پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
بدھوار 13 اپریل 1949ء
پاکستان کا پاسپورٹ
پاکستان کا پہلا پاسپورٹ
وزیرِاعظم لیاقت علی خان
کے نام جاری ہوا تھا
پاکستان کا پہلا پاسپورٹ، پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم، نوابزادہ لیاقت علی خان کے نام 13 اپریل 1949ء کو جاری ہوا تھا۔۔!
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے اس پہلے تاریخی پاسپورٹ کو کراچی کے محکمہ امیگریشن نے 23 نومبر 1978ء کو ردی کے ایک ڈھیر سے برآمد کیا تھا جس سے ہمارے سرکاری محکموں کی کارکردگی اور سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
1949ء میں پاکستان میں پاسپورٹ بنوانے کی فیس دس روپے ہوتی تھی جو 2024ء میں پانچ سالہ مدت کے ایک عام پاسپورٹ کے لیے دس ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔
اسد سلیم کا پاسپورٹ
وکی پیڈیا پر درج یہ بات درست نہیں ہے کہ پاکستان کا پہلا پاسپورٹ 000001 تھا جو 15 ستمبر 1947ء کو اسد سلیم کے نام سے جاری ہوا تھا۔ اس صفحہ کے آخر میں یہ اعتراف موجود ہے کہ یہ ایک برطانوی پاسپورٹ تھا جس پر شہریت کے خانے میں "برطانوی شہری" کی بجائے "پاکستانی شہری" درج کیا گیا تھا۔
بدقسمتی سے پاکستان بنانے والوں نے کسی قسم کا کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ انھیں شاید توقع ہی نہیں تھی کہ پاکستان واقعی حقیقت کا رنگ بھرنے والا ہے۔ یہی وجہ تھی قیامِ پاکستان کے بعد کئی ماہ تک، آئین و قانون، نوٹ، کرنسی، ڈاک ٹکٹ، پاسپورٹ اور دیگر اہم سرکاری دستاویزات برطانوی ہند کی ہوتی تھیں جن پر "پاکستان" چسپاں کروا کے کام چلایا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ خود بانیِ پاکستان قائدِاعظمؒ بھی تاحیات برطانوی پاسپورٹ ہولڈر رہے جبکہ دیگر سرکاری اہلکاروں کو بیرونِ ملک جانے کے لیے خصوصی سفری دستاویزات جاری کی جاتی تھیں۔
پاکستانی پاسپورٹ کا ارتقائی سفر
50 کی دھائی کا پاسپورٹ
اس وقت تک پاکستانیوں کو بھارت سمیت کسی بھی ملک کا قبل از آمد ویزا لینے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔
جب دو پاکستان بنے!
1954ء میں "ون یونٹ" کا قیام عمل میں آیا جس کے مطابق موجودہ پاکستان کے سبھی صوبوں اور ریاستوں کو ختم کر کے ایک صوبہ "مغربی پاکستان" بنایا گیا اور اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے صوبے "مشرقی بنگال" (یا بنگلہ دیش) کو "مشرقی پاکستان" کا نام دے کر عملی طور پر ایک کی بجائے دو پاکستان بنا دیے گئے تھے۔
اس کا عملی مظاہرہ پاسپورٹ کی صورت میں بھی ہوا جو اب گہرے سبز رنگ کا ہو گیا تھا لیکن "مغربی پاکستان" کے پاسپورٹ پر انگریزی اور اردو جبکہ "مشرقی پاکستان" کے پاسپورٹ پر انگریزی اور بنگالی میں "پاکستان پاسپورٹ" درج ہوا۔ اس حماقت کا جلد ہی ادراک ہوا اور دونوں حصوں کے لیے یکساں پاسپورٹ جاری ہوا جس پر انگریزی، اردو اور بنگالی تحریریں تھیں۔
1954ء میں بھی پاکستانی پاسپورٹ، بھارت سمیت زیادہ تر ممالک میں بغیر ویزے کے قابلِ قبول تھا لیکن اسرائیل، اپنے قیام سے ہی پاکستان کے پاسپورٹ پر ایک ممنوع ملک کے طور پر موجود رہا۔ اسی سال امریکہ سے ایک فوجی اور اقتصادی معاہدہ ہوا جس کے تحت پاکستان روسی بلاک کے خلاف اعلانیہ طور پر سامنے آیا، اس لیے کمیونسٹ ممالک میں داخلہ بھی بغیر ویزہ کے ممکن نہ رہا۔
جب پاکستان اور بھارت کے مابین سفر کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی!
