پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
ہفتہ 25 دسمبر 1915
پنجاب کا نہری نظام
پنجاب کا نہری نظام
انگریزوں کا بہت بڑا احسان تھا
پنجاب کا عظیم نہری نظام ، قیامِ پاکستان سے قبل انگریز دور میں 1886ء اور 1940ء کے درمیان قائم ہوا۔۔!
غیر منقسم خطہ پنجاب ، اپنے پانچ دریاؤں ، جہلم ، چناب ، راوی ، ستلج اور بیاس کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ زیادہ تر آبادکاری اور کاشتکاری انھی دریاؤں کے آس پاس ہوتی تھی جو پنجاب کا وسطی اور گنجان آباد علاقہ ہوتا تھا۔
موجودہ پاکستانی پنجاب کا بیشتر جنوب مشرقی حصہ غیرآباد ہوتا تھا جس کو بارانی علاقہ بھی کہا جاتا تھا۔ کم بارشوں کی وجہ سے یہاں زیادہ تر کھیتی باڑی مقامی کنوؤں کی مرہون منت ہوتی تھی جو کسی بھی گاؤں کا مرکزی مقام ہوتا تھا۔ پنجاب کا وسیع تر علاقہ جنگلوں ، چراگاہوں اور بیابانوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ بہاولپور ، انگریز راج کے تحت ایک "آزاد" لیکن باجگزار ریاست تھی جو پنجاب کا حصہ نہیں ہوتی تھی لیکن صوبہ کے پی کے ہندکو علاقے بھی پنجاب کا حصہ ہوتے تھے۔
انگریزوں کا نہری نظام
تاریخ میں پنجاب کو بے شمار حملہ آوروں نے تخت و تاراج کیا لیکن اس کو آباد کرنے کا سہرا انگریزوں کے سر جاتا ہے جنھوں نے 1849ء میں پنجاب فتح کیا تو اس خطہ پر جو سب سے بڑا احسان کیا ، وہ نہری نظام کا قیام تھا۔
اپنی فوج کی ضروریات پوری کرنے اور محصولات میں اضافہ کے لیے نئے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔ پنجاب کے وسیع تر غیرآباد علاقے کو آباد کرنے کے لیے نصف صدی میں نو نہریں کھودی گئیں جن سے مزید چھوٹی بڑی نہریں ، نالے ، سوئے ، موگھے اور کھالیں وغیرہ بنے اور زیر کاشت رقبہ تین گنا بڑھ گیا جس سے دیگر زرعی اجناس کے علاوہ گندم ، کپاس اور گنا جیسی بنیادی پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوا۔
نہری نظام کے خالق
1880ء کی دھائی میں ایک منظم طریقے سے پنجاب بھر میں آپ پاشی کے نظام کے لیے ارضیاتی سروے کیا گیا۔ یہ عظیم منصوبہ گورنر پنجاب Charles Umpherston Aitchison کی زیرنگرانی شروع ہوا جنھیں پنجاب یونیورسٹی اور ایچی سن کالج لاہور جیسے عظیم تعلیمی ادارے بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
انجینئرنگ کا یہ عظیم کارنامہ بہترین حکمت عملی لیکن جدید مشینری کے بغیر مزدوروں کے قوت بازو اور دستی اوزاروں سے پایہ تکمیل تک پہنچا۔ پنجاب کے شمال میں پہاڑی علاقوں سے جنوب کی طرف میدانی علاقوں اور دریاؤں اور نہروں کے قدرتی ڈھلان کی وجہ سے نہری پانی کی روانی آسان رہی۔ 33 ہزار 612 کلومیٹر لمبی ان نو نہروں کی تکمیل سے صوبہ پنجاب کا کل زرعی رقبہ 30 لاکھ ایکڑ سے بڑھ کر ایک کروڑ 40 لاکھ ایکڑ ہوگیا تھا۔
نو نہروں کی تفصیل
- جچ یا چج دو آب یا دریائے جہلم سے دریائے چناب کے درمیان دو نہریں ، "اپر جہلم اور لوئر جہلم"
- رچنا دو آب یا دریائے چناب اور روای کے درمیان بھی دو نہریں "اپر چناب اور لوئر چناب"
- باری دو آب یا دریائے راوی اور ستلج/بیاس کے درمیان پانچ نہریں ، "چونیاں ، نیلی بار ، سوہاگ پارا ، سدھنائی اور لوئر باری دو آب"
یاد رہے کہ 1905/12ء میں جچ دو آب کی دو نہروں میں سے پہلی "نہر اپر جہلم" کا افتتاح 25 دسمبر 1915ء کو ہوا جبکہ 1960ء کی دھائی میں سندھ طاس معاہدہ کے تحت مزید آٹھ رابطہ نہروں کی تعمیر ہوئی تھی۔
