فلم انڈسٹری، کہکشاں ،فلم سنسار، گُلفشاں ، اداکار، پارس، عکّاس، فلم ویکلی، مووی ٹائمز، سنے ایڈوانس، فلم دیش، گروگھنٹال، پائل اور شیبا" وغیرہ جیسے فلمی پرچے شائع ہوتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ زیادہ تر فلمی رسائل بالی ووڈ یعنی بمبئی سے ڈیڑھ ہزار کلو میٹر دور پرانی دلی سےشائع ہو رہے تھے جن میں فلموں کے علاوہ ادبی مواد بھی ہوتا تھا اور ان میں اردو ادب کے بڑے بڑے نام مثلاً قرۃ العین حیدر،عصمت چغتائی، خواجہ احمد عباس، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، قتیل شفائی اور بلراج ساہنی وغیرہ لکھتے تھے۔
ماہنامہ "شمع" دہلی، پہلی بار ڈنمارک آکر پڑھا تھا۔ بھارتی فلموں سے عدم دلچسپی کے باوجود اس میں سے دو باتیں آج بھی یاد ہیں۔
1970ء کی دھائی کے پاکستانی اردو فلموں کے چاروں سپرسٹارز، محمدعلی، وحیدمراد، ندیم اور شاہد کی ایک صفحہ پر ایک ساتھ رنگین تصاویر اور ساتھ میں پاکستانی فلم انڈسٹری کے بارے میں ایک تعارفی مضمون ذہن پر نقش ہے۔
اسی فلمی رسالے میں دوسری خبر جو یاد ہے، وہ پاکستان کے ابتدائی دور کے مقبول ترین گلوکار آنجہانی سلیم رضا کے 1983ء میں انتقال کی خبر ہے جس سے معلوم ہوا تھا کہ ان کا گایا ہوا یہ سپرہٹ گیت، بھارت میں بھی بڑا مقبول ہوا تھا: "یارو، مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں۔۔ (فلم سات لاکھ 1957ء)
دسمبر 1976ء میں ڈنمارک سے پاکستان کے بائی روڈ سفر کے دوران ایک ہفتہ تہران میں قیام ہوا جہاں چند ہندوستانی مسلمان نوجوانوں سے ملاقات ہوئی۔ ان کی خواہش پر "شمع" کے وہ چند شمارے جو ریکارڈز کے لیے محفوظ کیے تھے، ان کی نذر کردیے تھے۔
قیامِ پاکستان سے قبل، لاہور سے انگریزی اور اردو میں بیس کے قریب فلمی اخبارات و جرائد شائع ہوتے تھے جن میں سے بیشتر کے مالکان ہندو تھے جنھیں تقسیم کے بعد مال و دولت اور اپنا آبائی وطن چھوڑ کر جان بچا کر بھاگنا پڑا تھا۔
نامور فلمی صحافی یاسین گوریجہ کی فلم ڈائریکٹری کے مطابق لاہور کا پہلا فلمی پرچہ انگریزی ماہنامہ "سینما" تھا جو 1925ء میں خاموش فلموں کے دور میں شائع ہوا۔ 1932ء میں بولتی فلموں کے دور میں ممتاز بھارتی فلمساز اور ہدایتکار بی آر چوپڑا نے بھی لاہور سے انگریزی فلمی رسالہ "سنے ہیرالڈ" جاری کیا تھا۔
1940ء کی دھائی میں میکلوڈروڈ لاہور سے شائع ہونے والا انگریزی فلمی رسالہ Film Pictorial اپنی طباعت کے لحاظ سے اس دور کا جدید ترین میگزین تھا۔ اس کی نومبر 1944ء کی ایک اشاعت میں یہ دلچسپ خبر ملتی ہے (جو آن لائن محفوظ ہے) کہ اس دور میں یعنی انگریز مہاراج کے دور میں بھی رشوت عام تھی۔ فلمی دنیا میں ہر دور کی طرح بلیک منی عام ہوتی تھی، جس اداکار کو بلیک میں رقم ملتی، وہ جلدی کام کرنے پر راضی ہو جاتا اور جس سینما مالک کو بلیک منی ملتی، وہ ایسے فلمساز کی فلم پہلے لگا دیتا تھا۔۔!