یاد رہے کہ تقسیم کے بعد ساٹھ کی دھائی تک، پاکستان اور بھارت کا ایک مشترکہ پاسپورٹ ہوتا تھا جس سے دونوں اطراف کے مہاجرین اور ان کے خاندان مستفید ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ 1965ء کی جنگ تک جاری رہا۔
ایوب دورِ حکومت میں پاکستانی پاسپورٹ
60 کی دھائی کا پاسپورٹ
پاکستان کے پہلے فوجی آمر فیلڈ مارشل محمدایوب خان کے دورِ حکومت (1958/69) میں پہلی بار 1960ء میں ہلکے سبز رنگ کے نئے پاسپورٹ جاری کیے گئے جن سے بنگالی تحریر اور قومی پرچم حذف کر دیے گئے اور صرف انگریزی اور اردو میں "پاکستان پاسپورٹ" باقی رہا۔ اس طرح سے بنگالیوں کے احساسِ محرومی میں بے حد اضافہ ہوا۔
اسی دور میں پاسپورٹ کے سرورق پر پہلی بار قومی نشان، طغریٰ یا emblem کا اضافہ کیا گیا جو آج تک برقرار ہے۔ 1967ء میں پاسپورٹ کا رنگ مزید گہرا سبز کر دیا گیا اور مشرقی پاکستان میں شدید سیاسی بے چینی کے بعد بنگالی زبان کی تحریر بھی واپس آگئی تھی۔
ایوب دور میں سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی کہ بھارت کے ساتھ 1965ء کی جنگ کی وجہ سے تعلقات کشیدہ ہوگئے اور مہاجرین کا مشترکہ پاسپورٹ بھی ختم ہوا اور بغیر ویزہ کے سفر کی سہولت بھی ختم کر دی گئی تھی۔
ان کے علاوہ چین واحد کمیونسٹ ملک تھا جہاں بلا ویزہ جانا ممکن ہوتا تھا لیکن روس سمیت باقی کمیونسٹ ممالک کے علاوہ اسرائیل کے لیے بدستور پاسپورٹ کارآمد نہیں تھا۔
بھٹو دورِ حکومت میں پاکستانی پاسپورٹ
بھٹو دورِ حکومت (1971/77) میں پہلی بار پاسپورٹ کا حصول عام اور آسان ہوا جب مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو بڑی تعداد میں افرادی قوت مہیا کی گئی تھی جس نے پاکستانیوں کے معاشی حالات بدل دیے تھے۔
اس دور میں ساٹھ ممالک میں قبل از وقت ویزہ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی جبکہ سو سے زائد ممالک میں آمد پر ویزہ مل جاتا تھا جن میں روسی بلاک کے ممالک بھی شامل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھٹو دور میں امریکہ نے پاکستانی پاسپورٹ پر سختی کرنا شروع کردی تھی جو اب ایک اتحادی نہیں رہا تھا۔ علاوہ ازیں، پاکستانی پاسپورٹ پر یہ الگ سے تحریر ہوتا تھا کہ "یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔"
جنرل ضیاع کے دورِ حکومت میں پاکستانی پاسپورٹ
پاکستان کے پاسپورٹ پر
"اسلامی جمہوریہ" کا اضافہ
پہلی بار1984ء میں ہوا تھا
جنرل ضیاع مردود کے دور میں پہلی بار 1984ء میں پاکستان کے پاسپورٹ پر اردو اور انگریزی میں "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کے علاوہ عربی کا اضافہ بھی کیا جو مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کی سہولت کے لیے تھا۔ اس کے علاوہ پاسپورٹ کے مواد میں مذہب کا خانہ بھی شامل کر دیا گیا اور پاسپورٹ کے حصول کے لیے درخواست گزار کو ایک اقرار نامے پر بھی دستخط کرنا پڑتا تھا کہ وہ، قادیانی نہیں ہے۔
یہی دور تھا جب نام نہاد افغان جہاد اپنے عروج پر تھا جس کا پاکستانیوں کو سب سے بڑا انعام یا سزا، ہیروئن، کلاشنکوف اور دہشت گردی کی صورت میں ملی۔ پاکستانی، منشیات، مجاہدین اور انسانی سمگلنگ میں بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے لگے اور نتیجہ یہ نکلا کہ برطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک نے پاکستانیوں کو آمد پر ویزہ دینا کرنا بند کر دیا تھا۔
