طلعت صدیقی
اپنے مخصوص دھیمے لہجے
کی وجہ سے مشہور تھیں
طلعت صدیقی ، پاکستانی فلموں کے سنہرے دور کی ایک ناقابل فراموش اداکارہ تھیں جو اپنی پروقار شخصیت ، دھمیے لہجے اور مخصوص آواز کے لیے ایک الگ پہچان رکھتی تھیں۔
وہ ، سماجی موضوعات پر بننے والی گھریلو اور بامقصد فلموں کی ضرورت ہوتی تھیں جن میں عام طور پر ماں ، بہن ، بیوی اور بیٹی کے کرداروں میں نظر آتی تھیں اور اپنی پرفارمنس سے فلم بینوں پر بڑا گہرا اثر ڈالتی تھیں۔
طلعت صدیقی کا فنی سفر
طلعت صدیقی نے اپنے کیرئر کا آغاز ریڈیو پاکستان کراچی سے کیا جہاں گلوکاری اور ڈراموں میں اداکاری کی۔
پہلی فلم ہمیں بھی جینے دو (1963) میں بطور گلوکارہ متعارف ہوئیں۔ بطور اداکارہ پہلی فلم میخانہ (1964) تھی۔ ستر کے قریب فلموں میں کام کیا لیکن کسی فلم میں روایتی ہیروئن کے طور پر نظر نہیں آئیں۔
فلم عشق حبیب (1965) میں ایک نیک اور دیندار خاتون کے کردار میں بڑی متاثرکن کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
فلم کون کسی کا (1966) میں طلعت صدیقی ، اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے ایک لوری گاتی ہیں جو فلم کے آخر میں بچھڑے ہوؤں کو ملا دیتی ہے۔ مسعودرانا اور نسیم بیگم کا گایا ہوا یہ دوگانا میری سماعت سے ٹکرانے والا پہلا پہلا فلمی گیت تھا جو اپنے بچپن میں ریڈیو پر سنا تھا:
-
دے گا نہ کوئی سہارا ، ان بے درد فضاؤں میں ، سو جا غم کی چھاؤں میں۔۔
حبیب جالب کا لکھا ہوا اور موسیقار ایم اشرف کا کمپوز کیا ہوا یہ گیت کمال اور طلعت صدیقی پر فلمایا گیا تھا۔
طلعت صدیقی کے یادگار کردار
طلعت صدیقی نے بہت سی فلموں میں بڑے یادگار اور سبق آموز کردار ادا کیے تھے۔ ایسے چند کرداروں میں فلم لوری (1966) میں سنتوش کی بیوی کا ایک کردار تھا جو ایک بچی کی ماں ہے جس کی وجہ سے اس کے اچانک انتقال پر اس کی بہن زیبا کو اپنے بہنوئی سے شادی کرنا پڑتی ہے حالانکہ محبت وہ ، محمدعلی سے کرتی ہے۔ اس فلم میں طلعت صدیقی پر فلمائی ہوئی ثریا حیدرآبادی نامی ایک گمنام گلوکارہ کی لوری بڑی پسند کی گئی تھی
- چندا کے پٹولے میں ، اڑن کھٹولے میں۔۔
اسی لوری کو میڈم نورجہاں نے بھی گایا تھا لیکن سننے والوں کو متاثر نہیں کر سکی تھیں۔
ایسی ہی ایک یادگار فلم یارمار (1967) میں طلعت صدیقی کا ایک شریف النفس بیٹی کا کردار تھا جسے اوباش جاگیردار باپ ، بڑے فخر سے اپنی ہی قبیل کے ایک امیرزادے سے بیاہ دیتا ہے لیکن پھر اسے اپنی اولاد کے دکھ و کرب سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسانی معاشرت میں اخلاقی اقدار کیوں ضروری ہوتی ہیں۔
