پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
جمعتہ المبارک 7 اگست 1959
ایبڈو
7 اگست 1959ء کو صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان نے ماضی کے سیاستدانوں سے چھٹکارا پانے کے لئے ایک متنازعہ آرڈر یا قانون جاری کیا جسے تاریخ میں " ایبڈو " یا Elected Bodies Disqualification Order (EBDO) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
نئی بوتل پرانی شراب
اس آمرانہ قانون کا اطلاق 14 اگست 1947ء سے کیا گیا تھا۔ ' ایبڈو ' کا قانون اصل میں لیاقت علی خان کے ' پروڈا ' قانون اور ایوب خان کے اپنے قانون "پوڈو" کی نئی شکل تھا جس کے مطابق کسی بھی سرکاری عہدے یا ادارے پر فائز کسی بھی شخص کے خلاف بدعنوانی کے کیس ثابت ہونے پر اسے اگلے چھ سال تک کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
پروڈا ، پوڈو اور ایبڈو
پروڈا (1949) کے بعد "پوڈو" (Public Officis Disqualification Order act March 21, 1959) کا قانون 21 مارچ 1959ء کو نافذ کیا گیا جس کا اطلاق صرف سیاسی عہدیداروں پر ہوتا تھا۔ "پوڈو" کے تحت فردِ جرم ثابت ہونے پر سیاسی عہدوں پر فائز افراد کو پندرہ سال کے لیے سیاست سے نااہل قرار دیا گیا۔ اس قانون کا اطلاق بھی 1947ء سے کیا گیا لیکن صرف پانچ ماہ میں یہ کالا قانون مختلف خامیوں کی وجہ سے بے اثر ہوگیا تھا۔
"پروڈا" اور "پوڈو" میں ایک فرق یہ بھی تھا کہ "پروڈا" کے تحت سیاست دانوں کے خلاف درخواست دائر کرنے کے لیے پانچ ہزار روپے جمع کرانا ہوتے تھے جب کہ "پوڈو" کے تحت کسی بھی شہری پر نقد رقم جمع کرانے کی شرط نہیں تھی۔
نااہلی کا طریقہ کار
"ایبڈو" قانون کے تحت دو طرح کے ٹریبونل سامنے آئے جن میں سے پہلا وفاقی حکومت جبکہ دوسرے میں صوبائی حکومتوں کے اہلکار اور سیاستدان آتے تھے۔
وفاقی ٹربیونل کی قیادت سپریم کورٹ کے ایک جج جبکہ صوبائی ٹریبونل کی سربراہی ہائی کورٹ کے ایک جج کرتے تھے جبکہ ان دونوں کے دیگر ارکان میں ایک ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ اور فوج کے ایک ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل شامل تھے۔
ایبڈو قانون کے مطابق الزامات ثابت ہونے کی صورت میں ملزم خودبخود ، یکم جنوری 1960 سے 31 دسمبر 1966 تک یعنی آئندہ چھ سال تک کسی بھی سیاسی عہدے کے لیے نااہل ہو جائے گا۔ بصورتِ دیگر ، الزامات کا سامنا نہ کرنے پر رضاکارانہ طور پر چھ سال کے لیے جرم قبول کرتے ہوئے نااہل تصور ہوگا۔
کون کون نااہل ہوا؟
1950 کی دھائی کے 98 سیاستدانوں پر بدعنوانیوں کے مقدمات چلے جن میں زیادہ تر مسلم لیگ کے اہم رہنما شامل تھے۔ سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کے علاوہ تین سابق صوبائی وزرائے اعلیٰ ، میاں ممتاز دولتانہ ، خان عبدالقیوم خان اور محمد ایوب کھوڑو سمیت 70 سیاستدانوں نے رضاکارانہ طور پر سیاست سے کناراکشی اختیار کرکے اپنی جان چھڑا لی تھی۔ 28 سیاستدانوں نے مقدمات کا سامنا کیا ، صرف چھ افراد بری ہوئے۔ سزا پاکر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگوانے والے 22 سیاستدانوں میں سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی بھی تھے۔
ایبڈو کے قانون کی معیاد 31 ستمبر 1966ء تک تھی جس کے بعد کئی "بدعنوان سیاستدان" پھر سے فعال ہو گئے تھے۔
"رضاکارانہ" نااہل سیاستدان
ایبڈو قانون کے نفاذ کے بعد مقدمات کا سامنا کرنے کی بجائے رضا کارانہ طور پر چھ سالہ نااہلی اختیار کرنے والے چند خاص خاص سیاستدان مندرجہ ذیل ہیں:
- سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور وزیرِ اعظم پاکستان ، ملک فیروز خان نون (1957/58)
- سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب ، افتخار حسین ممدوٹ (1947/49)
- سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب ، میاں ممتاز محمد خان دولتانہ (1951/53)
- سابق وزیر اعلیٰ سندھ ، محمد ایوب کھوڑو (1947/48)
- سابق وزیر اعلیٰ سندھ ، پیر الہٰی بخش (1948/49)
- سابق وزیر اعلیٰ سندھ اور سابق سفیر ، یوسف ہارون (1949/50)
- سابق وزیر اعلیٰ سندھ ، قاضی فضل اللہ (1950/51)
- سابق وزیر اعلیٰ سندھ ، پیرزادہ عبدالستار (1953/54)
- سابق وزیر اعلیٰ سرحد ، خان عبدالقیوم خان (1947/53)
- پہلے گورنر مغربی پاکستان ، نواب مشتاق احمد گورمانی (1955/57)
- بلوچستان کے نواب اکبر خان بگٹی
- سیدہ عابدہ حسین کے والد کرنل عابد حسین
Elected Bodies Disqualification Order (EBDO)
Friday, 7 August 1959
General Ayub Khan passed the Elected Bodies Disqualification Order (EBDO) on August 7, 1959 and 92 leaders were disqualified for participating in political activities for 8 years..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
14-08-1973: صدرفضل الہٰی چوہدری
26-06-2020: آمروں کی GDP گروتھ
04-02-2004: ڈاکٹر عبد القدیر خان کی تذلیل