Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi



75 Years of Pakistan Film History

Pakistan Film Studios

Pakistan Film Magazine presents detailed Urdu/Punjabi article on Pakistani film studios..


پاکستان کے فلم سٹوڈیوز

قیام پاکستان سے پہلے لاہور میں آٹھ اور بعد میں بارہ فلمی سٹوڈیوز تھے
قیام پاکستان سے پہلے لاہور میں آٹھ
اور بعد میں بارہ فلمی سٹوڈیوز تھے

پاکستانی فلموں کے انتہائی عروج کے دور میں ملک بھر میں ڈیڑھ درجن کے قریب فلمی سٹوڈیوز موجود تھے۔ کراچی میں پانچ اور لاہور میں بارہ فلم سٹوڈیوز تھے جن میں سے پانچ تقسیم سے پہلے ہی سے کام کر رہے تھے۔

ایک فلم کی تکمیل کے لیے فلم سٹوڈیو کی ضرورت ہوتی تھی جہاں فلمسازی کے تمام تر لوازمات موجود ہوتے تھے۔ کیمرہ ، ساؤنڈ اور لائیٹوں کے علاوہ فلم پروسیسنگ کے لیے لیبارٹری ، ڈبنگ اور ریکارڈنگ کی سہولیات اور انڈور شوٹنگ کے لیے سیٹ لگانے کے لیے فلور بھی ہوتے تھے۔

بعض فلم سٹوڈیوز میں تو آؤٹ ڈور شوٹنگ کا پورا پورا بندوبست بھی ہوتا تھا اور پورا ایک گاؤں آباد ہوتا تھا جہاں کھلے کھیتوں کے علاوہ مصنوعی نہر اور باغ باغیچہ بھی ہوتا تھا۔ کاسٹیوم اور ایکسٹرا اداکاروں کے علاوہ گھوڑوں کی سپلائی بھی ہوتی تھی۔ فلمسازوں اور تقسیم کاروں کے دفاتر بھی ہوتے تھے۔ غرض یہ کہ ایک ہی جگہ پر ایک پوری فلمی نگری آباد ہوتی تھی۔

تقسیم سے قبل کے فلم سٹوڈیوز

قیام پاکستان سے پہلے لاہور ، برصغیر کا تیسرا بڑا فلمی مرکز تھا جہاں آٹھ فلم سٹوڈیوز موجود تھے۔ 1947ء کے فسادات میں تین فلم سٹوڈیوز مکمل طور پر تباہ و برباد ہوگئے تھے۔ ان میں پردھان اور امپیرئل کے علاوہ ناردرن انڈیا فلم سٹوڈیو بھی تھا جہاں راگنی اور نجم الحسن کی مشہور زمانہ ہندی/اردو فلم داسی (1944) بنائی گئی تھی جو آن لائن موجود ہے۔

لاہور کے باقی پانچوں تباہ حال فلم سٹوڈیوز کو بحال کیا گیا تھا جن کی فہرست مندرجہ ذیل ہے:

  • پنچولی فلم سٹوڈیو 1 ، اپرمال لاہور
  • پنچولی فلم سٹوڈیو 2 ، مسلم ٹاؤن لاہور
  • شوری فلم سٹوڈیو ، ملتان روڈ لاہور
  • سٹی فلم سٹوڈیو ، میکلوڈ روڈ لاہور
  • لیلا مندر فلم سٹوڈیو ، فیروز پور روڈ لاہور

پاکستان کا پہلا فلم سٹوڈیو

تقسیم کے بعد پاکستان کے پہلے فلم سٹوڈیو 'پنچولی آرٹ سٹوڈیو' کا باضابطہ افتتاح 16 فروری 1948ء کو ہوا تھا۔ اصل میں یہ تقسیم سے پہلے مسلم ٹاؤن کا 'پنچولی 2 فلم سٹوڈیو' تھا جو دوبارہ قابل استعمال بنایا گیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے اس پہلے فلم سٹوڈیو کا افتتاح "وزیر مہاجرین" راجہ غضنفر علی خان نے "ازراہ ہمدردی" کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی اس فلم سٹوڈیو کے مالک ایک ہندو سرمایہ دار ، سیٹھ دل سکھ پنچولی تھے جو کبھی لاہور کی فلمی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے لیکن تقسیم کے بعد اپنے ہی آبائی وطن میں اقلیت اور اجنبی بن چکے تھے۔