لاہور سے شائع ہونے والے اس دور کے دیگر فلمی جرائد میں "فلمستان، سٹیج، فلم کریٹک، پکچرپلے، فوٹوپلے، اداکار، تصویر، سکرین ورلڈ، مووی فلیش اور سینما شو" وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد جہاں متعدد پرانے اخبارات نے لاہور سے اشاعت جاری رکھی، وہاں بڑی تعداد میں نئے اخبارات و جرائد بھی شائع ہونا شروع ہوئے جن میں روزانہ فلمی اشتہارات کے علاوہ خبریں، تبصرے اور فلمی مضامین وغیرہ شائع ہوتے تھے۔
پاکستان میں قومی اخبارات میں فلمی خبریں، تبصرے اور اشتہارات وغیرہ تو چھپتے رہتے تھے لیکن کس اخبار نے پہلی بار "خصوصی فلم ایڈیشن" شائع کیا تھا۔۔؟
یہ موضوع متنازعہ اور ہنوز تحقیق طلب ہے۔ یاسین گوریجہ کے مطابق، لاہور میں روزنامہ "امروز" نے باقاعدہ طور پر فلمی ایڈیشن کا آغاز کیا جبکہ کراچی میں روزنامہ "نئی روشنی" کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا۔
معروف فلمی صحافی، فلمساز اور مصنف علی سفیان آفاقی کے مطابق، روزنامہ "آفاق" لاہور نے فلم ایڈیشن کا آغاز کیا۔ اس چھوٹے سے علاقائی اخبار کی دیکھا دیکھی دیگر بڑے قومی اخبارات نے بھی ہر جمعہ کے روز دو دو صفحات پر مشتمل رنگین فلمی ایڈیشن شائع کرنا شروع کردیے تھے۔
روزنامہ "نوائے وقت"، (جس کو ایک "پنجابی اخبار" بھی کہا جاتا تھا)، ایک نظریاتی اخبار تھا اور فلمی اشتہارات یا فلم ایڈیشن وغیرہ شائع نہیں کرتا تھا۔ اس پر عروج کا دور 1977ء میں آیا جب بھٹو حکومت کے خلاف اپوزیشن کا ترجمان بنا۔ لاہور کے دیگر اخبارات کے زوال کے بعد اس اخبار میں بڑی تعداد میں فلمی اشتہارات اور فلمی خبریں وغیرہ شامل ہونے لگیں۔ 1980/90 کی دھائیوں میں بڑی باقاعدگی سے یہاں لائبریری میں "نوائے وقت" لاہور اور "جنگ" کراچی کا مطالعہ کیا کرتا تھا جس سے ان دونوں شہروں کے فلمی اشتہارات سے واقفیت ہوتی تھی۔
ذاتی طور پر میری ان قومی اخبارات سے بڑی گہری یادیں وابستہ ہیں۔ اپنے "سنہرے فلمی دور" یعنی 1970/73ء کے آخری دو برسوں میں ہر جمعہ کو چار قومی اخبارات، "جنگ، مشرق، امروز اور مساوات" کے فلمی ایڈیشنوں کے علاوہ لاہور کا ایک فلمی رسالہ بڑی باقاعدگی سے پڑھتا تھا جو زیادہ تر "مصور" ہی ہوتا تھا۔ اس کے لیے مجھے فی ہفتہ "ایک روپیہ 80 پیسے کا بجٹ" درکار ہوتا تھا۔ اس پر دلچسپ تفصیل فلم "زرقا" کے ضمن میں ہوگی، ان شاء اللہ۔۔!
