Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi



Pakistan Film History

Ragni

Pakistan Film Magazine presents detailed Urdu/Punjabi article on first Lahore based super star heroine Ragni.


راگنی

راگنی ، لاہور کی پہلی سپرسٹآر ہیروئن تھی
راگنی
لاہور کی پہلی سپرسٹار ہیروئن تھی

پاکستان کی فلمی تاریخ میں جس اداکارہ کا فلمی کیرئر حیران کن اور قابل رشک ہے ، وہ ماضی کی ایک اداکارہ راگنی ہے جو تقسیم سے قبل لاہور کی فلموں کی پہلی سپرسٹار ہیروئن اور تقسیم کے بعد پاکستانی فلموں کی پہلی کامیاب ویمپ اداکارہ تھی۔۔!

راگنی کا شمار برصغیر پاک و ہند کے ان گنے چنے فنکاروں میں ہوتا ہے جنھیں تقسیم سے قبل کی مشترکہ فلموں کے علاوہ تقسیم کے بعد کی پاکستانی اور بھارتی فلموں میں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔

راگنی کی مقبولیت

راگنی کی اہمیت اور مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ممبئی کی ایک فلم کمپنی نے اپنی ایک مسلم سوشل فلم نیک پروین (1946) میں نہ صرف ٹائٹل رول میں کاسٹ کیا بلکہ اس کی سہولت کے لیے لاہور آکر پوری فلم کی شوٹنگ بھی کی تھی۔

ممبئی ہی کی ایک دوسری فلم کمپنی نے راگنی کو بھاری معاوضہ پر ایک بہت بڑی سپرہٹ کاسٹیوم فلم شاہ جہاں (1946) میں ملکہ ممتاز محل کے ایک ایسے تاریخی کردار میں پیش کیا جو اس کی حسین و جمیل ، پُر کشش اور پُروقار شخصیت کے عین مطابق تھا۔

راگنی ، لاہور کی پہلی سپرسٹار ہیروئن

راگنی

تقسیم سے قبل لاہور کی فلم انڈسٹری کے معروف فلمساز اور ہدایتکار روپ کے شوری نے اپنی پہلی پنجابی فلم دلا بھٹی (1940) میں راگنی کے نام سے ایک خوبصورت آنکھوں اور پُرکشش خدوخال کی مالک نوخیز اداکارہ کو متعارف کروایا۔ بظاہر وہ کوئی غیر معمولی اداکارہ نہیں تھی لیکن فلم بینوں کو بے حد پسند آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے فلمسازوں کی ضرورت بن گئی۔ فلمی ناقدین نے راگنی کو "آہو چشم" یعنی "ہرنی کی آنکھوں والی" کا خطاب دیا جو اس کی مستقل پہچان بن گیا۔

راگنی کی آمد سے قبل لاہور میں تین درجن سے زائد فلمیں بن چکی تھیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی اداکارہ ایسی نہیں تھی جو ہیروئن کے طور پر اتنی کامیاب ہوئی ہو جتنی راگنی ہوئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تقسیم سے قبل کی راگنی کی ڈیڑھ درجن فلموں میں وہ ہمیشہ فرسٹ ہیروئن کے طور پر ہی نظر آئی جبکہ دیگر سبھی مقبول عام اداکارائیں اس کے مقابلے میں ثانوی کرداروں میں نظر آتی تھیں۔

جب کوئی فنکار مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ جائے اور فلموں کی کامیابی کی ضمانت اور فلم بینوں کی اولین پسند بن جائے تو اسے "سپرسٹار" کا درجہ مل جاتا ہے۔ راگنی کو 1940 کی دھائی میں لاہور کی فلموں کی پہلی سپرسٹار ہیروئن ہونے کا ناقابل شکست اعزاز حاصل ہے۔