اس دوران خلیجی ریاستوں نے بھی اپنی پالیسیاں تبدیل کرنا شروع کر دیں اور پاکستانیوں کو متحدہ عرب امارات، قطر، عمان، کویت اور سعودی عرب کے لیے قبل از آمد ویزہ لینا پڑتا تھا۔ لیبیا اور شام نے بھٹو کی پھانسی پر احتجاج کے طور پر 1979ء سے ہی پاکستانیوں کو آمد پر ویزہ فراہم کرنا بند کر دیا تھا۔ روسی بلاک ویسے ہی ناراض تھا صرف چین، مہربان تھا۔
دوہری شہرت کے لیے پاکستانی پاسپورٹ
دوہری شہریت کے لیے پاسپورٹ
2016ء سے چند یورپین ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں نے دوہری شہریت رکھنے والوں کو ایسے پاکستانی پاسپورٹ فراہم کرنے شروع کر دیے ہیں جن پر انگریزی میں صرف "پاکستان" لکھا ہوا ہے لیکن اردو میں بدستور "اسلامی جمہوریہ پاکستان" موجود ہے۔ اس کی بنیادی وجہ دنیا بھر میں اسلامی فوبیا ہے کیونکہ پاکستانی پاسپورٹ پر "اسلامی جمہوریہ" درج ہونے کی وجہ سے غیرمسلم اہلکار بدک جاتے ہیں اور ایسے پاسپورٹ ہولڈرز کو دہشت گرد سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ کی بے قدری اور بے توقیری کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔۔!
موجودہ صورتحال
گزشتہ چار دھائیوں سے پاکستانی پاسپورٹ مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ مشرف دورِحکومت (1999/2008) میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں مال و جان کے علاوہ عزت و ناموس کی بھاری قربانیاں بھی سب سے زیادہ پاکستانیوں نے دیں لیکن انھیں دنیا بھر میں خوش آمدید کہنے والے بھی گنے چنے رہ گئے تھے۔
2006ء سے پاسپورٹ انڈکس کے اعداوشمار آن لائن موجود ہیں جن کے مطابق 2006ء میں مشرف دورِ حکومت میں پاکستان 79ویں نمبر پر تھا لیکن پاکستانی صرف 17 ممالک میں بلا ویزہ جا سکتے تھے۔
2010ء میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اب تک کی سب سے بہترین پوزیشن تھی جب 36 ممالک میں ایک پاکستانی بلا ویزہ سفر کر سکتا تھا۔ اب تک کی سب سے بدترین صورتحال 2021ء میں عمران خان کے دور میں رہی جب پاکستان 113ویں نمبر پر چلا گیا تھا جو 2024ء میں 103ویں نمبر پر ہے لیکن دنیا کے آخری چار ممالک میں شمار ہوتا ہے اور صرف 34 ممالک میں بغیر ویزہ جانے کی اجازت ہے۔
جن ممالک میں پاکستانی شہری بلا ویزہ سفر کر سکتے ہیں ان میں کوئی ایک بھی مغربی ملک ، جہاں بیشتر پاکستانی جانا پسند کرتے ہیں ، یعنی یورپین ممالک ، امریکہ ، کینیڈا ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ شامل نہیں ہیں جبکہ ہمارے برادر اسلامی عرب ممالک میں صرف قطر ہی بغیر ویزہ کے پاکستانیوں کو خوش آمدید کہہ رہا ہے۔ ترکی اور ایران تک ہمیں بغیر اجازت گھر آنے کی اجازت نہیں دے رہے۔
Pakistan Passport
Wednesday, 13 April 1949
First Pakistani passport was issued to Prime Minister Liaqat Ali Khan on April 13, 1949..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
26-11-1970: صدر یحییٰ اور مشرقی پاکستان کا طوفان
12-01-1961: دوسری مردم شماری
11-07-1961: صدر ایوب کا دورہ امریکہ