پاکستان کے فلمی مرکز لاہور میں 1980 کی دھائی تک بے شمار فلمی اخبارات و جرائد شائع ہوتے رہے جن میں سے مندرجہ ذیل فلمی جرائد خاصے مقبول ہوتے تھے:
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد کراچی میں بھی فلمی صحافت کا آغاز ہو گیا تھا حالانکہ اس وقت تک وہاں فلم انڈسٹری نہیں تھی۔ اس کے باوجود بڑی تعداد میں فلمی اخبارات و جرائد سامنے آئے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمان صحافیوں نے دہلی میں اپنے ادھورے کام کو جاری رکھا تھا۔
اردو بولنے والوں یا "اہلِ زبان" کے لیے خاص طور پر فلم اور ادب کا بڑا گہرا رشتہ رہا ہے جو فلمی میڈیا میں بھی نمایاں نظر آتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان کی بیشتر آبادی کے لیے فلم، کبھی بھی تہذیب و تمدن کا حصہ نہیں بن سکی، اسی لیے زوال پذیر ہوئی۔
پاکستانی فلموں کے انتہائی عروج کے دور میں کراچی میں بھی فلمی میڈیا اپنے انتہائی عروج پر تھا۔ بڑی تعداد میں اردو اور انگلش میں مقبولِ عام فلمی اخبارات و جرائد شائع ہوتے تھے جن میں سے مندرجہ ذیل قابلِ ذکر ہیں:
پاکستان کی فلم انڈسٹری کی تاریخ میں بہت سی نامور شخصیات ایسی ہیں کہ جن کا قیامِ پاکستان سے قبل اور بعد میں بھی فلمی صحافت سے براہ راست تعلق رہا ہے۔ بعض شخصیات نے اپنے ذاتی فلمی پرچے شائع کیے جبکہ دیگر فلمی صحافت سے منسلک رہے۔ ایسی چنداہم اور خاص خاص شخصیات کی ایک فہرست مندرجہ ذیل ہے:
معروف مکالمہ نویس شاطرغزنوی، گیت نگار دکھی پریم نگری، انقلابی رائٹر ریاض شاہد اور کہانی نویس بشیرنیاز کا تعلق بھی فلمی صحافت سے تھا۔ گلوکار احمدرشدی کے بھائی، اداکار ارسلان، ابراہیم جلیس، مقبول جلیس اور دانش ویروی وغیرہ بھی فلمی صحافی تھے۔
پرنٹ میڈیا کے بعد ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا بھی فلموں سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم اور ریڈیو، ہم عمر ہیں یعنی دونوں نے ایک ساتھ ہی جنم لیا۔ 1897ء میں ریڈیو کا پہلا تجربہ ہوا اور 1906ء میں پہلی عوامی نشریات شروع ہوئیں، اسی سال پہلی فیچر فلم بھی ریلیز ہوئی تھی۔
برصغیر میں پہلا ریڈیو سٹیشن 1923ء میں ممبئی میں وجود میں قائم ہوا۔ 1936ء میں آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیاتھا۔ ریڈیو کے ابتدائی دور ہی میں فلمی گیت بڑے مقبول ہوتے تھے۔ بے شمار لوگ فلمیں نہیں دیکھتے تھے لیکن فلمی گیتوں سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ 1930/40 کی دھائیوں میں نورجہاں اور کندن لال سہگل جبکہ 1950 کی دھائی میں لتا اور رفیع کے بے شمار عاشق تھے، جنھوں کے کبھی سینما پر کوئی فلم نہیں دیکھی ہوتی تھی لیکن ان کے فلمی گیت زبانی یاد ہوتے تھے۔
اگر صحیح یاد رہا ہے تو ریڈیو پاکستان کی کمرشل سروس، دن کے گیارہ بجے سے شام چار بجے تک ہوتی تھی جس میں مختلف تجارتی کمپنیوں کے کمرشل پروگرام، نئی فلموں کے اشتہارات اور گیتوں اور مکالموں پر مشتمل دس پندرہ منٹ کے "ریڈیو پروگرام" بھی ہوتے تھے۔ فرمائشی فلمی گیتوں کے پروگرام سب سے زیادہ پسند کیے جاتے تھے۔ اشتہارات کے دوران ریڈیو پاکستان لاہور کی ٹون بڑی منفرد ہوتی تھی۔
1964ء میں لاہور سے ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو 1970ء کی دھائی تک زیادہ تر فلمی پروگرام ہی پسند کیے جاتے تھے۔ ہفتہ وار فیچرفلم اور فلم ٹریلرز کے علاوہ فلمی مہمانوں کے انٹرویوز اور فلمی گیتوں کے پروگرام بڑے پسند کیے جاتے تھے۔ فلموں کی متعدد ناکام شخصیات، ٹی وی پر بڑی کامیاب رہیں، "ضیاء محی الدین شو"، "کمال شو" اور طارق عزیزکا "نیلام گھر" اس کی بہت بڑی مثالیں تھیں۔
