پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
پير 25 نومبر 1974
حمودالرحمان کمیشن رپورٹ
حمودالرحمان کمیشن
1971ء کی فوجی شکست کے بارے میں بنا تھا
حمود الرحمان کمیشن رپورٹ، تاریخِ پاکستان کی ایک یادگار دستاویز ہے۔۔!
سانحہ مشرقی پاکستان اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں شرمناک فوجی شکست کی وجوہات پر تحقیقات کے لئے صدر ذوالفقار علی بھٹوؒ نے 24 دسمبر1971ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب حمود الرحمان کی سربراہی میں ایک ٹریبونل قائم کیا جو تاریخ میں "حمود الرحمان کمیشن" کے نام سے مشہور ہوا۔
کمیشن کے اراکین
اس کمیشن میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب حمود الرحمان کے علاوہ دیگر اراکین میں پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شیخ انوار الحق اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس طفیل علی عبد الرحمان کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ الطاف قادر بھی شامل تھے۔
کمیشن نے 17 جنوری 1972ء کو اپنے کام کا آغاز کیا اور 12 جولائی 1972ء کو ایک عبوری رپورٹ دی۔ جنگی قیدیوں کی بھارت سے واپسی پر کمیشن نے باقی کام مکمل کیا اور جنرل نیازی سمیت تین سو سے زائد گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے۔ 25 نومبر 1974ء کو یہ تحقیقات مکمل ہوئیں لیکن فوج کے دباؤ پر کبھی منظر عام پر نہیں آئیں۔
حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کس نے شائع کی؟
حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کا دو دھائیوں تک کبھی ذکر تک نہیں ہوا، یہاں تک کہ بھٹو، پھانسی چڑھ گیا لیکن اس کی پارٹی نے اس رپورٹ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا لیکن 21 اگست 2000ء کو بھارت کے ایک میگزین India Today نے اس رپورٹ کا خلاصہ شائع کر دیا جس کے بعد 30 دسمبر2000ء کو حکومتِ پاکستان کو بھی سرکاری طور پر پاکستانی میڈیا کے لئے بھی اس رپورٹ کا خلاصہ شائع کرنا پڑا۔
1974ء میں مکمل ہونے والی یہ خفیہ رپورٹ ربع صدی بعد جنرل مشرف کے 12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف کے تختہ الٹنے کے بعد منظرِعام پر آئی تھی۔ اس دور میں ایک امریکی اخبار میں پاکستانی فوج کے خلاف "روگ آرمی" کا جملہ بھی بڑا مشہور ہوا تھا اور یہ اسی مہم کا ایک سلسلہ تھا۔ اس احساس رپورٹ کو اتفاق سے ایک بار پھر ربع صدی بعد مئی 2024ء میں عمران خان کی پارٹی نے ہوسِ اقتدار میں موضوعِ بحث بنا دیا ہے جو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف ایک شرمنام مہم کا حصہ لگتا ہے۔
بنگلہ دیش نے بھی اس رپورٹ کو شائع کیا جبکہ پیپلز پارٹی کی سرکاری ویب سائٹ پر بھی اس کی تفصیل درج ہے۔
کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش
حمود الرحمان کمیشن نے شکست کے بڑے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کرنے کی مختلف سفارشات کیں لیکن ان پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے مندرجہ ذیل اہم کرداروں کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی گئی تھی:
جنرل یحییٰ خان