راگنی کی پہلی فلم

راگنی کی پہلی فلم دلا بھٹی (1940) کے ہیرو لاہور کے ایک مالدار اور شوقین مزاج شخص ، ایم ڈی کنور تھے جن کا انار کلی بازار لاہور میں بہت بڑا کاروبار تھا۔ انھوں نے اس فلم پر سرمایہ کاری کے علاوہ ٹائٹل بھی رول کیا۔ تاریخی فلم شاہ جہاں (1945) کے ٹائٹل رول میں بھی راگنی کے ساتھ تھے اور جوانی ہی میں فوت ہو گئے تھے۔

26 اپریل 1940ء کو لاہور کے کراؤن سینما پر ریلیز ہونے والی پنجابی فلم دلا بھٹی (1940) کے سپرہٹ گیتوں اور راگنی کے حسن و جمال نے دھوم مچا دی تھی۔ عزیز کاشمیری کا لکھا ہوا اور موسیقار پنڈت گوبند رام کی دھن میں رشیدہ بیگم کا گایا ہوا یہ گیت فلم کی جان تھا:

  • کیوں تیر کلیجے لگدے نیں ، اکھیاں وچوں اتھرو وگدے نیں۔۔
    ہونٹھاں اُتے رہندی سی اڑیو ، ایس روگ دا ناں اے کی اڑیو۔۔
    گیا اندر و اندر پی اڑیو۔۔

راگنی کی پہلی اردو/ہندی فلم

اپنے فلمی کیرئر کے دوسرے سال یعنی 1941ء میں لاہور میں بننے والی کل 6 میں سے آدھی یعنی 3 فلموں کی ہیروئن راگنی تھی۔

اس سال ، راگنی کی پہلی اردو/ہندی فلم ہمت (1941) ریلیز ہوئی جو کامیاب رہی۔ اس فلم کے ہیرو ایک بار پھر ایم ڈی کنور تھے۔ ہدایتکار روپ کے شوری کی اس فلم میں بھی اس دور کے دیگر مشہور اداکار مجنوں ، ظہور شاہ ، غلام قادر اور کملا کے علاوہ اداکارہ منورما بھی تھی جو راگنی کے بعد لاہور کی فلموں کی دوسری کامیاب ترین ہیروئن ثابت ہوئی تھی۔

فلم ہمت (1941) کا ایک یادگار گیت "انھی لوگوں نے لے لینا دوپٹہ مورا۔۔" شمشاد بیگم نے گایا تھا۔ عزیز کاشمیری کے بول اور گوبند رام کی موسیقی تھی۔ اس گیت کو مزاحیہ اداکار یعقوب نے بھی فلم آبرو (1943) میں گایا لیکن بے مثال شہرت لتا منگیشکر کی آواز میں فلم پاکیزہ (1972) میں ملی جب یہ گیت مینا کماری پر فلمایا گیا تھا۔

اس سال راگنی کی پنجابی فلم میرا ماہی (1941) میں ہیرو کرن دیوان متعارف ہوئے جو لاہور کے ایک فلمی صحافی تھے اور بعد میں بمبئی کی فلموں میں بھی خاصے کامیاب رہے۔ بھارت کی پہلی پنجابی فلم چمن (1948) کے ہیرو بھی تھے جو اصل میں تقسیم سے قبل لاہور میں بننے والی ایک فلم تھی۔

پنجابی فلم سہتی مراد (1941) ایک نغماتی فلم تھی جس میں ماسٹرغلام حیدر کی دھن میں شمشاد بیگم کا یہ سپرہٹ گیت راگنی پر فلمایا گیا تھا:

  • اُچی ماڑی تے دودھ پئی رڑکاں ، مینوں سارے ٹبر دیاں جھڑکاں۔۔

اس دلکش گیت کو فلم موج میلہ (1963) میں نسیم بیگم نے بھی گایا جو اداکارہ نیلو پر فلمایا گیا تھا۔

راگنی اور منورما

1941 کی تینوں فلموں ، ہمت ، میرا ماہی اور سہتی مراد میں اداکارہ منورما ، اداکارہ راگنی کے مقابل سیکنڈ ہیروئن تھی۔ منورما ، لاہور کی ایک مشہور اداکارہ تھی جس کی فلموں کی تعداد راگنی سے بھی زیادہ تھی لیکن زیادہ تر ثانوی کرداروں میں نظر آئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تقسیم سے قبل کی لاہور کی یہ دونوں کامیاب ہیروئنیں ، تقسیم کے بعد اپنے اپنے ملکوں میں ویمپ کے طور پر زیادہ کامیاب ہوئیں۔