سیٹھ دل سکھ پنچولی ، قیام پاکستان سے قبل دو فلم سٹوڈیوز ، ایک فلم کمپنی اور متعدد سینماؤں کے علاوہ ایک ممتاز فلم ڈسٹری بیوٹرز بھی تھے لیکن تقسیم کے بعد لاہور کی 40 فیصد غیر مسلم آبادی کے لیے عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تھا اور وہ اپنا مال و متاع چھوڑ کر جان بچا کر ترک وطن کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

سیٹھ صاحب کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ پہلی بلاک باسٹر پنجابی فلم گل بکاؤلی (1939) کے علاوہ لاہور کی پہلی بلاک باسٹر ہندی/اردو فلم خزانچی (1941) بھی بنائی جس نے ہندوستان بھر میں بزنس کے نئے ریکارڈز قائم کیے تھے۔ انھوں نے فلم خاندان (1942) سے میڈم نورجہاں کو بھی پورے ہندوستان میں متعارف کروایا تھا۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جس دیس کو آباد کیا ، اسی دیس سے بے بس اور بے خانماں ہو کر نکلے۔

پنچولی آرٹ سٹوڈیو کے بدلتے نام

لاہور میں پاکستان کا پہلا باضابطہ فلمی نگار خانہ 'پنچولی آرٹ سٹوڈیو' ، اپنے اصل مالک اور مینجر کے لیے تو مایوسی اور بدقسمتی کا باعث تھا لیکن متعدد پاکستانی فلموں ، فلم سٹوڈیوز اور فلمی شخصیات کے لیے بڑا بھاگوان یا مبارک اور سعد ثابت ہوا تھا۔

'پنچولی آرٹ سٹوڈیو' میں پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) بنی جس پر سرمایہ کاری بھی سیٹھ دل سکھ پنچولی کے مینجر دیوان سرداری لال کے نام سے ہوئی تھی لیکن انھیں بھی پاکستان کی سرزمین راس نہیں آئی اور اس فلم سٹوڈیو سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ کسی مقامی اثرورسوخ رکھنے والے خاندان نے متروکہ جائیداد کے قانون کے تحت مسلم ٹاؤن کے اس فلم سٹوڈیو کی الاٹ منٹ حاصل کر لی تھی۔ پاکستان میں ابتداء ہی سے "الاٹ منٹ" یا "لوٹ مار" عام رہی ہے جو آج تک ختم ہونے میں نہیں آرہی۔

پنجاب آرٹ سٹوڈیو

سیٹھ پنچولی اور دیوان سرداری لال کے بعد 'پنچولی آرٹ سٹوڈیوز' ، اداکار ، فلمساز اور نذیر کو ملا جنھوں نے اس کا نام 'پنجاب آرٹ سٹوڈیوز' رکھ دیا۔ انھیں کسی قسم کا کوئی انتظامی تجربہ نہیں تھا اسی لیے زیادہ عرصہ اس نگار خانے کو نہ چلا سکے البتہ اس دوران اسی فلم سٹوڈیو میں پاکستان کی پہلی پنجابی ، پہلی نغماتی اور پہلی سپرہٹ فلم پھیرے (1949) بنانے میں ضرور کامیاب ہوئے تھے۔

ایورنیو سٹوڈیوز

ملتان روڈ لاہور پر واقع ایورنیو فلم سٹوڈیوز
ملتان روڈ لاہور پر واقع ایورنیو فلم سٹوڈیوز

نذیر کے بعد یہ فلم سٹوڈیو ایک اور فلمساز اور تقسیم کار آغا جی اے گل کو ملا جنھوں نے اس کا نام 'ایورنیو فلم سٹوڈیوز' رکھا۔ وہ ایک بہترین منتظم تھے اور بڑی خوش اسلوبی سے اس سٹوڈیو کو چلاتے رہے۔

اسی دوران انھوں نے اسی نگار خانے میں فلم دلا بھٹی (1956) بنائی جو پاکستان کی پہلی بلاک باسٹر فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کی کمائی سے انھوں نے ملتان روڈ لاہور پر شوری سٹوڈیو (شاہ نور سٹوڈیو) کے قریب زمین خریدی جس پر ایک جدید ترین 'نیو ایورنیو فلم سٹوڈیوز' کی بنیاد رکھی۔

