PAK Magazine | An Urdu website on the Pakistan history
Saturday, 04 May 2024, Day: 125, Week: 18

PAK Magazine |  پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان ، ایک منفرد انداز میں


پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان

Annual
Monthly
Weekly
Daily
Alphabetically

جمعتہ المبارک 23 فروری 1951

راولپنڈی سازش کیس

راولپنڈی سازش کیس
میجر جنرل اکبر خان

راولپنڈی سازش کیس ، پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے خلاف پہلی فوجی بغاوت تھی۔۔!

سرکاری بیان کے مطابق 23 فروری 1951ء کی رات کو راولپنڈی کینٹ میں چیف آف آرمی سٹاف میجر جنرل محمد اکبر خان کی رہائش گاہ پر درجن بھر فوجی اور چند سویلین کا گٹھ جوڑ ہوا جس میں پاکستان کے قیام کے صرف ساڑھے تین سال بعد پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی مبینہ سازش تیار کی گئی تھی۔

9 مارچ 1951ء کو وزیرِاعظم پاکستان خان لیاقت علی خان نے اس سازش کا انکشاف کیا اور 15 مارچ 1951ء کو اپنے بیان میں یہ اضافہ بھی کیا کہ "جنرل اکبر نے کمیونسٹوں اور دیگر انقلابی عناصر کے ساتھ مل کر طاقت کے استعمال کا منصوبہ بنایا تھا۔۔!"

اگلے دن ، 18 بڑے قومی اخبارات نے بیک وقت ایک ہی اداریہ شائع کیا جس میں اتفاقِ رائے سے ایک قرارداد منظور کی گئی اور اس باغیانہ فعل کی کوشش پر کراہت کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کی مکمل حمایت کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔

راولپنڈی سازش کیس کے "سازشی عناصر"

حکومتی دعوے کے مطابق راولپنڈی سازش کیس میں شریک ملزمان میں سے گیارہ فوجی افسران اور چار سویلین تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ گیارہ میں سات فوجی افسران اپنی پیشہ وارانہ کارکردگی کی وجہ سے اعلیٰ فوجی اعزاز یافتہ تھے جنھیں بغاوت کے جرم میں فوج سے سبکدوش کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے بیشتر فوجی افسران کی کشمیر کے محاذ پر انتہائی قابل قدر کارکردگی تھی اور ان میں سے کسی ایک کا بھی کمیونسٹ پارٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

راولپنڈی سازش کیس کے "سازشی عناصر" کی مکمل فہرست مندرجہ ذیل ہے:

  • میجر جنرل محمد اکبر خان (DSO) (چیف آف دی جنرل اسٹاف)
  • میجر جنرل نذیر احمد (MBE)
  • ائر کموڈور محمدخان جنجوعہ (ائر فورس کےسینئر ترین پاکستانی افسر)
  • بریگیڈیر ایم اے لطیف خان (MC) (کمانڈر کوئٹہ)
  • بریگیڈیر محمد صادق خان (MC)
  • لیفٹیننٹ کرنل نیاز محمد ارباب
  • لیفٹیننٹ کرنل ضیاء الدین (MBE)
  • میجر حسن خان (MC)
  • میجر اسحاق محمد (MC)
  • کیپٹن خضر حیات
  • کیپٹن ظفر اللہ پوشنی
  • بیگم نسیم جہاں (جنرل اکبر کی بیگم)
  • فیض احمد فیض (پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر)
  • سید سجاد ظہیر (سربراہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی)
  • محمدحسین عطا (پاکستان کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن)

ان کے علاوہ اس میٹنگ میں لیفٹیننٹ کرنل صدیق راجہ اور میجر یوسف سیڈھی بھی موجود تھے، جو بعد میں استغاثہ کی طرف سے بطور وعدہ معاف گواہ پیش ہوئے۔ یاد رہے کہ جنرل اکبر اور ان کی بیگم ، بھٹو دور میں اور کرنل نیاز محمد ارباب ، جنرل ضیاع مردود کے دور میں حکومتوں میں شامل رہے۔

راولپنڈی مقدمہ کیس کیا تھا؟

راولپنڈی مقدمہ کیس (یا راولپنڈی سازش کیس) کی اس مشہورِ زمانہ میٹنگ میں جنرل اکبر خان نے اپنا بغاوت کا منصوبہ پیش کیا جس کے مطابق گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین اور وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو ایک ہفتہ بعد اسلام آباد آنے پرگرفتار کیا جانا تھا۔ اس کے بعد گورنر جنرل سے یہ اعلان کروایا جاتا کہ انھوں نے لیاقت حکومت کوبرطرف کر دیا ہے۔ اکبرخان کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت قائم کی جاتی جو کچھ عرصہ بعد جنرل الیکشن کرواتی اور اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو سونپ دیا جاتا۔