اسی سال لاہور کی پہلی بلاک باسٹر اردو/ہندی فلم خزانچی (1941) کے ایک ثانوی رول میں منورما کو خاصی کامیابی ملی۔ اسی فلم نے لاہور کے فلمسازوں کو پنجابی فلموں کے محدود سرکٹ کے بجائے اردو/ہندی فلمیں بنانے کی طرف راغب کیا جن کا سرکٹ بڑا وسیع رہا ہے۔

راگنی کی آخری پنجابی فلم

1942ء میں لاہور نے کل 7 فلمیں بنائیں جن میں سے 3 فلموں کی ہیروئن راگنی تھی۔

اردو/ہندی فلم نشانی (1942) ، روپ کے شوری ہی کی فلم تھی جس میں ایک بار پھر ایم ڈی کنور ، راگنی کے ہیرو تھے۔ اس فلم کا ایک گیت باتش اور شمشاد بیگم کی آوازوں میں تھا جس کی دھن پنڈت امرناتھ نے بنائی اور بول عزیز کاشمیری کے تھے جو امیر مینائی کی ایک غزل سے متاثر تھے۔ یہ گیت بعد میں پاکستانی فلم نغمہ دل (1959) میں سلیم رضا اور زبیدہ خانم نے بھی گایا تھا:

  • تیر پہ تیر چلاؤ ، تمہیں ڈر کس کا ہے۔۔

اس سال راگنی کی پنجابی فلم پٹواری (1942) ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی جس میں راگنی کے ساتھ نارنگ اور منورما بھی تھے۔ شیام سندر کی دھن میں شمشاد بیگم کا ایک دلکش گیت اس فلم کی جان تھا جو یقیناً راگنی پر ہی فلمایا گیا ہوگا:

  • تسی اکھیاں دا مل کر لو ، دل وچ دل رکھ کے ماہی وے ، اک نکی جئی بھل کر لو۔۔

فلم راوی پار (1942) ، اداکارہ راگنی کی کل 17 میں سے 5ویں اور آخری پنجابی فلم ثابت ہوئی تھی۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے فلمساز سید عطااللہ شاہ ہاشمی تھے جو پاکستان میں متعدد کاپی فلمیں بنانے میں مشہور تھے۔ ضیاء سرحدی کی بطور ہدایتکار پہلی پنجابی فلم تھی جس کی کہانی بھی انھی کی اپنی لکھی ہوئی تھی۔

راگنی کی اردو/ہندی فلمیں

راگنی کی پہلی سات میں سے پانچ پنجابی فلمیں تھیں لیکن آخری دس کی دس ہندی/اردو فلمیں تھیں۔ ان میں پہلی بڑی فلم پونجی (1943) تھی جو خزانچی (1941) ہی کے سٹائل میں بنائی گئی تھی۔ ایم اسماعیل ، مرکزی کردار میں تھے۔ شعلے (1975) فیم ولن امجد خان کے والد جینت ہیرو تھے جبکہ منورما اور اختری سائیڈ رولز میں تھیں۔ اجمل ، ولن تھے۔ ماسٹر غلام حیدر نے سابقہ کارکردگی دھرانے کی کوشش کی لیکن ویسی کامیابی نہ مل سکی۔

راگنی

گزشتہ سال کی طرح 1944ء میں بھی راگنی کی صرف ایک ہی ہندی/اردو فلم داسی (1944) ریلیز ہوئی جو ایک بہت بڑی فلم تھی اور آن لائن موجود ہے۔ راگنی نے ٹائٹل رول کیا اور اس کے ہیرو نجم الحسن تھے جو پاکستان میں فلم ہیررانجھا (1970) میں فردوس کے باپ کے کردار میں بھی نظر آئے۔ دیگر تین اہم کردار کلاوتی ، بےبی پروین اور جی این بٹ بھی تھے جو بعد میں بہت سی پاکستانی فلموں میں دیکھے گئے۔