اپنے عروج کے دور میں ایورنیو سٹوڈیوز میں 6 شوٹنگ فلور ، ایک ڈبنگ ، دو سینما اور دو ہی ریکارڈنگ ہال تھے۔ ایک کلر لیبارٹری کے علاوہ پچاس سے زائد فلمسازوں اور تقسیم کاروں کے دفاتر بھی تھے۔ اپنی جدید سہولیات کی وجہ سے یہ نگار خانہ ، فلمسازوں کا پہلا انتخاب ہوتا تھا۔

باری سٹوڈیوز

ملتان روڈ لاہور پر واقع باری فلم سٹوڈیوز
ملتان روڈ لاہور پر واقع باری فلم سٹوڈیوز

آغا جی اے گل سے یہ فلم سٹوڈیو ایک اور ڈسٹری بیوٹر باری ملک نے حاصل کیا اور بڑے احسن طریقے سے چلاتے رہے۔ اسی فلم سٹوڈیو میں انھوں نے بھی ایک بلاک باسٹر فلم یکے والی (1957) بنائی جس پر اس دور کا ایک لاکھ روپیہ لاگت آئی لیکن کمائی 45 لاکھ روپے کی ہوئی۔ اس وقت لاہور میں اراضی کی قیمت چھ سو روپے فی کنال ہوتی تھی۔ باری صاحب نے 92 کنال اراضی پر مشتمل اپنے نام سے منسوب 'باری فلم سٹوڈیوز' بنایا جو پاکستان کا سب سے بڑا فلمی سٹوڈیو تھا۔

باری سٹوڈیوز میں دس فلور تھے جہاں دن بھر بے شمار فلموں کی ان ڈور شوٹنگ ممکن ہوتی تھی۔ سلطان راہی جیسے مصروف ترین اداکاروں کے لیے یہ بڑی نعمت ہوتی تھی جو ایک سیٹ سے نکل کر دوسرے سیٹ پر چلے جاتے اور ایک ہی دن میں درجنوں فلموں کی شوٹنگ کروا دیتے تھے۔

پنجابی فلموں کے لیے آئیڈیل اس نگار خانے میں پورا ایک گاؤں آباد تھا جہاں آؤٹ ڈور شوٹنگ بھی ہوتی تھی اور گھوڑے دوڑانے بھی آسان ہوتے تھے۔ کھیتوں کے علاوہ باغ باغیچہ بھی تھا جبکہ ایک مصنوعی نہر پر ایک پل بھی ہوتا تھا جہاں ہیروئن ، ہیرو کے انتظار میں گیت گایا کرتی تھی۔

اے ایم سٹوڈیو

باری ملک کے بعد اس سٹوڈیو کو فلم باغی (1956) فیم فلمساز اور ہدایتکار اشفاق ملک نے کرایہ پر حاصل کیا اور اسے 'بوبی سٹوڈیو' کا نام دیا۔ انھوں نے بھی یہاں متعدد فلمیں بنائیں اور اپنے پیشروؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بند روڈ پر ایک فلم سٹوڈیو بنایا جس کا نام 'اے ایم فلم سٹوڈیوز' تھا۔ اس سٹوڈیو میں 4 شوٹنگ فلور ، ایک سینما ، ایک ریکارڈنگ ہال اور ایک ہی لیبارٹری تھی۔ 1971ء میں قائم ہونے والا یہ نگار خانہ 1990ء میں بند ہو گیا تھا۔

اس دوران مسلم ٹاؤن کا 'پنچولی فلم سٹوڈیو 2' ، لاہور کے مرکزی علاقے کی گنجان آبادی میں گھر کر اپنی اہمیت کھو چکا تھا۔ تمام تر فلمی کاروبار ملتان روڈ کی فلمی نگری میں منتقل ہوچکا تھا جہاں شاہ نور ، ایورنیو اور باری سٹوڈیوز جیسے نئے اور جدید فلمی نگار خانے موجود تھے۔ 1980ء میں مالکان نے اس فلم سٹوڈیو کو ختم کر کے یہاں رہائشی سکیم کے لیے جگہ خالی کر دی تھی۔

ملکہ سٹوڈیوز

سیٹھ دل سکھ پنچولی کا دوسرا فلمی نگار خانہ لاہور کے اپرمال کے علاقے میں نہر کے قریب 'پنچولی فلم سٹوڈیوز 1' یا بعض روایت کے مطابق 'پردھان سٹوڈیوز' تھا۔ اس میں دو شوٹنگ فلور ، ایک لیبارٹری اور متعدد دفاتر تھے۔ فسادات میں اسے بھی نقصان پہنچا اور متروکہ جائیداد کے طور پر گلوکارہ طاہرہ سید کی والدہ گلوکارہ ملکہ پکھراج کو الاٹ ہوا تھا۔ اس نگارخانے کا نام 'ملکہ فلم سٹوڈیوز' رکھا گیا لیکن ناتجربہ کاری اور نااہلی کی وجہ سے یہ نگار خانہ مختلف ہاتھوں میں رہا۔

