PAK Magazine | An Urdu website on the Pakistan history
Sunday, 05 May 2024, Day: 126, Week: 18

PAK Magazine |  پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان ، ایک منفرد انداز میں


پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان

Annual
Monthly
Weekly
Daily
Alphabetically

بدھ یکم نومبر 1989

بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد

بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد

یکم نومبر 1989ء کے دن وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف ایک تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جو صرف 12 وؤٹوں کے فرق سے ناکام ہو گئی تھی۔۔!

عدم سیاسی استحکام پیدا کرنے کی سازش

صرف گیارہ ماہ قبل یعنی 2 دسمبر 1988ء کو عوامی وؤٹوں سے منتخب ہونے والی عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی کمزور حکومت کو ایک بھرپور دھکا لگایا گیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ پاکستان جیسے ملک میں طاقت کا سرچشمہ عوام کبھی نہیں ہوسکتے۔

23 اکتوبر 1989ء کو پاکستان کے خفیہ اداروں کے قائم کیے گئے سیاسی اتحاد "اسلامی جمہوری اتحاد" اور متحدہ اپوزیشن کے 86 اراکین نے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروا دی تھی۔ "لوٹوں کے شہنشاہ" چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم بھی تھی جسے تاریخ میں دہشت گردی کے علاوہ "تھالی کے بینگن" کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

ہارس ٹریڈنگ یا کھوتوں اور ٹٹوؤں کی خریدوفروخت

یکم نومبر 1989ء کے دن عدم اعتماد کی تحریک سے قبل پاکستان کی سیاسی تاریخ کا "میلہ مویشیاں" لگایا گیا تھا جس میں جانوروں کی بجائے سیاستدانوں یا ارکان اسمبلی کی بے مثل خریدوفروخت ہوئی تھی۔ فریقین یعنی حکومت اور مخالفین نے قیمتی پجیرو گاڑیاں ، صنعتی اور کاروباری پرمٹ ، پلاٹ ، الاٹ منٹس ، نقد رقوم سے بھرے بریف کیس ، بینکوں سے آسان شرائط پر قرضے اور عزیزواقارب کے لیے سہولیات وغیرہ سے ارکان اسمبلی کی بولیاں لگائیں۔ پاکستان کے میڈیا میں "ہارس ٹریڈنگ" ایک عام فہم لفظ بن گیا تھا جسے عوامی زبان میں "گدھوں یا کھوتوں اور گھوڑوں یا ٹٹوؤں کی خریدوفروخت" کہا جاتا تھا۔

اراکین اسمبلی کی "حفاظت"

حکومت اور اپوزیشن نے اپنے اپنے ممبرانِ اسمبلی کی "حفاظت" کے لیے انھیں "محفوظ اور مخصوص مقامات" پر منتقل کر دیا تھا۔ حزب اختلاف کے ارکان کو یا تو نواب اکبربگتی کی نگرانی میں بلوچستان ہاؤس اسلام آباد یا پھر مری لے جایا گیا جو صوبہ پنجاب کا حصہ تھا جہاں بے نظیر بھٹو کے سیاسی حریف نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ کی حکومت تھی۔ پیپلز پارٹی نے اپنے اراکین اسمبلی کو سوات کے مقام پر مینگورہ میں منتقل کر دیا تھا جو صوبہ سرحد یا خیبرپختونخواہ میں تھا ، جہاں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت تھی۔

تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ

یکم نومبر 1989ء کے دن عدم اعتماد کی تحریک میں وؤٹنگ سے قبل غلام مصطفیٰ جتوئی ، مولانا فضل الرحمان ، ڈاکٹر عمران طاہر اور عابدہ حسین نے تحریک کے حق میں تقاریر کی تھیں۔ جوابی تقریر صرف وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے کی تھی۔

اسوقت پاکستان کی قومی اسمبلی میں 237 اراکین تھے۔ عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے لیے 119 وؤٹ درکار تھے لیکن صرف 107 وؤٹ ہی مل سکے اور اس طرح سے بے نظیر بھٹو کی کمزور حکومت صرف 12 وؤٹوں کے فرق سے بچ گئی تھی۔ البتہ اس بیچاری کو سکون کا سانس نہیں لینے دیا گیا تھا اور صرف نو ماہ بعد ہی یعنی 6 اگست 1990ء کو کرپشن کے گھسے پٹے ، بے سروپا اور بھونڈے الزامات لگا کر برطرف کردیا گیا تھا۔