جنرل یحییٰ خان، سقوطِ مشرقی پاکستان کے وقت پاکستان کے مختارِ کل تھے اورسب سے بڑے قصوروار قرار پائے۔ صدر، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، وزیرِ دفاع اور وزیر خارجہ کے عہدے ان کے پاس تھے۔ انھوں نے وعدے کے باوجود اقتدار اکثریتی پارٹی کو نہیں سونپا اور اچانک فوجی کاروائی سے بنگالی بغاوت کو بڑی بربریت کے ساتھ دبانے کی کوشش کی جس میں سخت ناکامی ہوئی اور پاکستان کو تاریخ کی ایک شرمناک ترین فوجی شکست کا سامنا ہوا تھا۔
بھٹو دورِ حکومت میں یحییٰ خان اپنے گھر میں نظر بند رہے لیکن جنرل ضیاع مردود نے رہا کر دیا تھا۔ انھوں نے اپنی طبعی عمر پوری کی اور 10 اگست 1980ء کو اپنے بھائی کے گھر میں انتقال ہوا۔ آرمی قبرستان میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین کی گئی تھی۔
جنرل عبد الحمید خان
جنرل عبد الحمید خان
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹوؒ نے 20 دسمبر 1971ء کو حکومت سنبھالتے ہی نئے آرمی چیف جنرل گل حسن کی سفارش پر جن سات سینئر جرنیلوں کو جبری ریٹائر کیا ان میں ایک جنرل عبد الحمید خان تھے جو جنرل یحیٰی خان کا دایاں ہاتھ تھے اور نائب صدر کے علاوہ ڈپٹی کمانڈر انچیف اور ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ میں قصور کے محاذ پر دشمن کو شکست دی اور کھیم کرن فتح کیا لیکن 1971ء کی جنگ میں جنگی جرائم کے مرتکب قرار پائے۔ انھوں نے بھی طبعی عمر پوری کی اور حالتِ گمنامی میں لاہور کینٹ کے ایک گھر میں وفات ہوئی تھی۔
لیفٹیننٹ جنرل ایم ایم پیرزادہ
لیفٹیننٹ جنرل ایم ایم پیرزادہ، صدر یحییٰ خان کے پرنسپل سٹاف آفیسر تھے۔ برطرفی کے بعد تادمِ مرگ گوشہ نشین رہے۔
لیفٹیننٹ جنرل گل حسن خان
جنرل گل حسن خان
لیفٹیننٹ جنرل گل حسن خان، سقوطِ ڈھاکہ کے وقت "چیف آف جنرل سٹاف" تھے۔ بھٹو حکومت نے انھیں برطرف کرنے کے بجائے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر فوج کا آخری " کمانڈر انچیف" مقرر کر دیا۔ اس کے بعد یہ عہدہ "چیف آف آرمی سٹاف" بنا دیا گیا تھا۔ جنرل گل (یا فوج ہی) کی سفارش پر صدر بھٹو نے سات سینئر جرنیلوں کو برطرف کیا تھا۔ یاد رہے کہ جنرل گل کے خلاف کاروائی کی سفارش بعد میں ہوئی تھی۔
صدر بھٹو نے چند ماہ بعد جنرل گل حسن کو ایئرفورس کے سربراہ ایئر مارشل رحیم خان اور نیوی کے سربراہ مظفر حسن کے ساتھ برطرف کر دیا تھا۔ برطرفی اور تمام مراعات اور تمغے واپس لینے کے باوجود انھیں آسٹریا میں سفیر مقرر کر دیا گیا۔ 10 اکتوبر 1999 کو انتقال ہوا اور مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک ہوئے۔
میجر جنرل غلام عمر
میجر جنرل غلام عمر
میجر جنرل غلام عمر، نیشنل سکیورٹی کونسل میں صدر یحیٰی خان کے نائب تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے 1970ء کے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے لیے پاکستانی صنعت کاروں سے فنڈز جمع کیے جو "دوست سیاسی قوتوں" میں تقسیم کیے تھے۔
جنرل غلام عمر کو بھی 20 دسمبر 1971ء کو برطرف کرنے کے بعد کچھ عرصہ تک نظربند رکھا گیا۔ مبینہ طور پر صدر بھٹو سے اپنے غیر پیشہ وارانہ کرتوتوں پر تحریری معافی نامے کے بعد رہائی نصیب ہوئی تھی۔ جنرل ضیاع مردود کے دور میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے چیئرمین رہے تھے۔
میجر جنرل غلام عمر، مسلم لیگ نون کے رہنما اور سندھ کے سابق گورنر، محمد زبیر اور تحریکِ انصاف کے رہنما اور سابق وزیرِخزانہ، اسد عمر کے والد تھے۔
میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا
جنرل مٹھا
میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا، اپنی برطرف کے وقت فوج کے کوارٹر ماسٹر جنرل تھے۔ مبینہ طور پر انھوں نے مشرقی پاکستان میں 25 مارچ کے" آپریشن سرچ لائٹ" کی ٹیکنیکل پلاننگ میں حصہ لیا تھا۔ دسمبر 1999ء میں لندن میں انتقال ہوا تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل ارشاد احمد خان
لیفٹیننٹ جنرل ارشاد احمد خان، ون کور کے کمانڈر تھے اور ان کی کمانڈ میں کنٹرول لائن سے سیالکوٹ تک کا دفاع شامل تھا لیکن انھوں نے شکر گڑھ کے پانچ سو دیہات بلامزاحمت دشمن کے حوالے کر دیے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد گمنام ہوگئے تھے۔ یاد رہے کہ سقوطِ ڈھاکہ تو ایک المیہ تھا ہی لیکن مغربی محاذ پر بھی دشمن نے فوجی جرنیلوں کی نااہلی کی وجہ سے ساڑھے پانچ ہزار مربع میل کا پاکستانی علاقہ ہتھیا لیا تھا۔
میجر جنرل عابد علی زاہد
میجر جنرل عابد علی زاہد کے پاس سیالکوٹ سیکٹر کے دفاع کی ذمہ داری تھی جہاں انھوں نے 98 دیہات بغیر کسی مزاحمت کے دشمن کے حوالے کر دیے اور GHQ کو اس اہم پسپائی سے بے خبر رکھا تھا۔ جب جنگ بندی ہوئی تو انڈین دستے مرالہ ہیڈورکس سے صرف ڈیڑھ ہزار گز کے فاصلے پر تھے۔
میجر جنرل بی ایم مصطفیٰ
میجر جنرل بی ایم مصطفیٰ پر الزام تھا کہ راجستھان سیکٹر میں رام گڑھ کی جانب بغیر کسی منصوبہ بندی کے عجلت میں پیش قدمی کے نتیجے میں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ وہ بھی گمنامی ہی میں فوت ہوئے۔
کورٹ مارشل کی سفارشات
حمودالرحمان کمیشن نے مندرجہ ذیل چھ فوجی افسران کے خلاف سنگین جنگی جرائم کی پاداش میں کورٹ مارشل کرنے کی سفارش کی تھی:
لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی
جنرل نیازی
"ٹائیگر نیازی" کہلانے والے جنرل نیازی کو دوسری جنگِ عظیم میں برما کے محاذ پر اپنی جوانمردی کی وجہ سے برطانیہ کا سب سے بڑا فوجی اعزاز "ملٹری کراس" ملا تھا۔ پاکستانی فوج کے سب سے زیادہ "ڈیکوریٹڈ سولجر" مانے جاتے تھے۔ جب بیشتر جرنیلوں نے ایسٹرن کمان کی پوسٹنگ لینے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو "ٹائیگر نیازی" نے خود کو اس مشکل کام کے لیے پیش کر دیا تھا۔
جنرل نیازی کے خلاف 15 الزامات میں کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی تھی۔ ان پر بربریت و سنگدلی، اخلاقی بے راہ روی اور پان کی سمگلنگ کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔ بھٹو حکومت نے جنرل نیازی کو رینکس اور ہلالِ جرات سمیت دیگر تمغے اور پنشن ضبط کر کے برطرف کر دیا تھا۔
جنرل نیازی نے اپنی کتاب ’دی بٹریل آف ایسٹ پاکستان‘ میں اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی اور ایک سیاسی جماعت بھی بنائی۔ مرتے دم تک اپنے کورٹ مارشل کا مطالبہ کرتے رہے۔ طویل عمر پائی اور 2 فروری 2004ء کو گمنامی میں انتقال ہوا تھا۔
میجر جنرل محمد جمشید
میجر جنرل محمد جمشید کے 36 ڈویژن کو ڈھاکہ کا دفاع کرنا تھا۔ ان پر حمود الرحمان کمیشن نے پانچ فردِ جرم عائد کیں۔ جن میں غبن، لوٹ مار اور ماتحتوں کی جانب سے نیشنل بینک سراج گنج شاخ سے ایک کروڑ 35 لاکھ روپے لوٹنے جیسے الزامات بھی شامل ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 16 دسمبر کے بعد ان کی اہلیہ کے قبضے سے خاصی کرنسی برآمد ہوئی۔ پاکستان واپسی کے بعد گوشہ نشین ہو گئے تھے۔
میجر جنرل رحیم خان