2005ء میں پاکستان کے پہلے فلمی ٹیلی ویژن چینل "فلم ایزیا" کا آغاز ہوا تھا۔ 2008ء میں راقم الحروف نے یوٹیوب پر پہلی پاکستانی فلم ارمان (1966) اپ لوڈ کی تھی جبکہ اس سے قبل، 3 مئی 2000ء کو پاکستانی فلموں کی پہلی ویب سائٹ "پاکستان فلم میگزین" کا قیام عمل میں آیا تھا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ابھی تک میڈیا کی تاریخ میں ایک ویب سائٹ کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں کیونکہ جس احسن طریقے اور سلیقے سے معلومات، ویڈیو، آئیڈیو یا تصاویر وغیرہ کو ایک ویب سائٹ پرمحفوظ اور اپ ڈیٹ کیا جاسکتا ہے، وہ کسی اخبار، رسالے، کتاب، ریڈیو، ٹی وی، ویڈیو یا سوشل میڈیا پر ممکن نہیں ہے۔
میں نے بچپن میں ریڈیو بہت سنا ہے جس کے پاکستان فلم میگزین پر بڑے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ فلمی گیت سننے کا جو مزہ ریڈیو پر آتا تھا، وہ فلم میں کبھی نہیں آیا۔ اسی طرح ریڈیو پر جو دلکش آوازیں اس دور میں سنیں، وہ آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ ریڈیو کے یہی اثرات تھے کہ مجھے، اداکاروں سے زیادہ گلوکاروں سے دلچسپی رہی ہے اور کسی بھی فلم کو عام طور پراس کے گیتوں کی وجہ سے یاد رکھتا ہوں۔
میرے بچپن میں ریڈیو پاکستان لاہور کا سب سے مقبول پروگرام "جمہور دی آواز" یا "نظام دین دا پروگرام" ہوتا تھا جو ہر عمر کے لوگ بڑے ذوق و شوق سے سنتے تھے۔ اس کے بعد کسانوں اور فوجی بھائیوں کے علاوہ اشفاق احمد کا "تلقین شاہ " بھی بڑے پسندکیے جاتے تھے۔ رات نو بجے "بچوں کی کہانی" باقاعدگی سے سنتا تھا۔ ریڈیو خبروں میں انوربہزاد اور شکیل احمدکی خبردار قسم کی آوازیں ہوں یا شائستہ زید اور نورین طلعت کی مسحورکن آوازیں بڑا لطف دیتی تھیں۔
ریڈیو پاکستان لاہور کی کمرشل سروس پر اطہرشاہ خان (جیدی) کے پروگرام "رنگ ہی رنگ، مسٹرجیدی کے سنگ" میں زندگی میں پہلی بار مسعودرانا صاحب کا مختصر انٹرویو یاد ہے۔ "سہراب کی محفل" میں فردوس جمال اور ثروت عتیق کی تکرار بڑا مزہ دیتی تھی۔ حسن شہید مرزا کی آئیڈیل مردانہ آواز سننے کی شدید خواہش رہتی تھی۔ زیادہ تر فلمی پروگرام عرفان کھوسٹ کی آواز میں ہوتے تھے جن میں فلم مولا جٹ (1979) کا پروگرام تو ایک مدت تک سننے میں آیا اور ایک ایک مکالمہ لوگوں کو زبانی یاد ہوگیا تھا۔ فرمائشی فلموں نغموں کے پروگرام ان کے علاوہ ہوتے تھے۔
ریڈیو سننے کا شوق مجھے اپنی زندگی کے ابتدائی چندبرسوں میں اپنے ننھیال کے قیام کےدوران ہوا۔ ماموں جان (مرحوم و مغفور) کے پاس ایک ٹرانسسٹرریڈیو ہوتا تھا جس کے سیل (الہ دین اور چندا بیٹری سیل) اکثر بدلنا پڑتے تھے۔
"نظام دین دا پروگرام" تو گاؤں کے دیگر افراد بھی ریڈیو کے گرد حقہ اور چائے کے مزے لیتے ہوئے سنتے تھے لیکن فلمی گیتوں کی باری آتی تھی تو ماموں، دوسروں سے چھپ کر دوسرے کمرے میں یا انتہائی آہستہ آواز کرکے سنتے تھے۔
میرے استفسار اور تجسس پر بتاتے کہ فلمی گانے، گھروں میں ماؤں بہنوں اور بزرگوں کے سامنے نہیں سنے جاتے، یہ پہلی واضح ممانعت ہے جو میرے ذہن پر نقش ہے۔ ماموں، ریڈیو کے سیل نکال کر اپنی دانست میں چھپا کر کام پر جاتے تھے لیکن میری چھوٹی خالہ کو علم ہوتا تھا اور وہ بھی دوسروں سے چھپ کر ریڈیو سنتی تھی جن میں فلمی گانے بھی ہوتے تھے۔
دوسری بات جو کبھی نہیں بھلاسکا، وہ یہ تھی کہ جیسے ہی خبروں سے قبل حبیب بینک کا اشتہار ختم ہوتا، پہلی ٹون بجتے ہی ماموں ریڈیو کو بند کردیتے۔ میں پوچھتا تو بتاتے کہ "ذرا دم لے لے۔۔!" بڑا ہوکے پتہ چلا کہ کیوں عام لوگ سرکاری خبروں پر یقین نہیں کرتے تھے۔۔؟
آخر میں ننھیال کےاس گاؤں کاایک نقشہ کھینچنےکی کوشش کررہا ہوں جو اپنے آبائی شہر سے بھی زیادہ یاد آتا ہے اور بار بار یاد آتا ہے۔۔!