فلم داسی (1944) میں اس دور کے مال روڈ لاہور اور خاص طور پر پنجاب اسمبلی کے یادگار مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مشہور بھارتی اداکار اوم پرکاش نے بھارتی پنجابی فلموں کے مقبول ترین کامیڈین خیراتی لال کے ساتھ سائیڈ رولز کیے تھے۔

1945ء میں راگنی کی 3 ہندی/اردو فلمیں ریلیز ہوئیں۔ "انارکلی" فیم ممتاز ادیب سید امتیاز علی تاج کی بطور فلمساز اکلوتی فلم دھمکی (1945) میں ہیرو الناصر تھے۔ گلوکارہ منورسلطانہ کی یہ پہلی فلم تھی اور پہلا گیت ہی بڑے کمال کا تھا "جب تم یہاں ، ہم وہاں ، کیسے بجے کی بانسریا۔۔"

راگنی کی فلم کیسے کہوں (1945) میں ممتاز گیت نگار طفیل ہوشیارپوری نے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز کیا جبکہ فلم شیریں فرہاد (1945) میں ہیرو جینت تھے۔ اسی سال راگنی کی ہندی/اردو فلموں کی مقبولیت کی وجہ سے اس کی شہرت لاہور کی حدود سے نکل کر بمبئی تک جا پہنچی تھی۔

راگنی کی بمبئی کی فلمیں

1946ء میں راگنی کی تین فلمیں ریلیز ہوئیں جو تینوں بمبئی ساختہ تھیں۔ ان میں سے ایک فلم نیک پروین (1946) لاہور میں شوٹ ہوئی۔ راگنی کا اس مسلم سوشل فلم میں ٹائٹل رول تھا اور ہیرو الہاس تھے جبکہ ریحانہ ، یعقوب ، شاکر اور کمار دیگر اہم کردار تھے۔ فلم کی موسیقی لاہور کے موسیقار فیروز نظامی نے دی اور بیشتر گیت بھی لاہور ہی کے گلوکاروں کے گائے ہوئے تھے۔ اس فلم میں ایک مشہور زمانہ حمدیہ کلام "تیری ذات پاک ہے اے خدا ، تیری شان جل جلالہ۔۔" کے دوران اس دور کی بادشاہی مسجد ، شاہی قلعہ اور لاہور کے دیگر مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

فلم نیک پروین (1946) کے ہدایتکار ایس ایم یوسف تھے جنھیں لاہور کی مہمان نوازی نے اتنا متاثر کیا کہ اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر خاندان سمیت پاکستان چلے آئے اور فلم سہیلی (1960) سے اپنے پاکستانی فلمی کیرئر کا آغاز کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے ساتھ ہی ان کے بیٹے اقبال یوسف نے بھی اپنی فلم رات کے راہی (1960) سے اپنے پاکستانی فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔

اسی سال راگنی کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی فلم شاہ جہاں (1946) ریلیز ہوئی جس کے ہدایتکار اے آر کاردار تھے۔ راگنی کو اس فلم میں بھاری معاوضہ پر کاسٹ کیا گیا اور ملکہ ممتاز محل کا رول دیا گیا۔ ٹائٹل رول ایم ڈی کنور نے کیا جو راگنی کی پہلی فلم دلابھٹی (1940) میں بھی اس کے ہیرو تھے۔ اس فلم پر بڑی تفصیل سے لکھا گیا ہے ، اس لیے یہاں دھرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اسی سال راگنی کی ممبئی میں بنائی گئی ایک فلم بندیا (1946) کا ذکر بھی ملتا ہے۔

راگنی ، سدھیر کی ہیروئن

راگنی

1947ء کا سال تقسیم کا سال تھا جب پاکستان اور بھارت دو الگ الگ ملک بنے اور فنکار بھی تقسیم ہوگئے تھے۔

