پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
بدھ 17 فروری 1960
بنیادی جمہوریتیں
17 فروری 1960ء کو بنیادی جمہوریتوں کا نظام متعارف کروایا گیا تھا۔۔!
14 اگست 1959ء کو یوم آزادی کی ایک تقریب میں صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان نے چیف جسٹس منیراحمد اور دیگر اعلیٰ عہدے داروں کو ایک یادداشت پیش کی جس میں انھیں ، نئے آئین اور بنیادی جمہوریتوں (Basic Democracies) یا مقامی حکومتوں کے قیام کی تجاویز پر غوروغوض کی دعوت دی گئی تھی۔
بنیادی جمہوریتوں کا نظام کیا تھا ؟
اس تجویز کے مطابق ملک کے دونوں صوبوں مغربی اور مشرقی پاکستان (یعنی موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش) میں بنیادی جمہوریتوں کے 8 ہزار یونٹ قائم ہوئے۔ ہر یونٹ نے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر دس دس ارکان کا غیرجماعتی بنیادوں پر انفرادی حیثیت میں براہ راست انتخاب کیا۔ اس طرح کل 80 ہزار ارکان منتخب ہوئے جو ون یونٹ کی بنیاد پر دونوں حصوں سے چالیس چالیس ہزار کی یکساں تعداد میں تھے۔ اس کے بعد بی ڈی ممبران نے اپنی صوابدید پر صدر کا انتخاب کیا۔ یعنی عوام الناس نے اپنے وؤٹوں سے یونین کونسلوں کے ممبران کا انتخاب کیا لیکن وہ ، اس قابل نہیں سمجھے گئے تھے کہ صدر کا براہ راست انتخاب بھی کر سکیں جو تمام معاملات میں مختار کل تھا۔
اس کے علاوہ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ملک میں کوئی صوبائی اسمبلی نہیں ہوگی اور دونوں صوبوں کا نظم و نسق گورنر چلائیں گے جو صدر ہی مقرر کرے گا اور وہ اسی کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔ اس سے قبل ایوب حکومت پریس پر شب خون مار کر ہرقسم کی مخالفانہ آواز کو دبا چکی تھی اور بیشتر سیاستدانوں کو نااہل کر کے اعلیٰ عہدوں پر فوجی افسران کو تعنیات کر چکی تھی۔ صدر صاحب کسی سیاسی سرگرمی ، شخصیت یا جماعت کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
بنیادی جمہوریتیں ، کیوں؟
صدر جنرل ایوب خان کے مشیروں کی رائے تھی کہ نو آبادیاتی دور کے خاتمے اور آزادی کے بعد پاکستانی قوم ، سیاسی اعتبار سے اتنی پختہ شعور نہیں رکھتی جو مغربی پارلیمانی جمہوری عمل کے لیے ناگزیر ہے۔ بظاہر یہ بات درست معلوم ہوتی تھی کیوں کہ اس وقت پاکستان اور بنگلہ دیش کی دس کروڑ کی آبادی میں شرح خواندگی بمشکل دس فیصد سے بھی کم تھی۔ ملک بھر میں چھپنے والے اخبارات کی اشاعت محض ہزاروں میں تھی۔ پاکستانی سماج ، ذات برادری ، اونچ نیچ ، امیری غریبی اور شدید قسم کے مذہبی تفرقات میں تقسیم تھا جو مروجہ جمہوری اقدار کی ضد ہے جہاں ایسے تفرقات کی گنجائش نہیں ہوتی اور ہر انسان برابر ہوتا ہے۔
بنیادی جمہوریتوں کی تجویز کس کی تھی؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تجویز کو امریکہ بہادر کی آشیرباد کے علاوہ جنرل ایوب خان کے قابل ترین نوجوان وزیر ، ذوالفقارعلی بھٹوؒ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ روایت ہے کہ اصل میں یہ تجویز انھی کی تھی اور اسی لیے وہ بنیادی جمہوریتوں یا مقامی حکومتوں کے پہلے وزیر مملکت چنے گئے تھے۔ بھٹو صاحب نے 1962ء کے آئین کی تدوین میں اپنا کردار ادا کیا تھا اور روایت ہے کہ 1973ء کا آئین بھی وہ اسی صدارتی طرز کا بنانا چاہتے تھے لیکن دیگر سیاسی قوتوں کے دباؤ پر ایک متفقہ پارلیمانی آئین بنانے پر مجبور ہوگئے تھے۔
جب بی ڈی ممبران نے صدر کا انتخاب کیا