'ملکہ سٹوڈیو' ، ایک مختصر مدت کے لیے ایک 'کو آپریٹو لمیٹڈ' کمپنی کو کرایہ پر دیا گیا۔ پھر کراچی کے ایک کاروباری شخص کو ملا جس نے 'جاوداں سٹوڈیو' کے نام سے چلایا لیکن چند سال بعد بند کرنا پڑا کیونکہ ایک تو شہر کا مرکزی اور پورش علاقہ بن چکا تھا جہاں زمینوں کی قیمتیں بڑھ چکی تھیں ، دوسرا فلمی سرگرمیاں ملتان روڈ کے فلمی سٹوڈیوز میں منتقل ہو چکی تھیں۔ یہ نگار خانہ ، اپر مال سکیم کے طور پر ایک رہائشی علاقہ بن گیا تھا۔

شوری فلم سٹوڈیوز

1945ء میں ملتان روڈ لاہور پر قائم ہونے والا پہلا فلم سٹوڈیو ، 'شوری فلم سٹوڈیو' ، اداکارہ مینا شوری کے ہندو شوہر فلمساز اور ہدایتکار روپ کے شوری نے اپنے نام پر بنوایا جو سو کنال اراضی پر مشتمل تھا اور اس میں کل پانچ فلور اور ایک ریکارڈنگ ہال تھا۔ یہ نگارخانہ ، لاہور میں بننے والی ریکارڈ توڑ پنجابی فلم منگتی (1942) کی کمائی سے بنا جو مسلسل ایک سال تک چلنے والی برصغیر کی پہلی گولڈن جوبلی پنجابی فلم تھی۔

شاہ نور فلم سٹوڈیوز

'شوری فلم سٹوڈیوز' بھی 1947ء کے فسادات میں جلا دیا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جب میڈم نورجہاں اور ان کے شوہر شوکت حسین رضوی نے واپس پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تو انھیں تجربہ نہ ہونے کے باوجود یہ فلم سٹوڈیو الاٹ کر دیا گیا تھا جس کا نام 'شاہ نور سٹوڈیوز' رکھا گیا۔

بتایا جاتا ہے کہ میڈم نورجہاں نے رضوی صاحب سے طلاق کے بعد اپنے بچوں کے عوض جائیداد سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا لیکن اولاد جوان ہونے کے بعد جائیداد کی تقسیم کے خاندانی جھگڑوں کے عمل سے گزرنے کے باوجود اس کا کچھ حصہ اب بھی چل رہا ہے۔

سکرین اینڈ ساؤنڈ فلم سٹوڈیو

فیروزپور روڈ پر واقع 'لیلا مندر سٹوڈیو' ، قیام پاکستان کے بعد 'سکرین اینڈ ساؤنڈ سٹوڈیو' کے نام سے سٹوڈیو اور لیبارٹری انچارج تصدق حسین ریاض اور شفیع اعجاز کو الاٹ ہوا تھا۔ اس میں ایک شوٹنگ فلور ، ایک سینما ، ایک ریکارڈنگ ہال اور ایک لیبارٹری تھی جہاں پہلی بار فلم گل بکاؤلی (1961) کے رنگین گانوں کی پروسیسنگ کی گئی تھی۔ مغربی پاکستان کی پہلی مکمل رنگین فلم اک دل دو دیوانے (1964) بھی یہیں بنائی گئی تھی۔ 1985ء تک یہ فلم سٹوڈیو چلتا رہا تھا۔

سٹی فلم سٹوڈیو

میکلورڈ روڈ لاہور پر واقع ریجنٹ سینما کے عقب میں ایک شوٹنگ فلور پر مشتمل 'سٹی سٹوڈیو' ، قیام پاکستان کے بعد بھی قائم رہا جو رتن سینما کے مالک اور ممتاز ولن اداکار اسلم پرویز کے والد ، چوہدری عید محمد کو الاٹ ہوا تھا۔ انھوں نے اسے ایک ریکارڈنگ ہال میں منتقل کر دیا تھا اور 1980 کی دھائی تک چلتا رہا تھا۔

ڈبلیو زیڈ فلم سٹوڈیو

جب رنگین فلمیں بنانا بڑا مشکل کام ہوتا تھا۔۔!