راگنی کی اس سال کی دو فلموں کا ذکر ملتا ہے جن میں سے ایک فلم من مانی (1947) تھی جو بمبئی میں بنائی گئی جب کہ دوسری فلم فرض (1947) تھی جو لاہور میں بنی۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پاکستان کے پہلے سپرسٹار فلمی ہیرو ، سدھیر کو متعارف کروایا گیا اور ان کی پہلی ہیروئن راگنی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد راگنی نے سدھیر کے ساتھ کسی فلم میں ہیروئن کا رول نہیں کیا۔ فلم گمنام (1954) میں سدھیر ، ہیرو تھے لیکن راگنی کا ثانوی کردار تھا۔ فلم شرارے (1955) میں راگنی کی جوڑی اپنے خاوند ایس گل کے ساتھ جبکہ سدھیر کی جوڑی نجمہ کے ساتھ تھی۔ ان دونوں کی ایک مشترکہ فلم انارکلی (1958) بھی تھی جس میں سدھیر کی جوڑی نورجہاں کے ساتھ تھی جبکہ راگنی نے ویمپ کا رول کیا تھا۔ ان کے علاوہ دو مزید فلموں میں راگنی معاون اداکارہ اور سدھیر ، ہیرو تھے۔

راگنی کی بھارتی فلمیں

تقسیم کے بعد راگنی کی بھارت میں دو فلموں کا ذکر ملتا ہے۔ ہدایتکار جگدیش سیٹھی کی فلم انسان (1952) میں اس کے ساتھ پرتھوی راج کپور جبکہ فلم چمکی (1952) میں شیکھر نامی اداکار کے ساتھ تھی۔

یہ دونوں فلمیں شاید دیر سے ریلیز ہوئی تھیں اور ناکامی کو صورت میں راگنی کو پاکستان ہی میں رہنا پڑا ، بصورت دیگر وہ بھی متعدد دیگر مسلمان فنکاروں کی طرح بھارت ہی میں رہتی جہاں فلمی کاروبار اپنے عروج پر تھا۔

راگنی کی پاکستانی فلمیں

تقسیم کے بعد نوزائیدہ ملک پاکستان کے اکلوتے فلمی سینٹر لاہور میں تباہی و بربادی کی وجہ سے کچھ عرصہ تک فلمسازی کا کام معطل رہا۔ فروری 1948ء میں پنچولی فلم سٹوڈیو کو بحال کیا گیا تو فلمسازی کا کام شروع ہوا۔ بہت سے پاکستانی فنکار ، بمبئی اور کلکتہ سے واپس لاہور چلے آئے جبکہ بہت سے ہندوستانی مسلمان فنکار بھی پاکستان چلے آئے۔

پاکستان میں راگنی کا فلمی کیرئر تین دھائیوں پر مشتمل ہے جو تین ہی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

راگنی بطور ہیروئن

کتنی عجیب بات ہے کہ تقسیم سے قبل لاہور کی کامیاب ترین فلمی ہیروئن راگنی کی تقسیم کے بعد اسی لاہور میں بنائی گئیں بطور ہیروئن ، دس کی دس فلمیں ناکام ہوئیں اور اسے ہیروئن سے ویمپ بننا پڑا۔

تقسیم کے بعد راگنی کی پہلی فلم مندری (1949) ایک پنجابی فلم تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بطور ہیروئن ، راگنی کی پاکستان میں یہ اکلوتی پنجابی فلم تھی جو ناکام رہی جس کی بڑی وجہ اس کے ہیرو الیاس کاشمیری تھے جن کی بطور ہیرو یہ اکلوتی فلم ثابت ہوئی تھی۔

معروف مزاحیہ اداکار نورمحمد چارلی کی بھی یہ پہلی پاکستانی اور پنجابی فلم تھی۔ اس دور کے دیگر اہم فنکاروں کے علاوہ اس فلم میں مرزا سلطان بیگ بھی تھے ریڈیو پاکستان لاہور کے مقبول ترین پروگرام "جمہور دی آواز" کے مشہور کردار "نظام دین" تھے۔