پنجاب کینال کالونیاں
یہ صرف ایک جدید نہری نظام ہی نہیں بلکہ لاکھوں افراد کے لیے ایک بہت بڑا آبادکاری کا انقلابی نظام بھی تھا۔ بارانی علاقوں میں آب پاشی کی سہولیات دستیاب ہونے پر انگریز سرکار نے بڑی تعداد میں فوج کے علاوہ دیگر بااثر ، اہل اور منظورِنظر افراد کو کاشت کاری کے لیے زمینیں الاٹ کیں جن سے مالیہ اور آبیانہ بھی وصول کیا جاتا تھا۔ بہت سی نئی بستیاں آباد کیں جنھیں "پنجاب کینال کالونیاں" کہا جاتا تھا۔ فیصل آباد (لائل پور) ، ساہیوال (منٹگمری) اور سرگودھا جیسے بڑے بڑے شہر اسی آبادکاری کے نتیجہ میں وجود میں آئے جہاں مقامی صنعتیں بھی قائم کی گئیں جن میں کپڑا بننے کی فیکٹریاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
جاگیرداری نظام کا قیام
انگریزوں کی ان آباد کاریوں کے نتیجہ میں جو دیہات آباد ہوئے انھیں "چک" کہا جاتا تھا جہاں پٹواری اور نمبرداری سسٹم وجود میں آیا۔ ایسی آبادکاریوں نے جہاں استحصالی طبقہ یعنی جاگیرداری ، زمینداری اور چوہدراہٹ کا نظام متعارف کروایا وہاں محکوم طبقات یعنی کاشت کار ، کسان ، ہاری اور مزارعہ وغیرہ سامنے آئے۔ جاٹ یا جٹ قوم ، عام طور پر کاشت کاری کرتی جبکہ گجر قوم مال مویشی پالتی تھی۔
"غیر کاشتکار"
ان تمام نوآبادیوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شہری علاقوں سے دیگر ہنرمند افراد مثلاً لوہار ، ترکھان ، سونار ، موچی ، نائی ، قصائی ، درزی ، دھوبی ، کاسبھی ، ماچھی ، مسلی اور میراثی وغیرہ کی نقل مکانی ہوئی جنھیں "غیرکاشتکار" بھی کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ مقامی زمینداروں کے کارندے ہوتے تھے جو سال بھر کے اناج کے بدلے میں خدمات انجام دیتے جنھیں پنجابی زبان میں "سیپ" کہتے تھے۔ متعصب اور متکبر لوگ حقارت سے انھیں "کمی کمین" بھی کہتے تھے جس سے ہنرمند افراد کی حوصلہ شکنی ہوتی تھی۔
پنجاب میں آبادکاریاں
- 1886/88ء میں "سدھنائی کالونی" کے نام پر ملتان اور "سوہاگ پاڑا کالونی" کے نام پر ساہیوال جبکہ 1916/40ء میں ایک بار پھر "نیلی بار" کے نام سے آباد کاری ہوئی۔
- 1892ء سے 1930ء میں "چناب کالونی" کے نام پر گوجرانوالہ ، جھنگ ، فیصل آباد ، لاہور اور شیخوپورہ میں آبادکاری ہوئی۔ یہ سب سے بڑی کالونی تھی جس میں لائل پور (فیصل آباد) جیسا شہر بھی وجود میں آیا۔
- 1896/1905ء اور پھر 1904/05ء میں "لاہور کالونی" میں آباد کاری ہوئی۔
- 1902/06 ء میں "جہلم کالونی" کے نام سے جھنگ اور سرگودھا کے علاقوں میں آباد کاری ہوئی جہاں "گھوڑی پال" مربعے دیے گئے۔
- 1914/24ء میں ایک بار پھر "لوئر باری دو آب" کے نام پر ملتان اور ساہیوال میں آبادکاری ہوئی۔
- 1915/19ء میں "اپر چناب کالونی" کے نام سے گوجرانوالہ ، سیالکوٹ اور شیخوپورہ میں آبادکاری ہوئی۔
- 1916/21ء میں "اپر جہلم کالونی" کے نام سے گجرات کے علاقہ میں آباد کاری ہوئی۔
Punjab Canal Systems
Saturday, 25 December 1915
Punjab (Pakistan) has one of the largest canal systems which provides irrigation facilities..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
16-05-1991: گیارھویں آئینی ترمیم: ایک اور شریعت بل
06-01-2015: اکیسویں آئینی ترمیم: ملٹری کورٹس
28-02-1948: پاکستان کا پہلا بجٹ