فلم وعدہ (1957) فیم فلمساز اور ہدایتکار ڈبلیو زیڈ احمد نے بھی وحدت روڈ لاہور پر 'ڈبلیو زیڈ فلم سٹوڈیو' نامی ایک نامکمل فلم سٹوڈیو بنایا جو چند سال چلا اور بند ہو گیا تھا۔ اس کی صرف کلر فلم لیبارٹری کام کرتی تھی لیکن فنڈز کی کمی کے باعث باقی سٹوڈیو مکمل نہ ہو سکا تھا۔

شباب فلم سٹوڈیو

فلم مہتاب (1962) کی کمائی سے بننے والا 'شباب فلم سٹوڈیو' ، ملتان روڈ لاہور پر بنایا گیا تھا۔ اس میں دو شوٹنگ فلورز ، ایک رہائش گاہ ، آؤٹ ڈور شوٹنگ کے لیے ایک جھیل اور گاؤں کے علاوہ درجن بھر دفاتر بھی تھے۔ شباب کیرانوی اور ان کے دونوں ہدایتکار بیٹوں ، ظفر شباب اور نذر شباب کی فلمیں عام طور پر اسی فلم سٹوڈیو میں بنتی تھیں۔

سنے ٹل فلم سٹوڈیو

مشہور زمانہ فلم بدنام (1966) کے فلمساز اور ہدایتکار اقبال شہزاد نے 1971ء میں ملتان روڈ پر 'سنے ٹل فلم سٹوڈیو' قائم کیا تھا جس میں دو شوٹنگ فلور ، ایک ریکارڈنگ ہال اور ایک لیبارٹری تھی۔ سخت مقابلے کی فضا میں یہ نگار خانہ چند سال چلا اور بعد میں فروخت کر دیا گیا تھا۔

ثنائی فلم سٹوڈیو

1973ء میں ایک فلمساز چوہدری ثناء اللہ نے ملتان روڈ لاہور پر واقع جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ کے ساتھ ایک 'ثنائی فلم سٹوڈیو' قائم کیا تھا جس میں چار شوٹنگ فلورز ، ایک ریکارڈنگ ہال اور ایک لیبارٹری تھی۔ 1979ء میں جماعت اسلامی نے یہ عمارت خرید کر یہاں ایک عالی شان اسلامی یونیورسٹی بنا دی تھی۔

کراچی کے فلمی سٹوڈیوز

کراچی میں فلمی سرگرمیوں کا آغاز 1952ء میں ہوا لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے لاہور جیسی ترقی نہ ہو سکی حالانکہ کراچی نے بڑے بڑے فنکار متعارف کروائے تھے۔ یہاں بننے والی پہلی فلم ہماری زبان (1955) تھی۔ پہلی سندھی ، پشتو ، گجراتی اور انگریزی فلمیں بھی یہیں بنائی گئیں۔

2000ء کے بعد کراچی کی فلمی انڈسٹری کو عروج حاصل ہوا لیکن یہ دور اصل میں بے شمار ٹی وی چینلوں کے لیے بننے والے ٹی ڈراموں کا دور تھا جن کے گہرے اثرات کراچی کی فلموں پر بھی نظر آئے۔ ایسی فلمیں چند بڑے شہروں کے ملٹی کمپلکس سینماؤں میں نظر آتی ہیں جو پاکستانی عوام کی اکثریت کی پہنچ سے بہت دور ہوتی ہیں۔ ایسے میں ماضی کا فلمی دور تو ایک تاریخ بن چکا ہے اور آج کی فلموں اور فنکاروں کی وہ اہمیت بھی نہیں رہی ، جو کبھی ہوا کرتی تھی۔

پاکستانی فلموں کے عروج کے دور کے کراچی کے کل پانچ فلم سٹوڈیوز کا مختصراً احوال کچھ اس طرح سے ہے:

قیصر سٹوڈیو

کراچی کا پہلا باقاعدہ نگار خانہ ، 'قیصر سٹوڈیو' تھا جو ماری پور کے علاقے میں بنایا گیا تھا لیکن 'ایسٹرن سٹوڈیو' سے مقابلہ بازی میں صرف دو سال بعد ہی بند ہوگیا تھا۔