پاکستان کے سب سے بڑے فلمساز ادارے "ایورنیو پکچرز" اور ایورنیو فلم سٹوڈیو کے مالک آغا جی اے گل کی پہلی فلم تھی جس کے ہدایتکار داؤد چاند تھے۔ موسیقار جی اے چشتی کا کمپوز کیا ہوا یہ گیت بڑا مشہور ہوا جو راگنی پر فلمایا ہوا پہلا پاکستانی فلمی گیت تھا:

  • چناں چن چاننی ، موسم اے بہار دا ، دل نال دل ملے ، سودا ہویا پیار دا۔۔

راگنی کی اگلے سال کی دونوں فلمیں ، بے قرار اور کندن (1950) ذاتی فلمیں تھیں جو بطور ہیروئن اپنے خاوند ایس گل کے ساتھ تھیں لیکن ناکام رہیں۔ فلم بے قرار (1950) میں ماسٹر غلام حیدر کی دھن میں یہ دو گیت بڑے مقبول ہوئے تھے:

  • دل کو لگا کے کہیں بھول نہ جانا ، ظالم زمانہ۔۔
  • اور پردیسا ، بھول نہ جانا۔۔

راگنی کی بطور ہیروئن چوتھی فلم اکیلی (1951) بھی ایک ناکام فلم تھی۔ اس میں اس کے ہیرو سنتوش تھے جن کے ساتھ فلم نذرانہ (1955) بھی ایک ناکام فلم تھی جبکہ فلم بیداری (1957) درمیانہ درجہ کی فلم تھی لیکن اس فلم میں ان کی روایتی فلمی جوڑی نہیں تھی۔

راگنی کی بطور ہیروئن مزید دو فلمیں ، شرارے اور التجا (1955) اپنے شوہر ایس گل کے ساتھ تھیں۔ یہ بھی ناکام رہیں۔ اس طرح سے اپنے شوہر کے ساتھ راگنی کی چاروں فلمیں ناکامی سے دوچار ہوئیں۔

راگنی کی بطور ہیروئن آخری دو فلموں ممتاز (1958) میں ایاز اور زنجیر (1960) میں مسعود ، ہیرو تھے جو ایک اور ناکام ترین فلمی ہیرو تھے۔ اتفاق سے ان کی بھی پاکستان میں دس کی دس فلمیں ناکامی سے دوچار ہوئی تھیں۔

راگنی بطور ویمپ اداکارہ

مسلسل چار فلموں کی ناکامی کے بعد راگنی کا بطور ہیروئن فلمی کیرئر خطرے میں پڑ گیا تھا۔ ایسے میں ہدایتکار انور کمال پاشا نے راگنی کو اپنی فلم غلام (1953) میں ایک ویمپ یعنی منفی کردار میں پیش کیا۔ فلم کا ٹائٹل رول ہمالیہ والا نے کیا اور اس فلم میں تقسیم سے قبل کی دو مقبول ہیروئنیں شمیم اور راگنی اور تقسیم کے بعد کی دو مقبول ہیروئنیں ، صبیحہ خانم اور شمی نے بھی کام کیا جبکہ سنتوش روایتی ہیرو تھے۔ یہ ایک کامیاب فلم تھی۔

راگنی

ہدایتکار انور کمال پاشا کی ایک شاہکار فلم گمنام (1954) میں بھی راگنی نے ایک ثانوی مگر بھرپور رول کیا تھا۔ اس فلم میں بھی چار ہیروئنیں اکٹھی کی گئی تھیں جن میں راگنی کے علاوہ صبیحہ خانم نے ایک پگلی کا رول کیا جبکہ نئی اداکارہ سیما ، سدھیر کی روایتی ہیروئن اور نسرین بہن کے کردار میں پہلی بار پردہ سیمیں پر نظر آئی۔ یہ نسرین ، سلمیٰ آغا کی ماں نہیں تھی۔

پاکستان کی دوسری گولڈن جوبلی سپرہٹ فلم نوکر (1955) کی روایتی ہیروئن تو سورن لتا تھی لیکن فلم کی کہانی راگنی کے گرد گھومتی تھی جو اپنا سہاگ بچانے کے لیے اپنے نوکر کے بچے کو گود لیتی ہے لیکن جب اس کا اپنا بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ نوکر کے بچے کے ساتھ کسی سنگدل ماں کا سا سلوک کرتی ہے۔ ایک بھارتی فلم کی کاپی تھی لیکن ایک شاہکار فلم تھی۔