خفیہ ایجنسیوں کا کردار

بظاہر اس تحریک عدم اعتماد کے پیچھے اس وقت کی مخلوط اپوزیشن یا کمبائنڈ اپوزیشن پارٹی (CPO) تھی لیکن کچھ دنوں بعد یہ حقیقت سامنے آئی تھی کہ خفیہ ادارہ ISI اس تحریک کے پیچھے تھا جس کے دو افسران ، بریگیڈیر امتیاز اور میجر عامر کو فوج سے نکال دیا تھا۔ آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے اس واقعہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب اور بے نظیربھٹو کے سب سے بڑے سیاسی حریف ، میاں محمد نواز شریف نے وزیراعظم بنتے ہی انعام میں بریگیڈیر امتیاز کو خفیہ ادارے IB کا سربراہ بنا دیا تھا۔

آپریشن مِڈ نائٹ جیکل

1989ء کی اس عدم اعتماد کی تحریک کا محرک "آپریشن مڈنائٹ جیکل" (Operation Midnight Jackal) نامی خفیہ آپریشن تھا جس کے تحت حکومت کے ارکان کو خریدنے کی کوشش کی گئی۔ حکومت کے ایک ایم این اے محمد عارف اعوان نے حزب اختلاف اور ISI کے افراد کے ساتھ اپنی کئی ملاقاتوں کے دوران ہونے والی بات چیت کو ٹیپ کیا تھا۔ ان ٹیپوں پر ان کو اور ان کے دو ساتھیوں کو حکومت کے خلاف وؤٹ دینے کے لیے اس وقت کی خطیر رقم پچاس لاکھ روپے کی پیشکش کی گئی تھی۔ پیپلز پارٹی کے ایک رکن اور سابق وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ خان بابر نے بتایا کہ اس موقع پر ثبوت کے طور پر آڈیو اور ویڈیو ٹیپیں بنائی گئیں اور فوج سے شکایت کی گئی جنھوں نے الزام ثابت ہونے پر "آدھی رات کے ان دونوں گیدڑوں" یعنی مڈنائٹ جیکلز کو جبری ریٹائر کر دیا تھا۔

اصغرخان کیس

تحریک استقلال کے سربراہ ائیر مارشل اصغر خان نے بھی سپریم کورٹ میں ایک مشہور زمانہ "اصغرخان کیس" میں آئی ایس آئی کی سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا جس کے مطابق اس خفیہ ایجنسی نے 1990ء کے انتخابات میں نہ صرف "اسلامی جمہوری اتحاد" (IJI) قائم کی بلکہ اس کو رقم بھی فراہم کرتی رہی اور انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی کے خلاف اس کی منصوبہ بندی میں بھی سر گرم رہی۔ اس کیس پر آج تک کسی کو کاروائی کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔

جنرل ضیاع مردود کی بدروح

اس واقعہ سے یہ صاف ظاہر ہوگیا تھا کہ حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور فوج یا اسٹبلشمنٹ ایک پیج پر نہیں تھے۔ صدر غلام اسحاق خان سے بھی بے نظیر بھٹو کے تعلقات کشیدہ تھے۔ بنیادی وجہ یہ تھی بے نظیر کی ناتجربہ کار اور کمزور حکومت ، آئین میں 8ویں ترمیم کو ختم کرنا چاہتی تھی جس سے صدر کو یہ ناجائز اختیار حاصل تھا کہ وہ جب چاہے ، اپنی صوابدید پر عوام کی منتخب حکومت کو گھر بھیج سکتا ہے۔ یہ بدنام زمانہ آٹھویں ترمیم ، جنرل ضیاع مردود کی وہ بدروح تھی جو نہ صرف پاکستانی عوام کی توہین تھی بلکہ ملک میں عدم سیاسی استحکام کی وجہ بھی تھی۔






No-Confidence-Motion against Benazir Bhutto

Wednesday, 1 November 1989

A No-Confidence-Bid against Prime Minister Benazir Bhutto failed on November 1, 1989..


No-Confidence-Motion against Benazir Bhutto (video)

Credit: AP Archive



پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ

پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ



پاکستان کے اہم تاریخی موضوعات



تاریخِ پاکستان کی اہم ترین شخصیات



تاریخِ پاکستان کے اہم ترین سنگِ میل



پاکستان کی اہم معلومات

Pakistan

چند مفید بیرونی لنکس



پاکستان فلم میگزین

"پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔


پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……

پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.