فلم چاچا جی (1967) کی کہانی بھی بڑی دلگداز تھی جس میں طلعت صدیقی اپنے منگیتر علاؤالدین سے اس وقت تک بیاہ نہیں کرسکتی جب تک اس کا لاڈلا بھتیجا جوان نہیں ہو جاتا اور جب طویل انتطار کے بعد شادی کے بعد ان کے ہاں ایک بیٹا ہوتا ہے تو اسے بھی انوکھے بھتیجے پر قربان کرنا پڑتا ہے۔
فلم پھر صبح ہوگی (1967) میں پوری فلم پر طلعت صدیقی چھائی ہوئی ہوتی ہیں جو بڑی ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے مشکلات پر قابو پا لیتی ہیں۔ اس فلم میں مسعودرانا کا یہ انتہائی بامقصد تھیم سانگ پوری فلم میں پس منظر میں چلتا ہے اور فلم بینوں پر بڑا گہرا اثر چھوڑتا ہے:
-
پھر صبح ہو گی ، اندھیرے نہیں رکنے والے ، ان اندھیروں سے اجالے ہیں نکلنے والے۔۔
فلم میرے بچے میری آنکھیں (1967) میں بھی طلعت صدیقی نے فلم بینوں کو رلا دیا تھا جب وہ اپنی آنکھیں قربان کر کے اپنے بیٹے کی دنیا روشن کرتی ہیں۔
فلم ماں باپ (1967) تو جذباتی اداکاری میں ایک لاجواب فلم تھی جس میں طلعت صدیقی نے علاؤالدین کے ساتھ اس فلم کا ٹائٹل رول کیا تھا۔ ایسے ماں باپ جو اپنے بیٹے کی اعلیٰ تعلیم اور خاندان کے بہتر مستقبل کے لیے اپنا گھر بار تک داؤ پر لگا دیتے ہیں لیکن وہ بے فیض نکلتا ہے۔ اس فلم میں بھی مسعودرانا کا یہ تھیم سانگ بڑا متاثر کن تھا:
-
کوئی یہاں پر عیش منائے ، کوئی پھرے مجبور ، دیکھو دنیا کا دستور۔۔
فلم بہن بھائی (1968) جیسی ملٹی کاسٹ فلم کی کہانی بھی طلعت صدیقی کے گرد گھومتی تھی جس میں ایک ہنستا بستا گھر تقسیم ملک کے نتیجے میں بکھر جاتا ہے اور پھر فلم کے آخر میں بڑے ڈرامائی انداز میں مل جاتا ہے۔ اس فلم میں مالا اور مہدی حسن کا کورس گیت بڑا مشہور ہوا ھا۔
- اے بے کسوں کے والی ، دے دے ہمیں سہارا۔۔
طلعت صدیقی کا پس منظر
طلعت صدیقی 1939ء میں شملہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی دو بیٹیاں تھیں جن میں ناہید صدیقی ، ایک نامور کتھک ڈانسر اور ضیاء محی الدین کی بیوی تھی۔ عارفہ صدیقی ، بطور گلوکارہ اور اداکارہ ٹی وی سے فلم تک آئی لیکن کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ اس نے موسیقار نذر حسین سے شادی کی تھی۔ عارفہ صدیقی نے فلم شاہ زمان (1986) میں مسعودرانا کے ساتھ ایک کورس گیت بھی گایا تھا
- دل میرا ہر ویلے تینوں ای پکاردا ، نئیں ٹٹنا اے ناطہ تیرے میرے پیار دا ۔۔۔
طلعت صدیقی کی ایک بہن ریحانہ صدیقی بھی کئی فلموں میں معاون اداکارہ کے طو پر نظر آئی۔ وہ ، ایک اور نامور اداکار اورنگزیب کی بیوی تھی جو خود ایک اور اداکار سلطان کا بھائی تھا۔ معروف گلوکارہ فریحہ پرویز بھی ان کی بھانجھی بتائی جاتی ہے۔
(3 اردو گیت ... 1 پنجابی گیت )