کراچی سٹوڈیو

پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے فلمساز اور پہلے فلم سٹوڈیو 'پنچولی آرٹ سٹوڈیو' کے مینجر دیوان سرداری لال ، لاہور سے لٹ پٹ کے کراچی آئے اور بے سروسامانی کے عالم میں 'کراچی سٹوڈیو' کے نام سے ایک فلمی نگار خانہ بنانے کی کوشش کی۔

1953ء میں جیل روڈ پر ایک بین الاقوامی نمائش ہوئی جس میں سے چین کے پویلین کو لے کر فلور بنائے گئے اور چند فلمیں بنائی گئیں۔ اس طرح دیوان سرداری لال کو لاہور کے بعد کراچی میں بھی فلم بنانے کا موقع ملا لیکن بدقسمتی سے وہ ناکام و نامراد ہوکر اپنا آبائی وطن چھوڑ کر بھارت جانے پر مجبور ہو گئے تھے۔

ایسٹرن سٹوڈیوز

1953ء میں کراچی کے منگھو پیر سائٹ ایریا کے علاقہ میں ہارون فیملی نے 'ایسٹرن سٹوڈیوز' کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس کا سارا سازوسامان مغربی ممالک کی طرف سے غریب ممالک کی فنی اور اقتصادی امداد کے کولمبو پلان کے تحت ملا تھا۔ اسی نگار خانے میں 9 اگست 1953ء کو فلم "سدا سہاگن" کی افتتاحی تقریب ہوئی جو ہماری زبان (1955) کے نام سے ریلیز ہوکر کراچی کی پہلی فلم کہلائی۔ اس نگار خانے میں چار شوٹنگ فلور ، ریکارڈنگ اور سینما ہال اور ایک لیبارٹری بھی تھی۔

کراچی کا یہ فلم سٹوڈیو آج بھی چل رہا ہے اور ماضی میں فیچر فلموں اور اشتہاری فلموں کے بعد آج کل یہاں ٹی وی ڈراموں کی بھرمار ہے۔

ماڈرن سٹوڈیوز

1967ء میں کراچی میں منگھو پیر سائٹ ایریا ہی کے علاقہ میں ایک جدید 'ماڈرن سٹوڈیو' کا افتتاح بھی ہوا۔ اس نگار خانے میں دو شوٹنگ فلور ، ایک ریکارڈنگ اور سینما ہال اور ایک لیبارٹری بھی تھی۔

یہاں پہلی گجراتی فلم ماں تے ماں (1970) ، پہلی پشتو فلم’یوسف خان شہر بانو (1970) ، پہلی پاکستانی انگریزی فلم بیانڈ دی لاسٹ ماؤنٹین (1976) بنائی گئیں۔ فلم نادان (1973) کی تکمیل کے دوران فسادات ہوئے جس میں اس فلم سٹوڈیو کو خاصا نقصان پہنچا اور کافی عرصہ تک فلمسازی کا کام رکا رہا تھا۔ آج بھی یہاں ٹی وی پروڈکشن ہورہی ہے۔

انٹرنیشنل سٹوڈیوز

1972ء میں جدید کمپوٹرائزڈ سہولیات سے آراستہ 'انٹرنیشنل سٹوڈیو' کا آغاز ایک اشتہاری کمپنی کے مالک سی اے رؤف نے کیا تھا۔ اس نگار خانے میں بھی دو شوٹنگ فلور ، ریکارڈنگ اور سینما ہال اور ایک لیبارٹری بھی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ لاہور کی بیشتر رنگین فلموں کی پروسیسنگ اسی فلمی سٹوڈیو میں ہوتی تھیں۔

نوویٹاس سنے لیبارٹری

ان کے علاوہ پاکستان کی پہلی سپیشل ویژول ایفیکٹ فلم شانی (1989) کے فلم ساز اور ہدایتکار سعید رضوی نے بھی ایک 'ساؤنڈ اسٹوڈیو نوویٹاس' بنایا تھا۔

موجودہ پاکستان کے علاوہ سابقہ مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ کے ایف ڈی سی فلم سٹوڈیوز میں بھی فلمیں بنتی تھیں۔ ان کے علاوہ چند ایک فلمیں ملک کے دیگر علاقوں کے عارضی اور گمنام فلم سٹوڈیوز میں بھی بنیں۔



Qanoon
Qanoon
(1977)
Daket
Daket
(1989)

Arsi
Arsi
(1947)
Ragni
Ragni
(1945)
Hamjoli
Hamjoli
(1946)
Mubarak
Mubarak
(1941)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan's political, film and media history.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes, and therefor, I am not responsible for the content of any external site.