21 دسمبر 1959ء کو بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات ہوئے جن میں عوام الناس نے یونین کونسلوں یا مقامی حکومتوں کے غیر سیاسی BD ممبران منتخب کئے۔ 14 فروری 1960ء کو صدارتی انتخابات منعقد ہوئے جن میں 80 ہزار میں سے 75.283 یعنی کل 96 فیصد کے مارجن سے بی ڈی ممبران نے جنرل ایوب خان کو صدر منتخب کیا تھا۔ ان کے سامنے یہ واحد سوال رکھا گیا تھا کہ
- "کیا آپ کو صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ، ہلال پاکستان ، ہلال جرات پر اعتماد ہے۔۔؟"
ڈکٹیٹر نہیں انقلابی
پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کا 14 دسمبر 1959ء کا ایک یادگار ویڈیو انٹرویو جس میں وہ ملک میں مارشل لاء لگانے کی وجوہات اور مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ اس انٹرویو میں انھوں نے جہاں سابقہ حکمرانوں پر کرپشن کے الزامات عائد کئے وہاں وہ ایک نئی طرز کی جمہوریت متعارف کروانے اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے ملک بھر میں ایک شاہانہ ٹرین میں سفر کر رہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ڈکٹیٹر کہلانا پسند نہیں کرتے تھے بلکہ خود کو ایک انقلابی کے طور پر پیش کرتے تھے جو ملک کے مختلف شعبوں میں اصلاحات کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی متعارف کردہ بنیادی جمہوریت کے نظام کو باقی ایشیائی ممالک کے لئے ایک ماڈل کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے۔
سوال یہ تھا کہ ایک آمر کو جمہوریت کا راگ الاپنے کی کیا ضرورت تھی ، وہ طاقت کے بل بوتے پر حکومت میں آیا تھا اور ایک مطلق العنان حکمران کی طرح حکومت کرتا ، اسے کون روک سکتا تھا؟
ڈکٹیٹرشپ ، ایک لعنت
اس کا جواب بڑا واضح ہے۔ سرد جنگ کے اس دور میں جنرل ایوب خان کا کردار ایک امریکی پٹھو کا تھا۔ امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے ہی پاکستان پر قابض ہوئے تھے جس کے عوض بھاری مالی اور فوجی امداد سے مالا مال ہوئے تھے۔ وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ڈارلنگ تھے لیکن مفاد پرست اور بے ضمیر مغربی ممالک کے لیڈروں کو اپنے جمہوریت پسند عوام اور میڈیا کو بھی جواب دیتا پڑتا تھا جن کے لئے کسی ڈکٹیٹر یا کمیونسٹ ملک کے سربراہ میں فرق کرنا مشکل ہوتا تھا۔
یہی بنیادی وجہ تھی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے پاکستان کے ہر آمر نے اپنی اپنی جمہوریت کا ڈھونگ رچایا تھا۔ جنرل ایوب نے بنیادی جمہوریتوں کی بنیاد پر عوام الناس کو حق رائے دہی سے محروم کیا تو یحییٰ نے بالغ رائے دہی کی بنیادوں پر انتخابات کروا کر بھی اقتدار چھوڑنے سے انکار کردیا تھا۔ ضیاع نے غیرجماعتی بنیادوں پر جمہوریت کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنایا تو مشرف نے لوٹوں کی مدد سے ڈنگ ٹپائے۔ نقصان اگر ہوا تو صرف پاکستان اور اس کے بے بس عوام کا جنھیں کبھی طاقت کا سرچشمہ نہیں سمجھا گیا اور جو آج بھی کولھو کے کسی بیل کی طرح آنکھوں پہ پٹی بندھے چل چل کر تھک کر چور ہو چکے ہیں اور کسی کو رحم بھی نہیں آرہا۔۔!
Basic Democracies
Wednesday, 17 February 1960
Military dictator General Ayub Khan introduced Basic Democracies in Pakistan..
Basic Democracies (video)
Credit: hijazna
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
13-05-2019: چھبیسویں آئینی ترمیم: کے پی اسمبلی کی نشستیں
01-11-1975: جسٹس یعقوب علی
04-04-1979: ذوالفقار علی بھٹوؒ ، پیدائش سے پھانسی تک