میجر جنرل رحیم خان کا 39 ڈویژن کومیلا میں متعین تھا جہاں پسپا ہوتے ہوئے زخمی ہوئے اور اپنی جان بچاتے ہوئے ایک ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر برما کے راستے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ بعد میں سیکریٹری جنرل وزارتِ دفاع اور چیئرمین PIA رہے۔ الشفا آئی ٹرسٹ کے وائس صدر بھی رہے۔
بریگیڈیئر باقر صدیقی
بریگیڈیئر باقر صدیقی، "چیف آف سٹاف، ایسٹرن کمانڈ" تھے اور جنرل نیازی کا دایاں ہاتھ تھے۔ ان پر الزام تھا کہ 10 دسمبر کو GHQ کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا جس میں کہا گیا تھا کہ پسپا ہونے والے دستے اپنے آلات اور رسد کو ناکارہ بناتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑدیں۔ ان کے بریگیڈ نے جنرل ناگرہ کے سامنے رسمی طور پر ہتھیار ڈالے تھے۔
بریگیڈیر باقر صدیقی کو بعد ازاں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا لیکن پھر مختصر عرصے کے لیے بحال کر کے باعزت ریٹائر کیا گیا۔ کچھ عرصہ تک پی آئی اے شیور کے سربراہ بھی رہے۔
بریگیڈیئر محمد حیات
بریگیڈیئر محمد حیات، 39 ڈویژن کے 107 بریگیڈ کے کمانڈر تھے جو جیسور کے دفاع کا ذمہ دار تھا۔ مبینہ طور پر انھوں نے بزدلی کا مظاہرہ کیا اور 6 دسمبر 1971ء کو ہی اپنے جوانوں کو بے یارومدد گار چھوڑ کر محاذ سے بھاگ گئے اور پوری سپلائی اور اسلحہ دشمن کے ہاتھ لگ گیا تھا۔
بریگیڈیئر محمد اسلم نیازی
بریگیڈیئر محمد اسلم نیازی پر بھی بزدلی کا الزام تھا۔ 9 ڈویژن میں 53 بریگیڈ کے کمانڈر تھے لیکن لکشم کے علاقے میں 9 دسمبر 1971ء کو بیمار اور زخمی جوانوں کو بے یارومدد گار چھوڑ کر بھاگ گئے اور سارا راشن اور ایمونیشن دشمن کے ہاتھ لگ گیا تھا۔
محکمہ جاتی کارروائی کی سفارش
حمود الرحمان کمیشن نے مندرجہ ذیل فوجی افسران کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی سفارش کی تھی:
بریگیڈیر ایس اے انصاری
بریگیڈیر ایس اے انصاری، 23 بریگیڈ کے کمانڈر تھے۔ ان کا نام ان 195 فوجی افسران کی فہرست میں شامل تھا جن پر بنگلہ دیش کی حکومت جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلانے پر بضد تھی لیکن بھٹو صاحب کی کمال دانشمندی سے ایک بھی فوجی افسر پر مقدمہ نہیں چلنے دیا گیا تھا۔
بریگیڈیئر عبدالقادر خان
بریگیڈیئر عبدالقادر خان، 36 ڈویژن کے 93 بریگیڈ کے کمانڈر تھے۔ اپنی بڑی بڑی مونچھوں کی وجہ سے مشہور تھے اور ان کے ذمہ محبِ وطن اور غدار بنگالیوں کی چھانٹ پھٹک شامل تھی۔ بھارتی دستے جب ڈھاکہ کے مضافاتی علاقے جمال پور پر قبضہ کے لیے پیراشوٹوں کی مدد سے اترے تو انھیں یہ مغالطہ ہوا کہ چین کی مدد آگئی ہے، اس پر گرفتار ہوگئے تھے۔
بریگیڈیر منظور احمد
بریگیڈیر منظور احمد، 9 ڈویژن کے 57 بریگیڈ کے کمانڈر تھے۔ ان کے خلاف بھی محکمہ جاتی ایکشن کی سفارش کی گئی تھی۔
نااہل فوجی افسران
حمودالرحمان کمیشن نے 4 میجر جنرلوں اور 19 بریگیڈیئرز کو نااہل قرار دیا اور سفارش کی کہ یہ اپنی کمزور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی وجہ سے مزید فوجی سروس کے قابل نہیں رہے:
میجر جنرل راؤ فرمان علی
جنرل راؤ فرمان علی
میجر جنرل راؤ فرمان علی، برسوں مشرقی پاکستان میں سراغ رسانی اور سیاسی جوڑ توڑ وغیرہ میں مشغول رہے۔ ان کی ایک قبضہ شدہ ڈائری میں یہ تاریخی جملہ لکھا ہوا ملا: "مشرقی پاکستان کے سبزہ زار کو سرخ کرنا ہو گا!"