میری عمر کے لوگوں نے سادگی اور خودانحصاری کا ایسا دور دیکھا ہے کہ جب پاکستان کی آبادی کی اکثریت کو دورِحاضر کی بنیادی ضروریات یعنی بجلی، گیس اور پٹرول کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔۔!
لوگ، بلا تھکان کچے راستوں پر میلوں پیدل سفر کرنے کے عادی تھے۔ گھروں کے دروازے دن بھر کھلے رہتے جہاں اجنبی مسافروں کو بھی دورانِ سفر مفت میں کھانا پینا اور قیام تک میسر ہوتا تھا۔ ایسا اتفاق دوستی اور بھائی چارے کے علاوہ اکثر اوقات مستقل رشتہ داریوں میں بھی بدل جاتا جس کا مجھے ذاتی تجربہ ہوا تھا۔
روزمرہ کا کھانا پکانے کے لیے جلانے کے لیے لکڑی، گھاس پھونس اور گوبر ہوتا جبکہ رات کو روشنی کے لیے مٹی کے تیل کی جگہ سرسوں کے تیل سے دیے جلائے جاتے تھے۔ گاؤں کے تندور کا وہ منظر کتنا دلکش ہوتا تھا جب ایک ہی جگہ پورے گاؤں کی روٹیاں پکتیں اور سب کو جلدی بھی ہوتی تھی۔۔!
کیا دور تھا جب لوگ، اینٹ، ریت اور سیمنٹ جیسے لوازمات کے بغیر صرف مٹی اور لکڑی سے آرام دہ اور پائیدار مکانات بنا لیتے تھے جو گرمیوں میں سرد اور سردیوں میں گرم ہوتے تھے۔ محبت و قربت کا یہ عالم ہوتا تھا کہ ایک ہی کمرے میں گھر کے سبھی افراد ایک ساتھ سوتے جاگتے تھے۔
ہر گاؤں میں کم از کم ایک "چھپڑ" یا جھیل اور ایک بیل بردار کنواں لازمی ہوتا تھا جو ایک مرکزی مقام ہوتا تھا اور جہاں سے پینے، نہانے اور کپڑے دھونے کا پانی بھی ملتا تھا اور کھیتوں کی پیاس بھی بجھائی جاتی تھی۔
آبادی کم لیکن زرعی رقبہ بہت زیادہ ہوتا تھا جس کی وجہ سے پیداوار وافر ہوتی تھی۔ مل جل کر کام ہوتا تھا جس کے صلے میں گاؤں کے ہر گھر کو سال بھر کا اناج مل جاتا تھا۔ خالص دودھ، مکھن، لسی، دیسی گھی اور تازہ سبزیوں، پھلوں وغیرہ کی بہتات ہوتی تھی۔
لوگ، روپے پیسے کے بجائے گندم سے لین دین کیا کرتے تھے۔ ضروریاتِ زندگی محدود اور اخراجات کم ہوتے تھے۔ بیاہ شادیوں اور جیون مرن کی رسمیں تک بڑی سادہ سی ہوتی تھیں اور سبھی مل جل کر دکھ سکھ بانٹ لینے کے عادی تھے۔
کسی گھر میں اگر مویشی نہیں ہوتے تھے تو کم از کم مرغیاں تو لازمی ہوتی تھیں۔ تازہ انڈے اور مہمان کی آمد پر بیچارے مرغ میاں کی قربانی ہوتی تھی۔ چینی کی بجائے گڑ کا ذائقہ ابھی تک زبان پر ہے۔ ہر گھر میں گندم سے آٹا بنانے کے لیے ایک "چکی" اور روئی سے دھاگہ بنانے کے لیے ایک "چرخہ" بھی لازمی ہوتا تھا۔ اس طرح سے خصوصاً دیہاتی علاقے "کُلی، گُلی، جُلی" یعنی روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی انسانی ضروریات میں خودکفیل ہوتے تھے۔
1990 کی دھائی تک، سال میں صرف ایک بار سالانہ بجٹ میں ضروریاتِ زندگی کی مختلف اشیاء کی قیمتوں میں کمی بیشی ہوتی تھی جس سے زیادہ تر شہری طبقہ ہی متاثر ہوتا تھا۔ عوام الناس کی اکثریت اور حکومتِ وقت کو ایک دوسرے کی فکر نہیں ہوتی تھی، روزگارِ حیات بخیروخوبی چلتا رہتا تھا۔
