پاک میگزین پر تاریخِ پاکستان
جمعتہ المبارک 7 جولائی 1972
اردو سندھی تنازعہ
جب سندھ کے لسانی فسادات میں 34 افراد ہلاک ہوئے۔۔!
3 جولائی 1972ء کو سندھ میں پیپلز پارٹی کی نو منتخب حکومت نے حزبِ اختلاف کے شدید احتجاج کے باوجود اکثریت کے بل بوتے پر ایک بل پاس کیا جس میں سندھی زبان کو صوبہ سندھ کو اکلوتی زبان قرار دیا۔ اس وقت سندھ کے وزیرِاعلیٰ ممتاز علی بھٹو اور گورنر رسول بخش تالپور تھے۔
حکومتِ سندھ کے اس انتہائی متعصبانہ، احمقانہ اور غیر منصفانہ بل کے خلاف 7 جولائی 1972ء کو روزنامہ جنگ نے سیاہ حاشیے میں پورے صفحہ پر رئیس امروہوی کا "اردو کا نوحہ" شائع کیا جو انھوں نے اس سے پہلے 7 مارچ 1952ء کو"اردو بنگالی تنازعہ" کے دوران لکھا تھا: "اردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے۔۔"
اس نظم نے کراچی، حیدرآباد اور دیگر ہندوستانی مہاجرین کے علاقوں میں فسادات کی آگ بھڑکا دی اور چند دنوں میں 34 افراد ہلاک ہوگئے۔ اس موقع پر وفاقی حکومت نے مداخلت کی اور صدر ذوالفقارعلی بھٹو نے ایک چار رکنی کمیٹی بنائی جس نے فریقین سے مذاکرات کے بعد فیصلہ کیا کہ سندھی کے علاوہ اردو بھی صوبہ سندھ کی سرکاری زبان ہوگی۔ 21 جولائی 1972ء کو گورنر نے نیا آرڈیننس جاری کردیا تھا۔
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
-
کیوں جانِ حزیں، خطرہِ موہوم سے نکلے
کیوں نالۂ حسرت، دلِ مغموم سے نکلے
آنسو نہ کسی دیدۂ مظلوم سے نکلے
کہہ دو کہ نہ شکوہ لبِ مغموم سے نکلے
اُردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے
اردو کا غم مرگِ سبک بھی ہے، گراں بھی
ہے شامل اربابِ عزا، شاہ جہاں بھی
مٹنے کو ہے اسلاف کی عظمت کا نشاں بھی
یہ میت، غمِ دہلی مرحوم سے نکلے
اُردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے
اے تاج محل، نقش بہ دیوار ہو غم سے
اے قلعۂ شاہی، یہ الم پوچھ نہ ہم سے
اے خاک اودھ، فائدہ کیا شرح ستم سے
تحریک یہ مصر و عرب و روم سے نکلے
اُردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے
سایہ ہو جب اردو کے جنازے پہ ولیؔ کا
ہوں میر تقیؔ ساتھ تو ہم راہ ہوں سوداؔ
دفنائیں اسے مصحفیؔ و ناسخؔ و انشاؔ
یہ فال، ہر اک دفتر منظوم سے نکلے
اُردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے
بد ذوق ہے احباب سے گو ذوق ہیں رنجور
اردوئے معلیٰ کے نہ ماتم سے رہیں دور
تلقین، سرِ قبر پڑھیں مومن مغفور
فریاد، دلِ غالبؔ مرحوم سے نکلے
اُردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے
ہے مرثیہ خواں قوم، ہیں اردو کے بہت کم
کہہ دو کہ انیسؔ، اس کا لکھیں مرثیۂ غم
جنت سے دبیرؔ آ کے پڑھیں نوحۂ ماتم
یہ چیخ اٹھے دل سے نہ حلقوم سے نکلے
اُردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے
اس لاش کو چپکے سے کوئی دفن نہ کر دے
پہلے کوئی سرسیدؔ اعظم کو خبر دے
وہ مرد خدا، ہم میں نئی روح تو بھر دے
وہ روح کہ موجود نہ معدوم سے نکلے
اُردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے
اردو کے جنازے کی یہ سج دھج ہو نرالی
صف بستہ ہوں مرحومہ کے سب، وارث و والی
آزادؔ و نذیرؔ و شررؔ و شبلیؔ و حالیؔ
فریاد، یہ سب کے دل مغموم سے نکلے
اُردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے
دلچسپ بات یہ ہے کہ رئیس امروہی نے "اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔۔" کی نظم کا پہلا مصرعہ آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے صدر نواب محسن الملک کے اس شعر سے مستعار لیا تھا "عاشق کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے۔۔"
اتفاق سے یہ مصرعہ انھوں نے 1900ء میں "اردو ہندی تنازعہ" پر لکھا تھا جب ایک طویل ہندومسلم کشیدگی کے بعد انگریز حکومت نے ہندی یا ہندوستانی زبان کو دیوناگری رسم الخط میں لکھنے کی اجازت دے دی تھی۔ اس سے قبل 1837ء میں چھ سو سال سے ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی کی جانشین، اردو کو انگریزی کے ساتھ سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تھا جو فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور ہندو اکثریت کو یہ قبول نہ تھا۔
Urdu Sindhi conflict
Friday, 7 July 1972
Violent clashes erupted on July 7, 1972 in Karachi and other towns when Sindh Assembly passed a Bill, which established Sindhi language as the sole official language of the Sindh province..
پاکستان کی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ
پاک میگزین ، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک منفرد ویب سائٹ ہے جس پر سال بسال اہم ترین تاریخی واقعات کے علاوہ اہم شخصیات پر تاریخی اور مستند معلومات پر مبنی مخصوص صفحات بھی ترتیب دیے گئے ہیں جہاں تحریروتصویر ، گرافک ، نقشہ جات ، ویڈیو ، اعدادوشمار اور دیگر متعلقہ مواد کی صورت میں حقائق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ عظیم الشان سلسلہ، اپنی تکمیل تک جاری و ساری رہے گا، ان شاءاللہ
-
14-08-1973: 1973ء کا مستقل آئین
31-03-2022: پاکستان کے وزرائے اعظم
24-01-1979: سعودی عرب کی رحم کی اپیل