پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
بدھ 14 اگست 1974ء
پارلیمنٹ ہاؤس
پارلیمنٹ ہاؤس
پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ کی مشترکہ عمارت "پارلیمنٹ ہاؤس" کو بننے میں تقریباً بارہ سال لگے۔۔!
دارالحکومت اسلام آباد میں شاہراہِ دستور اور جناح ایونیو کے سنگم پر واقع ڈی چوک کے سامنے قومی اسمبلی اور سینٹ ہاؤس کی پانچ منزلہ عمارت ہے جس کا سنگِ بنیاد 14 اگست 1974ء کو وزیرِاعظم جناب ذوالفقارعلی بھٹوؒ نے رکھا اور تقریباً بارہ سال کے طویل عرصہ کے بعد 28 مئی 1986ء کو وزیرِاعظم محمدخان جونیجو نے افتتاح کیا تھا۔
پارلیمنٹ ہاؤس کی بلڈنگ کے پیچھے ایوانِ صدر، بائیں طرف پاکستان سپریم کورٹ اور دائیں طرف کیبنٹ ڈویژن کی عمارتیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایوانِ صدر کی بلڈنگ ان دونوں عمارتوں کے درمیان اور زیادہ نمایاں ہے۔ جنرل ضیاع ملعون کے مارشل لاء دور میں قومی اسمبلی کو "مجلسِ شوریٰ" کا نام دیا گیا جس کے اراکین عام انتخابات کی بجائے آمرمردود کی صوابدید پر مقرر ہوتے تھے۔
قومی اسمبلی کی عمارت
قومی اسمبلی
قومی اسمبلی (ایوانِ زیریں) ، پاکستان کا سپریم قانون ساز ادارہ ہے جس کے اراکین، ایک آدمی ایک وؤٹ کی بنیاد پر پانچ سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں اور جس پارٹی کو عددی برتری حاصل ہوتی ہے وہ حکومت بنانے کا حق رکھتی ہے۔ پاکستان کی پہلی قومی اسمبلی کا اجلاس 10 اگست 1947ء کو کراچی میں ہوا جو اس وقت دارالحکومت ہوتا تھا۔قومی اسمبلی (ایوانِ زیریں) کی عمارت تقریباً چھ لاکھ مربع فٹ پر پھیلی ہوئی ہے۔ گراؤنڈ فلور کا رقبہ پونے دو لاکھ مربع فٹ ہے۔ مرکزی چیمبر میں ساڑھے چار سو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ ہال کے تین اطراف آٹھ سو سے زائد افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ پریس کے لیے ایک الگ انکلوژر مختص ہے۔ الیکٹرانک بورڈز اور نفیس پبلک ایڈریس سسٹم موجود ہے۔
اس کے علاوہ ریستوراں، بینک، ڈسپنسری، ڈاک اور ٹیلی گراف آفس، پی آئی اے ریزرویشن آفس اور ساڑھے چار سو سے زائد نمازیوں کے لیے گراؤنڈ فلور پر ایک مسجد ہے۔ فیڈرل گورنمنٹ سروسز ہسپتال (پولی کلینک) میں اراکین کے لیے طبی دیکھ بھال دستیاب ہے۔ تاہم، ہنگامی حالات یا بیماریوں کے لیے جن کے لیے فوری طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے، مسجد سے متصل گراؤنڈ فلور پر واقع ڈسپنسری میں میڈیکل آفیسر کی خدمات دستیاب ہیں۔
سینٹ کی عمارت
سینٹ آف پاکستان
سینٹ آف پاکستان، پارلیمنٹ کا ایوان بالا (اپر ہاؤس) کہلاتا ہے جس میں قومی اسمبلی (ایوانِ زیریں) میں عددی فرق کے برعکس تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہوتی ہے۔ سینٹ کے اراکین کو قومی اور صوبائی اسمبلیاں منتخب کرتی ہیں اور ان کی مدت چھ سال تک ہوتی ہے تاہم آدھے اراکین ہر تین سال بعد ریٹائر ہو جاتے ہیں۔سینیٹ ہال اور قومی اسمبلی ہال دوسری منزل پر واقع ہیں۔ سینیٹ چیمبر میں سوا سو اراکینِ سینٹ جبکہ گیلریوں میں ساڑھے تین سو سے زائد افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔
سینیٹ ہال میں مائیکرو کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر مبنی موڈیم پبلک ایڈریس اور بیک وقت انٹرپریٹیشن سسٹم (SIS) موجود ہے۔ ہر رکن کے لیے ایک مائیکروفون، ایک ایئر فون، لاؤڈ اسپیکر اور سات پوزیشن والے چینل سلیکٹر سوئچز فراہم کیے گئے ہیں۔ مائیکروفون خود بخود اور دستی طور پر کام کر سکتے ہیں۔ سینیٹ ہال میں مائیکرو کمپیوٹر آٹومیٹک ووٹنگ کاؤٹنگ سسٹم (اے وی سی) اور ایک بڑا الیکٹرانک ڈسپلے بورڈ نصب کیا گیا ہے۔ ہر رکن کو اس کی میز پر ایک ووٹنگ یونٹ مہیا کیا گیا ہے۔ سی سی ٹی وی آلات بھی نصب ہیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت
پارلیمنٹ ہاؤس کی اسلامی طرزِتعمیر کی اس مستعطیل نما عمارت کے مرکزی دروازے پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے۔ اس عمارت کا ڈیزائن امریکہ کے ممتاز آرکیٹیکٹ Edward Durel Stone نے تیار کیا جو اس سے قبل ایوانِ صدر اسلام آباد، واپڈا ہاؤس لاہور اور پی این ایس سی بلڈنگ کراچی کی عمارتوں کے ڈیزائن بھی بنا چکے ہیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس کی اوپر کی تین منزلیں نیچے کی دو منزلوں سے چھوٹی ہیں۔ عمارت کے ہر کونے میں چار روشنی والے کنویں ہیں جو سورج کی روشنی کو عمارت میں منعکس کرتے ہیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے شمال مغرب میں ایک لان، ایوانِ صدر کے سامنے پھیلا ہوا ہے جبکہ ایک لان میں مختلف غیر ملکی معزز مہمانوں کے لگائے گئے درختوں کا ایک بڑا ذخیرہ بھی ہے جو وقتاً فوقتاً پاکستان کا دورہ کرتے رہے ہیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس کی پوری عمارت میں آتشزدگی یا دھوئیں کی ہنگامی صورت حال سے نپٹنے کے لیے محفوظ راستوں اور رہنمائی کا مناسب انتظام بھی کیا گیا ہے۔
Parliament of Pakistan
Wednesday, 14 August 1974
The foundation stone of Parliament building was laid by Prime Minister Zulfikar Ali Bhutto on 14 August 1974 and almost twelve years later it was inaugurated by Prime Minister Muhammad Khan Junejo on 28 May 1986..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
23-12-1971: میاں محمود علی قصوری
17-12-2019: مشرف غدار ، پھانسی کا حکم
22-03-1861: پاکستان پولیس