خود ایسٹرن کمانڈر جنرل نیازی نے راؤ فرمان علی پر یہ الزام لگایا تھا کہ انھوں نے قید میں موجود دو سو کے لگ بھگ بنگالی دانشوروں اور اساتذہ کو قتل کروا دیا تھا۔ ڈھاکہ میں 25 مارچ کی رات کو شروع ہونے والے آپریشن سرچ لائٹ کے اہم کردار بھی تھے۔
1973ء میں جنگی قیدی کے طور پر بھارتی قید سے رہائی پر راؤ فرمان علی کو ریٹائر کر دیا گیا تاہم ان کی پنشن، رینکس اور تمغے بحال رہے۔ جنرل ضیاع مردود کی حکومت میں شامل رہے اور دو برس پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وفاقی وزیر رہے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’پاکستان کیسے تقسیم ہوا‘ میں اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ 21 جنوری 2004 ء کو انتقال ہوا تھا۔
میجر جنرل محمد حسین انصاری
میجر جنرل محمد حسین انصاری، 9 ڈویژن کے کمانڈر تھے۔ قید سے واپسی پر لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین رہے۔ جمعیت علمائے پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا انتخاب بھی لڑا۔ بعد ازاں جماعتِ اسلامی کے احتساب سیل کے نگراں رہے اور فروغِ تعلیم و صحت کی این جی او میں بھی فعال رہے۔ 14 جنوری 2004ء کو وفات پائی۔
میجر جنرل قاضی عبدالمجید
میجر جنرل قاضی عبدالمجید، 14 ڈویژن کے کمانڈر تھے۔ ان کا نام بھی 195 فوجی افسران کی فہرست شامل تھا جن پر بنگلہ دیش جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلانا چاہتا تھا۔ گوشہ گمنامی میں رہے۔
میجر جنرل نذر حسین شاہ
میجر جنرل نذر حسین شاہ، 16 ڈویژن کے کمانڈر تھے۔ ان کے دستے نٹور کے علاقے میں تعینات تھے۔
کردار تھا مگر سفارش نہیں
حمودالرحمان کمیشن رپورٹ میں مزید فوجی افسران کے نام ہیں لیکن ان کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کرنے کی سفارش نہیں کی گئی تھی۔ ان میں چند اہم ترین افسران درجِ ذیل ہیں:
لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان
جنرل ٹکا خان
لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان کو "بچر آف بنگال" یا "بنگال کا قصاب" بھی کہا جاتا ہے لیکن جب حمودالرحمان کمیشن رپورٹ مکمل ہوئی تو اس وقت یعنی 25 نومبر 1974ء کو موصوف آرمی چیف تھے، اس لیے ان کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کی سفارش کرنے کی گستاخی کرنے کی عدلیہ میں جرأت ہی نہیں تھی۔ حالانکہ 25 مارچ 1971ء کی رات "آپریشن سرچ لائٹ"، جنرل ٹکا خان کی قیادت ہی میں شروع ہوا اور ان سے یہ بیان بھی منسوب ہوا کہ "مجھے لوگ نہیں، زمین چاہیے!"
لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان کے استعفے کے بعد ایسٹرن کمان کے سربراہ کے طور پر جنرل ٹکا خان کو ڈھاکہ بھیجا گیا۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں ان کی جگہ جنرل نیازی نے لے لی تھی۔
اس رپورٹ سے قبل، 3 مارچ 1972ء کو بھٹو حکومت نے جنرل گل حسن کے بعد جنرل ٹکا خان کو فور سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر کمانڈر انچیف کا عہدہ ختم کر کے پہلا چیف آف آرمی سٹاف مقرر کر دیا تھا۔ بھٹو کے ہمیشہ وفادار رہے اور جنرل ضیا مردود کے دور میں پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل بنے۔ کئی مرتبہ گرفتار بھی ہوئے۔ بینظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں گورنر پنجاب رہے۔
28 مارچ 2002ء کو جنرل ٹکا خان کی وفات ہوئی۔ ان کے جنازے میں اعلیٰ سویلین اور فوجی قیادت شریک ہوئی اور پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا تھا۔
بریگیڈیئر جہانزیب ارباب
بریگیڈیئر جہانزیب ارباب، 57 بریگیڈ کے کمانڈر تھے۔ خود جنرل نیازی اور گواہان نے ان پر اور ان کے جونئیر افسروں پر لوٹ مار اور قتل و غارت کے الزامات لگائے تھے۔ یہاں تک کہ کورٹ مارشل کی سفارش پر انھیں واپس مغربی پاکستان بھیج دیا گیا تھا۔
نام نہاد مردِ مومن، جنرل ضیا الحق کے دور میں جنرل ارباب، بحثیت کمانڈر فائیو کور سندھ کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور گورنر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد متحدہ عرب امارات میں پاکستانی سفیر بھی رہے۔
وائس ایڈمرل مظفر حسن
وائس ایڈمرل مظفر حسن، 1969ء سے 1972ء تک پاک بحریہ کے چیف رہے۔ انھیں، آرمی چیف گل حسن اور ائیر فورس چیف ایئر مارشل رحیم خان کے ساتھ نااہلی کی وجہ سے فوج کی جیگ برانچ کی سفارش پر مراعات ضبط کرکے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔
1971ء کی جنگ میں بھارتی فضائیہ نے کراچی کا پاکستانی نیول بیس تباہ و برباد کر دیا تھا اور پاکستان کی اکلوتی غازی آبدوز بھی تباہ ہوگئی تھی۔ ان شدید نقصانات پر پاک فضائیہ کے قومی غیرت و حمیت سے عاری ائیر مارشل رحیم خان کا یہ فقرہ بہت مشہور ہوا جو انھوں نے مظفر حسن سے کہا تھا: "اولڈ بوائے، جنگوں میں ایسا ہوتا ہے، مجھے افسوس ہے، تمہارے جہاز ڈوب گئے۔۔!"
ایئر مارشل عبدالرحیم خان
1971ء کی پاک بھارت جنگ میں پاک فضائیہ کے سربراہ تھے۔ 3 مارچ 1972ء کو جیگ برانچ کی سفارش پر برطرف ہوئے اور مراعات ضبط ہو گئیں لیکن سپین میں سفیر بنا دیے گئے اور 13 اپریل 1977 کو انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاجاً سفارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد امریکہ میں بس گئے اور وہیں 28 فروری 1990ء کو انتقال ہوا تھا۔
میجر جنرل اکبر خان
میجر جنرل اکبر خان، 1966ء سے 1971ء تک ڈائریکٹر جنرل ISI رہے۔ انھوں نے صدر جنرل یحییٰ خان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل غلام عمر کے ساتھ مل کر 1970ء کے انتخابات میں حسبِ منشا نتائج حاصل کرنے کے لئے خاصی تگ و دو کی۔ گویا آئی ایس آئی کو یہ مرض پرانا ہے۔۔!