بدقسمتی سے اسی آسودہ حالی کی وجہ سے پنجاب میں رہن سہن، کاشتکاری اور ہنرکاری کے صدیوں پرانے فرسودہ طریقے رائج رہے۔ وقت رک سا گیا جس کی بڑی وجہ یہی "رج کھان دیاں مستیاں" تھی۔ عام سوچ یہ تھی کہ"کجھ کھا لے، پی لے، موج اڑا۔۔!" اور یہی سوچ تھی جس کی وجہ سے جدید ترقی کی دوڑ میں دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے تھے۔
علمِ معاشیات میں ماسٹر کی ڈگری لیتے ہوئے میرے بڑے بیٹے نے ایک سوال پوچھا: "ہم غریب کیوں ہیں۔۔؟"
میرا جواب تھا: "ہم معاشی طور پر نہیں، ذہنی طور پر غریب ہیں۔۔!"
1 | Akbar-e-Film, Lahore |
2 | Artist, Karachi |
3 | Bagh-o-Bahar, Karachi |
4 | Chingari, Lahore |
5 | Chitrali, Lahore |
6 | Film Asia, Lahore |
7 | Film Asia, Karachi |
8 | Film City, Karachi |
9 | Film Premier, Lahore |
10 | Filmi Parcha, Lahore |
11 | Filmsaz, Karachi |
12 | Kirdar, Karachi |
13 | Lalkar, Lahore |
14 | Mehfil, Lahore |
15 | Mumtaz, Lahore |
16 | Musavvir, Lahore |
17 | Muskarahat, Lahore |
18 | Namoona, Lahore |
19 | Nasheman, Lahore |
20 | Nawa-i-Watan, Lahore |
21 | Nigar, Karachi |
22 | Nigar Khana, Karachi |
23 | Nigaristan, Karachi |
24 | Noor Jahan, Karachi |
25 | Paras, Lahore |
26 | Rising Star, Lahore |
27 | Rubi, Lahore |
28 | Sanam, Karachi |
29 | Screen Light, Lahore |
30 | Shabab, Karachi |
31 | Shah Jahan, Karachi |
32 | Shom Time, Karachi |
33 | Show, Karachi |
34 | Tasawur, Lahore |
35 | Taziyana, Karachi |
36 | Teer-o-Nashtar, Lahore |
37 | Ujala, Lahore |
1 | Adakar, Lahore |
2 | Akkas, Lahore |
3 | Chamnistan, Karachi |
4 | Cine Herald, Lahore |
5 | Cinema, Lahore |
6 | Cinema Show, Lahore |
7 | Dilruba, Lahore |
8 | Director, Lahore |
9 | Eastern Films, Karachi |
10 | Evening News, Lahore |
11 | Film & Fashion, Karachi |
12 | Film & Nation, Karachi |
13 | Film Critic, Lahore |
14 | Film India, Lahore |
15 | Film Society, Karachi |
16 | Film Stage, Lahore |
17 | Filmistan, Lahore |
18 | Filmistan, Karachi |
19 | Filmlight, Lahore |
20 | Filmline, Karachi |
21 | Filmo, Lahore |
22 | Gul-o-Khar, Lahore |
23 | Ibrat, Lahore |
24 | Metro, Karachi |
25 | Milan, Karachi |
26 | Movie Flash, Lahore |
27 | Paikar, Karachi |
28 | Parvana, Lahore |
29 | Picture, Lahore |
30 | Picture Play, Lahore |
31 | Raqs-o-Suroor, Lahore |
32 | Rim Jhim, Lahore |
33 | Rooman, Karachi |
34 | Roshni, Lahore |
35 | Screen World, Lahore |
36 | Shabistan, Lahore |
37 | Shama, Lahore |
38 | Shama, Karachi |
39 | Society, Lahore |
40 | Sound, Karachi |
41 | Super Stardust, Lahore |
42 | Tasvir, Lahore |
43 | Tej Weekly, Lahore |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.