PAK Magazine | An Urdu website on the Pakistan history
Saturday, 04 May 2024, Day: 125, Week: 18

PAK Magazine |  پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان ، ایک منفرد انداز میں


پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان

Annual
Monthly
Weekly
Daily
Alphabetically

سوموار 11 نومبر 1974

بھٹو کے خلاف ایف آئی آر

جب تاریخ میں پہلی بار وقت کے وزیراعظم کے خلاف FIR کاٹی گئی۔۔!

10 اور 11 نومبر 1974ء کی درمیانی شب پیپلز پارٹی کے ایک بھگوڑے رکن احمد رضا قصوری ، اپنے والد اور گھر کی خواتین کے ہمراہ ایک شادی کی تقریب سے واپسی پر شادمان کالونی لاہور پہنچے تو ان کی گاڑی پر مسلح حملہ آوروں کی طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی تھی جس میں ان کے والد نواب محمد احمد خان قصوری موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے۔

بھٹو کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی

احمد رضا قصوری نے اپنے مقتول باپ کے قتل کی ایف آئی آر وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوؒ کے خلاف لاہور کے تھانہ اچھرہ میں لکھوائی تھی۔ پنجاب حکومت نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے جج شفیع الرحمٰن پر مشتمل ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ پنجاب حکومت کو 26 فروری 1975ء کو جمع کروا دی لیکن وہ رپورٹ منظر عام پر نہ آ سکی۔ اکتوبر 1975ء میں تحقیقاتی افسر ملک محمد وارث کی سفارشات پر کیس یہ کہہ کر داخل دفتر کر دیا گیا کہ ملزمان کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔

مقدمہ قتل کی ازسرنو تفتیش

5 جولائی 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹوؒ کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لا نافذ کیا گیا۔ فوجی حکومت نے بھٹو کی بنائی ہوئی پیرا ملٹری فورس یعنی فیڈرل سکیورٹی فورس (FSF) کے ہاتھوں مبینہ سیاسی قتل اور اغوا جیسے سنگین معاملات کی تفتیش ایف آئی اے کے حوالے کی۔

مارچ 1975ء میں ائیر مارشل اصغر خان پر لاہور ریلوے سٹیشن پر ہونے والے بم حملے کی تحقیقات کے دوران ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالخالق کو شک ہوا کہ فیڈرل سکیورٹی فورس ہی نواب محمد احمد خان کے قتل میں ملوث ہو سکتی ہے اور اسی شک کی بنیاد پر 24 اور 25 جولائی 1977ء کو یعنی مارشل لاء کے ٹھیک بیس دن بعد فیڈرل سکیورٹی فورس کے سب انسپکٹر ارشد اقبال اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر رانا افتخار احمد سے اس کیس کے متعلق تفتیش ہوئی اور دونوں کو اس کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔

وعدہ معاف گواہوں کی گرفتاری

26 جولائی 1977ء کو مجسٹریٹ ذوالفقار علی طور کے سامنے یہ دونوں اہلکار اپنے جرم کا اعتراف کر لیتے ہیں جس کے بعد ڈائریکٹر آپریشنز و انٹیلی جنس میاں محمد عباس اور انسپکٹر غلام مصطفی کو بھی گرفتار کر لیا جاتا ہے جو سب مجسٹریٹ کے روبرو اپنے جرم کا اعتراف کر لیتے ہیں۔ انسپکٹر غلام حسین بھی ملزمان میں شامل تھے لیکن بعد میں وہ وعدہ معاف گواہ بن گئے۔

بھٹو کی گرفتاری

ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود ، جنہیں مارشل لا کے نفاذ کے فوری بعد گرفتار کر لیا گیا تھا ، وہ بھی قید کے دو ماہ بعد بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹوؒ کو بھی اس کیس میں 3 ستمبر 1977ء کو گرفتار کر لیا گیا لیکن دس روز بعد جسٹس کے ایم اے صمدانی نے بھٹو کو ضمانت پر رہا کر دیا جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر جسٹس صمدانی کو فوری طور پر عہدے سے ہٹا دیا گیا اور تین دن بعد بھٹو کو دوبارہ اسی کیس میں مارشل لا کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔

اسی دوران ہائی کورٹ میں نئے ججز تعینات ہوئے اور مولوی مشتاق حسین کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا گیا جو 1965ء میں جب ذوالفقار علی بھٹوؒ ، وزیر خارجہ تھے تو اُن کے سیکریٹری خارجہ کے طور پر ذمہ داری نبھا رہے تھے۔