اس موضوع پر زیادہ تر بات جنرل اکبر خان ہی نے کی اور بحث و مباحثہ مسلسل 8 گھنٹے جاری رہا۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل صاحب کے منصوبے پر کوئی اتفاقِ رائے نہ ہو سکا۔ اس طرح سے یہ میٹنگ بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہو گئی تھی۔

سازش کا انکشاف کیسے ہوا؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سازش کا انکشاف ایک ایسے شخص نے کیا جو اس میٹنگ میں شریک ہی نہیں تھا لیکن اس کو قبل از وقت پتہ چل چکا تھا کہ جنرل اکبر کیا بات کہنے والے ہیں۔ پولیس انسپکٹر عسکر علی شاہ نے اس خبر کو گورنر سرحد آئی آئی چندریگر تک پہنچایا جنھوں نے یہ خبر وزیراعظم لیاقت علی خان کو دی۔

حکومت نے اس خبر پر فوری کاروائی کی اور درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا۔ فردِ جرم صرف 15 افراد پر لگائی گئی۔ اس دوران پارلیمنٹ سے ایک خصوصی قانون بھی پاس کروایا گیا جس کے تحت حیدرآباد جیل میں 15 جون 1951ء سے کاروائی شروع کی گئی۔ جسٹس سرعبدالرحمٰن ، جسٹس محمد شریف اور جسٹس امیر الدین تھے۔ استغاثہ کی طرف سے پیش ہونے والی وکلاء کی ٹیم کے سربراہ، اے کے بروہی تھے۔ ملزمان کی جانب سے حسین شہید سہروردی، زیڈ ایچ لاری، خواجہ عبدالرحیم، ملک فیض محمد، صاحبزادہ نوازش علی، قاضی اسلم اور محمود قصوری پیش ہوئے۔

"سازش" کی تعریف کیا ہے؟

اس مقدمہ کا سارا دارومدار دو فوجی افسروں لیفٹیننٹ کرنل صدیق راجہ اور میجر یوسف سیٹھی کے بیانات پر تھا جن کی غلط بیانی پر ملزمان کو مختلف المیعاد سزائیں دی گئی تھیں جو اسمبلی برخاست ہونے پر قانون کی منسوخی کے بعد سزائیں بھی معطل ہو گئی تھیں۔ ان کے علاوہ مزید گواہان میں سے بریگیڈیر حبیب اللہ بھی تھے جو بعد میں لیفٹیننٹ جنرل بنے۔ وہ نہ صرف گندھارا انڈسٹریز کے مالک بنے بلکہ صدر ایوب خان کے سمدھی بھی تھے یعنی گوہر ایوب خان کے سسر اور عمر ایوب خان کے نانا۔ صوبہ کے پی کے سیاسی لیڈر یوسف خٹک ، ان کے بھائی اور کلثوم سیف اللہ ان کی بہن تھی۔

پاکستان پینل کوڈ کے مطابق "سازش" کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے:

    The Crime of Conspiracy is only established when two or more persons agreement commit an illegal act or a legal act by illegab mean

(یعنی جب تک دو یا ان سے زائد افراد کے مابین معاہدہ نہ ہو ، وہ سازش نہیں ہوتی ، جیسا کہ عمران خان کا بدنام زمانہ سائفر کیس۔۔!)

راولپنڈی سازش کیس کا پس منظر

راولپنڈی سازش کیس کے سرغنہ ، میجر جنرل محمد اکبر خان نے اپنی کتاب Raiders in Kashmir میں اس پورے واقعہ کو "کارٹون کہانی" قرار دیا ہے لیکن یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ وہ لیاقت حکومت کی مسئلہ کشمیر اور امریکہ/برطانیہ نواز پالیسی کے سخت نقاد تھے اور نجی محفلوں میں اس کا برملا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔

میجر جنرل محمد اکبر خان ، جنگِ کشمیر کے ہیرو تھے۔ پاکستان کے پاس جو گلگت ، بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاقے موجود ہیں ، وہ جنرل اکبر اور ان کے معتوب ساتھیوں کی کاوشوں کا مرہونِ منت رہے ہیں ورنہ جب 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج ، کشمیر میں اتری تو قائدِاعظمؒ کے حکم کے باوجود پاک فوج کے انگریز آرمی چیف نے فوجی کاروائی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس عدم تعاون اور محدود وسائل کے باوجود کشمیر کی جنگ یکم جنوری 1949ء تک جاری رہی اور بھارتی فوج تمام تر وسائل اور برتری کے باوجود پاکستانی علاقے واپس نہیں لے سکی تھی۔ یہ سارا کریڈٹ جنرل اکبر اور ان کے ساتھیوں کو جاتا ہے جو سرکاری پالیسوں سے بیزار تھے۔ رہی سہی کسر حکومت کی امریکہ نواز پالیسوں نے پوری کر دی تھی جو کسی بھی خوددار اور غیرت مند شخص کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔

ان "سازشی عناصر" کا یہی عمل اس سازش کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ جنرل اکبر کے بقول اس نام نہاد سازش کے منصوبہ ساز پاکستان کے پہلے مسلمان آرمی چیف جنرل ایوب خان تھے جو فوج سے ایسے عناصر کا خاتمہ چاہتے تھے جو ان کے مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹ تھے۔

فیض احمد فیض

راولپنڈی سازش کیس میں سب سے بڑا سویلین نام وقت کے عظیم شاعر اور انگریزی اخبار دی پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض تھے۔ وہ ، حکومتِ وقت کے بہت بڑے ناقد تھے۔ خاص طور پر پنجاب میں ہونے والے پہلے صوبائی انتخابات میں (جو 10 مارچ 1951 کو ہوئے) ، لیاقت حکومت کے طرزِ عمل پر تنقید کرتے رہتے تھے۔ وہ تین ماہ تک "لاپتہ" رہے اور بالآخر 5 سال کی جیل ہوئی اور 1955ء میں اس قانون کی منسوخی پر رہا ہوئے تھے۔

پاکستان کمیونسٹ پارٹی

راولپنڈی سازش کیس سے جہاں "ناپسندیدہ فوجی افسران" اور ایک نامور صحافی سے چھٹکارا پایا گیا ، وہاں سرد جنگ کے عروج کے دور میں امریکی دباؤ پر پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر بھی عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا اور بالآخر "ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والی" اس چھوٹی سی بے ضرر پارٹی پر 24 جولائی 1954ء کو پابندی لگا دی گئی تھی۔ پاکستان کمیونسٹ پارٹی کا احیاء ، بھٹو دور حکومت میں ہوا لیکن اس پارٹی کو عوام میں کبھی پذیرائی نہ مل سکی۔

پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری سید سجاد ظہیر تھے ، جو جیل کاٹنے کے بعد واپس بھارت چلے گئے تھے۔ ان کے ساتھ اس پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن محمدحسین عطا کو بھی مشرقی پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھا جبکہ جنرل اکبر کی بیگم ، نسیم جہاں کو بھی حکومت مخالف بیانات دینے اور کمیونسٹ نظریات سے ہمدردی کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔

مقدمات کا فیصلہ

خصوصی عدالت نے راولپنڈی سازش کیس کا فیصلہ 5 جنوری 1953 کو سنایا۔ جنرل اکبر کو 12 برس قید کی سزا سنائی گئی جبکہ باقی افسران کو مختلف المیعاد قید کی سزا دی گئی۔ میجر جنرل نذیر احمد کو عدالت کے برخاست ہونے تک قید کی سزا دی گئی۔ ان کے علاوہ فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر کو پانچ پانچ برس کی سزا سنائی گئی۔ بیگم نسیم اکبر (نسیم جہاں) کو دو برس قید میں رکھنے کے بعد بری کر دیا گیا۔

1954ء میں جب پہلی دستور ساز اسمبلی کو گورنر جنرل ملک غلام محمد نے برخاست کیا تو اس کے بنائے ہوئے سبھی قوانین بھی منسوخ ہوگئے ، اسی بنا پر تمام اسیروں کی قبل از وقت رہائی ممکن ہوئی تھی۔

Rawalpindi Conspiracy Case





Rawalpindi Conspiracy Case

Friday, 23 February 1951

Rawalpindi Conspiracy Case was an attempted coup d'état against Liaquat Ali Khan, the first Prime Minister of Pakistan, in 1951. The coup was planned by Major-General Akbar Khan, a senior commander in the Pakistani army, in conjunction with 15 other military officers and left-wing Pakistani politicians.




پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ

پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ



پاکستان کے اہم تاریخی موضوعات



تاریخِ پاکستان کی اہم ترین شخصیات



تاریخِ پاکستان کے اہم ترین سنگِ میل



پاکستان کی اہم معلومات

Pakistan

چند مفید بیرونی لنکس



پاکستان فلم میگزین

"پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔


پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……

پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.