روئیداد خان
روئیداد خان
روئیداد خان کا شمار پاکستان کے سدا بہار بیورو کریٹس میں ہوتا تھا جنھوں نے پانچ صدور کے ساتھ کام کیا۔ مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن کے آغاز سے جون 1972ء تک سیکریٹری اطلاعات رہے اور مغربی پاکستان کے لوگوں کو گمراہ کرتے رہے کہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کی آزادی کی تحریک نہیں بلکہ امن و امان کا مسئلہ ہے جس پر شرپسندوں اور سماج دشمن عناصر کے خلاف سخت کاروائی کی جارہی ہے۔
سیاستدانوں میں صرف اصغر خان، ولی خان، جی ایم سید اور ملک غلام جیلانی کو چھوڑ کر مغربی پاکستان میں کم و بیش ہر کسی نے مشرقی پاکستان کے بارے میں سرکاری کہانی کو بلا شک و شبہ تسلیم کر لیا تھا۔ بھٹو پر مشرقی پاکستان میں فوجی کاروائی کی حمایت کا الزام لگاتے ہوئے ان کا 26 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ سے واپسی پر کہا گیا جملہ دھرایا جاتا ہے کہ "خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا ہے!" بھٹو نے کبھی بھی فوجی ایکشن کی حمایت نہیں کی تھی بلکہ ہمیشہ سیاسی عمل کی بات کرتے رہے جو فوجی حکمرانوں کو قبول نہیں تھا۔ بھٹو کی سب سے بڑی مخالف جماعت اسلامی کے سربراہ مولانا مودودیؒ نے بھی کہا تھا کہ "ہماری بہادر افواج نے پاکستان بچا لیا ہے!"
باضمیر فوجی افسران
سانحہ مشرقی پاکستان میں چند ایسے فوجی افسران بھی تھے جنھوں نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور وحشیانہ احکام ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ان میں چند کردار درجِ ذیل ہیں:
جنرل یعقوب علی خان
جنرل یعقوب علی خان
لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان، مشرقی پاکستان کے ہنگاموں کے دوران ایسٹرن کمانڈ اور مارشل لاء زون بی کے کمانڈر تھے۔ انھوں نے فوجی ایکشن سے قبل ہی 7 مارچ 1971ء کو فوجی قیادت کی مشرقی پاکستان کے تناظر میں سیاسی و عسکری حکمتِ عملی سے اختلاف کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔
بھٹو دورِ حکومت میں فرانس اور امریکا میں سفیر مقرر ہوئے۔ ضیاع دور میں 1979ء میں سوویت یونین میں سفیر مقرر ہوئے اور 1982 میں آغا شاہی کی سبکدوشی کے بعد مسلسل نو سال تک یعنی 1991ء تک وزیرِخارجہ رہے۔ اس دوران انھوں نے جنرل ضیاع، جونیجو، بے نظیربھٹو اور نواز شریف کی چار حکومتوں میں وزیرِخارجہ رہنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ 26 جنوری 2016ء کو 96 سال کی عمر میں انتقال ہوا تھا۔
ایڈمرل ایس ایم احسن
ایڈمرل ایس ایم احسن کا شمار پاکستانی بحریہ کے معماروں میں ہوتا ہے۔ 7 مارچ 1971ء کو جنرل یحییٰ حکومت کی مشرقی پاکستان سے متعلق پالیسوں پر اختلاف کرتے ہوئے گورنری سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ بنگالیوں سے ہمدردی کی وجہ سے انھیں طرح طرح کے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے سربراہ بھی رہے۔ انھوں نے کراچی کے قریب پورٹ قاسم کی بنیاد رکھی۔ آخری زندگی گوشہ نشینی میں گزاری اور 4 دسمبر 1989ء کو انتقال ہوا۔
Hamoodur Rahman Commission Report
Monday, 25 November 1974
The Hamoodur Rahman Commission was a judicial inquiry commission that assessed Pakistan's political and military involvement in East-Pakistan from 1947 to 1971. The commission was set up on 26 December 1971 by the President of Pakistan Zulfikar Ali Bhutto and chaired under Chief Justice Hamoodur Rahman who was a Bengali origin. The final report was completed on November 25, 1974.
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
12-10-1999: مارشل لاء 1999ء
03-05-1950: لیاقت علی خان کا دورہ امریکہ
27-07-1999: سولھویں آئینی ترمیم: کوٹہ سسٹم