جب ہائی کورٹ ، ٹرائل کورٹ بن گئی

11 ستمبر 1977ء کو کیس کا نامکمل چالان مجسٹریٹ کی عدالت میں جمع کروایا جاتا ہے اور 13 ستمبر کو سپیشل پبلک پراسیکیوٹر کی درخواست پر کیس لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل کے لیے منتقل کر دیا گیا۔ کیس کا حتمی چالان 18 ستمبر 1977ء کو ہائی کورٹ میں داخل کروا دیا جاتا ہے جس کے بعد کیس کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہوتا ہے جس میں استغاثہ نے 41 گواہان کو پیش کیا۔ ایسے کیسوں کا ٹرائل ہمیشہ سیشن کورٹ میں ہوتا ہے لیکن ملک کی عدالتی تاریخ کا غالباً یہ واحد کیس ہے جس میں ہائی کورٹ ، ٹرائل کورٹ بن گئی تھی جہاں باقاعدہ ’وٹنس باکس‘ بنائے گئے تھے۔ دوران ٹرائل میاں محمد عباس اپنے اعترافی بیان سے یہ کہتے ہوئے مُکر گئے کہ ان کا پہلا بیان مجسٹریٹ کے سامنے دباؤ کے تحت لیا گیا تھا۔ انھوں نے بیان دیا کہ اسے ایسی کسی سازش کا علم نہیں اور نہ ہی انھوں نے وعدہ معاف گواہ غلام حسین یا فیڈرل سکیورٹی فورس کے کسی بھی اہلکار کو اس مقصد کے لیے کوئی اسلحہ مہیا کرنے کی ہدایات دیں تھیں۔ غلام مصطفی ، ارشد اقبال اور رانا افتخار احمد اپنے اعتراف جرم پہ قائم رہے کہ انھوں نے اس رات حملہ اپنے سینئر غلام حسین اور میاں محمد عباس کے کہنے پر کیا تھا جس سے احمد رضا خان کے والد کی موت ہوئی تھی۔

2 مارچ 1978ء کو ٹرائل مکمل ہو جاتا ہے اور 18 مارچ 1978ء کو کیس کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے جس میں ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ شواہد کی موجودگی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹوؒ نے ڈائریکٹر جنرل فیڈرل سکیورٹی فورس مسعود محمود کے ساتھ مل کر احمد رضا قصوری کو قتل کرنے کی سازش تیار کی تھی اور فیڈرل سکیورٹی فورس کے حملے کے نتیجے میں ہی ان کے والد محمد احمد خان قصوری مارے گئے تھے۔

جب بھٹو کو موت کی سزا سنا دی گئی

ذوالفقار علی بھٹوؒ کو اس کیس میں موت کی سزا سنائی گئی۔ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 109 کے تحت آج تک کسی بندے کو ایسے کسی کیس میں سزائے موت کی سزا نہیں دی گئی تھی۔ مسعود محمود کو وعدہ معاف گواہ بنانا پڑا اور وعدہ معاف گواہ جیسے کیسوں میں قانونی طور پر موت کی سزا نہیں دی جا سکتی تھی۔

ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا جہاں پر نو ججز تھے۔ ایک جج جولائی 1978ء میں ریٹائر ہو گئے جبکہ ایک بیماری کی وجہ سے رخصت پر بھیج دیئے گئے۔ باقی سات ججوں نے فروری 1979ء کو اپیل پر فیصلہ سنایا۔ سات میں سے چار ججوں نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا جبکہ تین ججوں نے بھٹو کو بری کر دیا تھا۔ اس منقسم فیصلے کے بعد سپریم کورٹ سے اپیل متفقہ طور پر مسترد ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹوؒ کو 4 اپریل 1979ء کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تھا۔






FIR against Bhutto

Monday, 11 November 1974

Nawab Muhammad Ahmad Khan, father of dissident PPP MNA Ahmad Raza Kasuri was killed on November 11, 1974 in Lahore. Mr. Kasuri named the Prime Minister Bhutto in the FIR..




پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ

پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ



پاکستان کے اہم تاریخی موضوعات



تاریخِ پاکستان کی اہم ترین شخصیات



تاریخِ پاکستان کے اہم ترین سنگِ میل



پاکستان کی اہم معلومات

Pakistan

چند مفید بیرونی لنکس



پاکستان فلم میگزین

"پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔


پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……

پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.