فلم بیداری (1957) میں بھی راگنی موجود تھی لیکن روایتی ہیروئن نہیں تھی۔ یہ بھی ایک بھارتی فلم کی کاپی تھی لیکن قومی جذبہ پر بنائی گئی ایک یادگار فلم شمار ہوتی ہے جس میں راگنی نے رتن کمار کی ماں کا رول کیا تھا۔

راگنی اور نورجہاں کا ساتھ

راگنی کی ویمپ کے طور پر یادگار فلموں میں ہدایتکار انور کمال پاشا ہی کی ایک فلم انار کلی (1958) تھی جس میں وہ پہلی اور آخری بار ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ دیکھی گئی۔ اس فلم میں "دل آرام" کے کردار میں وہ بہت اچھی لگی۔ سدھیر نے شہزادہ سلیم اور ہمالیہ والا نے شہنشاہ اکبر کا رول کیا تھا۔

راگنی ، معاون اداکارہ کے طور پر

راگنی نے 1940 کی دھائی بطور ہیروئن اور 1950 کی دھائی ، ہیروئن اور ویمپ کے طور پر گزاری۔ 1960/70 کی دھائیوں میں معاون اداکارہ کے طور پر نظر آئی۔ حسن و عشق (1962) پہلی فلم تھی جس میں راگنی نے معاون اداکارہ کے طور پر کام شروع کیا۔ عام طور پر وہ فلموں میں منفی ٹائپ کے کیریکٹرایکٹر رولز میں نظر آتی تھی۔ ایسی فلموں میں کچھ یادگار فلمیں درج ذیل ہیں:

فلم شیر دی بچی (1964)

راگنی کی یادگار پرفارمنس والی فلموں میں سے ایک ہدایتکار جعفر بخاری کی پنجابی فلم شیردی بچی (1964) تھی جس کا ٹائٹل رول اس وقت کی مقبول ترین اداکارہ نیلو نے کیا تھا۔

اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اردو فلموں کے سپرسٹار محمدعلی کی بطور سولو ہیرو یہ اکلوتی پنجابی فلم تھی لیکن بہترین کارکردگی کے باوجود پنجابی فلموں میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔

فلم شیردی بچی (1964) کی کہانی بڑی منفرد اور دلگداز تھی جو پیش کار ریاض شاہد کے بھائی فیاض شیخ نے لکھی تھی۔ ساون ، راگنی کو طلاق دے دیتا ہے اور اکلوتے بیٹے محمدعلی کو ماں سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جوان ہو کر محمدعلی کو ماں کی محبت تمام تر پابندیاں توڑنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ فلم کا وہ منظر فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوتا ہے جب ماں (راگنی) اور بیٹے (محمدعلی) کا پہلی بار ملن ہوتا ہے۔

فلم نائیلہ (1965)

راگنی کی شاہکار فلموں میں سے ایک ہدایتکار شریف نیر کی نغماتی اور رومانوی فلم نائیلہ (1965) بھی تھی جس میں اس نے ایک ایسی سوتیلی ماں کا رول کیا جو دانستہ اپنے سوتیلے بیٹے (سنتوش) کی محبت (شمیم آراء) کو اپنے سگے بیٹے (درپن) سے بیاہ دیتی ہے۔

فلم نائیلہ (1965) ، ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی جو گلوکارہ مالا کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی فلم تھی۔ اس رنگین فلم کے ایک سین میں راگنی ، اپنے دوسرے شوہر ایس گل کے ساتھ نظر آتی ہے۔

فلم لاڈو (1966)

راگنی

راگنی نے شریف نیر ہی کی پنجابی فلم لاڈو (1966) میں بھی ایک بھرپور رول کیا جو اصل میں فلم کے مرکزی ولن یا ویمپ کا رول تھا۔ ایک خودسر اور منتقم مزاج جاگیردارنی کے رول میں راگنی ، اپنے بیٹے حبیب کی شادی نیلو سے کروانے میں ہر قسم کی رکاوٹیں ڈالتی ہے یا سازشیں کرتی ہے۔

فلم تاج محل (1968)

ہدایتکار ایس ٹی زیدی کی تاریخی کاسٹیوم فلم تاج محل (1968) میں راگنی کو ملکہ نورجہاں کا رول دیا گیا تھا۔ شہنشاہ جہانگیر کے رول میں ریحان نظر آئے۔ روایتی جوڑی زیبا اور محمدعلی کی تھی جبکہ حبیب اور یوسف خان بھی ثانوی کرداروں میں تھے۔

فلم شیراں دی جوڑی (1969)

راگنی کی شاندار کارکردگی فلم شیراں دی جوڑی (1969) میں بھی نظر آئی جس میں اس کا خاوند ، اعجاز کے باپ کو قتل کر کے پھانسی چڑھ جاتا ہے۔ اس جرم میں اس کے دونوں بیٹے (ساون اور مظہرشاہ) لوگوں کی نفرت و حقارت کا نشانہ بنتے ہیں اور جوان ہو کر خودسر ، بدمعاش ، لڑاکے اور شیراں دی جوڑی بن جاتے ہیں۔ لیکن ان کے خوف سے ان کی جواں سال بہن (فردوس) کا کوئی رشتہ تک لینے نہیں آتا۔ ایک معصوم بہن کے لیے تمام تر طاقت اور غرور و تکبر خاک میں مل جاتا ہے اور خونی دشمنیاں بھلا کر ایک قاتل کی بیٹی ، ایک مقتول کے بیٹے سے بیاہنا پڑتی ہے۔ بڑی ڈرامائی ، نغماتی اور سبق آموز فلم تھی۔

راگنی نے ستر کی دھائی کے وسط تک فلموں میں معاون اداکارہ کے طور پر کام کیا لیکن فلموں کی حتمی تعداد دستیاب نہیں ہے۔

راگنی کون تھی؟

راگنی کا اصل نام شمشاد بیگم تھا جو 1923ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئی۔ ماں ، مسلمان اور باپ ، ایک ہندو زمیندار تھا لیکن خود اور اس کی اولاد مسلمان تھی ، دونوں شادیاں بھی مسلمانوں سے کیں۔ 27 فروری 2007ء کو لاہور میں انتقال ہوا تھا۔

اداکارہ راگنی نے اپنے عروج کے دور میں محمد اسلم نامی ایک مالدار شخص سے شادی کی جو عمر میں اس سے کافی بڑا تھا۔ اس کے دو بچوں کی ماں بنی۔ بتایا جاتا ہے کہ راگنی کا اکلوتا بیٹا جوانی ہی میں انتقال کر گیا تھا۔

ایس گل

راگنی نے دوسری شادی سندھ کے ایک زمیندار فضل علی شاہ جاموٹ سے کی جو اداکار ، فلمساز اور ہدایتکار ایس گل کے نام سے مشہور تھے۔ دو درجن فلموں میں بطور اداکار کام کیا جن میں سے پانچ فلمیں ، بے قرار ، کندن (1950) ، شرارے ، التجا (1955) اور نائیلہ (1965) ، راگنی کے ساتھ تھیں۔

ایس گل نے گل حیدر کے نام سے متعدد فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی اور ماسٹرغلام حیدر کے شاگرد تھے۔ 1999ء میں انتقال ہوا تھا۔



Hameeda
Hameeda
(1956)
Ladla
Ladla
(1969)
Pindiwal
Pindiwal
(1976)

Kurmai
Kurmai
(1941)
Najma
Najma
(1943)
Kismat
Kismat
(1943)
Bhai Jan
Bhai Jan
(1945)

Ayi Bahar
Ayi Bahar
(1946)
Zeenat
Zeenat
(1945)
Mubarak
Mubarak
(1941)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan's political, film and media history.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes, and therefor, I am not responsible for the content of any external site.